Maarif-ul-Quran - Maryam : 47
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا
قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكَ : تجھ پر سَاَسْتَغْفِرُ : میں ابھی بخشش مانگوں گا لَكَ : تیرے لیے رَبِّيْ : اپنا رب اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِيْ : مجھ پر حَفِيًّا : مہربان
(ابراہیم علیہ السلام) بولے آپ میرا سلام لیں،69۔ اب میں آپ کے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت کی درخواست کروں گا،70۔ بیشک وہ مجھ پر بہت مہربان ہے،71۔
69۔ (اور میری اور آپ کی راہیں آج سے جدا ہیں) حضرت نے جب دیکھا کہ تبلیغ ونصیحت کا اثر الٹا ہورہا ہے تو کہا، بہتر ہے میرا آخری سلام قبول ہو۔ میں اب رخصت ہوتا ہوں۔ یہ سلام وداع اور رخصتی کا ہے کہ میری راہ الگ ہے، آپ کی راہ الگ۔ اس سے اس فقہی مسئلہ کو کہ کافر کو سلام جائز ہے یا نہیں، نفیا یا اثباتا کوئی تعلق ہی نہیں۔ توادع ومتارکۃ (کبیر) قال المجھور ھذا بمعنی المسالمۃ لابمعنی التحیۃ (بحر) ھذالسلام للمتارکۃ بقرینۃ المقام فلامس بمسئلۃ السلام علی الکافر جواز ومنعا بھذا المقام (تھانوی (رح) لیکن بعض نے یہ بھی کہا کہ یہ سلام رفق وآشتی ومسالمت کا ہے اور اس میں اس کی تعلیم ہے کہ سفیہ کو حلیم کی زبان سے ایسا ہی جواب ملنا چاہیے اور اس میں حق ابوت کا احترام بھی ہے۔ قیل سلام برولطف وھو جواب الحلیم للسفیہ (معالم) یعنی امالنا فلانیالک منی مکروہ ولا اذی وذلک محرمۃ الابوۃ (ابن کثیر) مقابلۃ للسیءۃ بالحسنۃ اے لا اصیبک بمکروہ (بیضاوی) 70۔ (اس طرح کہ آپ کو جیتے جی ہدایت نصیب ہوجائے کہ اسی پر مغفرت مرتب ہوتی ہے) معناہ ساسال اللہ تعالیٰ لک توبۃ تنال بھا المغفرۃ (معالم) انما استغفر لابیہ لانہ کان یرجوا منہ الایمان (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہ سند ہے کافر کے لیے دعائے ہدایت کے جواز کی۔ 71۔ (اس لیے مجھے امید ہے کہ وہ میری دعا قبول بھی کرلے گا، بشرطیکہ وہ کسی حکمت تکوینی کے معارض نہ ہوئی)
Top