Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 36
وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْكِرُ بَعْضَهٗ١ؕ قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖ١ؕ اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے انہیں دی الْكِتٰبَ : کتاب يَفْرَحُوْنَ : وہ خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس سے جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف وَ : اور مِنَ : بعض الْاَحْزَابِ : گروہ مَنْ : جو يُّنْكِرُ : انکار کرتے ہیں بَعْضَهٗ : اس کی بعض قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : میں عبادت کروں اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَآ اُشْرِكَ : نہ شریک ٹھہراؤں بِهٖ : اس کا اِلَيْهِ : اس کی طرف اَدْعُوْا : میں بلاتا ہوں وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف مَاٰبِ : میرا ٹھکانا
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (کتاب) سے جو تم پر نازل ہوئی ہے خوش ہوتے ہیں اور بعض فرقے اس کی بعض باتیں نہیں بھی مانتے۔ کہہ دو کہ مجھ کو یہی حکم ہوا ہے کہ خدا ہی کی عبادت کروں اور اسکے ساتھ (کسی کو) شریک نہ بناؤں۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے لوٹنا ہے۔
خطاب بہ اہل کتاب دربارہ نبوت قال اللہ تعالیٰ والذین اتینھم الکتب یفرحون .... الیٰ .... ومن عندہ علم الکتب (ربط) اوپر کی آیتوں یعنی وان تعجب فعجب قولہم (الخ) ویقول الذین کفروا میں نبوت کی بحث گزری، اب ان آیات میں اہل کتاب کی حالت اور منکرین نبوت کے چند شبہات کا جواب دیتے ہیں کفار عرب آنحضرت ﷺ کی نبوت میں زیادہ یہ شبہات کیا کرتے تھے ایک شبہ یہ تھا کہ پیغمبر کو تو فرشتوں کی طرح زن و فرزند سے اور علائق بشر یہ سے پہلے جو نبی بھیجے گئے اور جن کی نبوت کو اہل کتاب بھی مانتے ہیں جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وغیرہ وہ بھی اہل و عیال والے تھے دوسرا شبہ یہ کرتے تھے کہ یہ کیسے نبی ہیں کہ جو ہماری خواہش کے مطابق معجزات نہیں دکھلا سکتے وما کان لرسول ان یاتی بایۃ میں اس شبہ کا جواب دیا گیا کہ یہ بات رسول کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ تیسرا شبہ ان کا یہ تھا کہ ہماری تکذیب اور مخالفت پر جن مصائب اور آفات سے ہم کو ڈراتے ہیں وہ ہم پر نازل کیوں نہیں ہوتیں۔ لکل اجل کتاب سے اس شبہ کا جواب دیا کہ خدا کے یہاں ہر شے کا وقت مقرر ہے جو پہلے سے لکھا جا چکا ہے اور اس لفظ سے ان کے ایک اور شبہ کا اجمالا جواب ہوگیا کہ یہ کیسے نبی ہیں کہ تورات و انجیل کے احکام کا اور خود اپنی شریعت کے احکام کا نسخ جائز رکھتے ہیں معلوم ہوا کہ یہ قرآن خدائی کلام نہیں پھر آئندہ آیت میں اسی جواب کی تفصیل فرمائی یمحوا اللہ ما یشاء ویثبت۔ کہ حسب مصلحت احکام بدلتے رہتے ہیں ان شبہات کا جواب دیتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ اور جن لوگوں کو ہم نے آسمانی کتاب دی یعنی توریت و انجیل جیسے عبد اللہ بن سلام ؓ اور نصارائے نجران و یمن۔ مراد اس سے وہ اہل کتاب ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس عطیہ کو قبول کیا اور اس سے منتفع ہوئے ایسے لوگ خوش ہوتے ہیں اس کتاب سے جو آپ کی طرف نازل کی گئی کیونکہ نور عقل سے قرآن کو علم و معرفت کا منبع پاتے اور اس کی خبر اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور بعضے فرقے اس قرآن کی بعض باتوں کو نہیں مانتے جو ان کی دنیوی اغراض و منافع میں حائل اور مانع بنتی ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہیں اپنا اختیار ہے کہ تم اپنے احمقانہ عقائد تثلیث اور کفارہ پر قائم رہو جزایں نیست کہ مجھ کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف ایک اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں کسی کو خدا کا بیٹا ماننا یا جورو بنانا یہ شرک ہے اور میں لوگوں کو صرف اللہ ہی کی طرف بلاتا ہوں نہ کسی غیر کی جانب کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اسی کی طرف دعوت دینے کے لیے مبعوث ہوا ہوں اور اس کی طرف مجھے واپس جانا ہے اس سرائے فانی کا قیام چند روزہ ہے مطلب یہ ہے کہ قیامت حق ہے اور اس پر میرا ایمان ہے اور یہ امور اہل کتاب کے نزدیک بھی مسلم ہیں اس لیے کہ اصولا اہل کتاب توحید اور رسالت اور قیامت کے قائل ہیں اور جس طرح ہم نے قرآن سے پہلی کتابوں کو صاحب کتاب کی زبان میں اتارا اسی طرح ہم نے اس کتاب کو حکم عربی بنا کر آپ کی زبان میں اتارا جو حد اعجاز کو پہنچا ہوا ہے اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور یہ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہدایت ہے۔ اس لیے اہل کتاب پر اسی کا اتباع واجب ہے کیونکہ یہ آخری کتاب ہونے کی وجہ سے تمام پہلی کتابوں کی نسخ ہے اور ناسخ کے بعد منسوخ کا اتباع ھدی نہیں بلکہ ہوائے نفس ہے اس لیے اے نبی ﷺ ! اگر بفرض محال آپ نے اس علم الٰہی کے آجانے کے بعد ان کی خواہشوں کا اتباع کیا تو اللہ کے مقابلہ میں آپ کا کوئی مددگار اور عذاب الٰہی سے بچانے والا نہیں مطلب یہ کہ اللہ کے احکام کو صاف صاف بیان کرو کسی بات میں ان کی پیروی اور رعایت نہ کرو اور ان سے نہ ڈرو ظاہر میں یہ خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ کو ہے مگر اصل مقصود اہل کتاب مشرکین اور منکرین کو سنانا ہے اور اگر کوئی آپ ﷺ کی نبوت میں یہ طعن کرے کہ رسول کو نکاح اور بیوی بچوں اور کھانے پینے سے کیا مطلب، نبی کو ان دنیوی مرغوبات اور لذات سے کیا تعلق تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات نبوت کے منافی نہیں اس لیے کہ تحقیق ہم نے آپ سے پہلے کتنے ہی رسول بھیجے جو کھاتے اور پیتے تھے اور ہم نے ان کی بیبیاں اور اولاد بھی دی نکاح اور اولاد سے نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا بلکہ اس سے بشریت کی تکمیل اور تنزیہ ہوجاتی ہے اسلام ہمیں رہبانیت نہیں سکھاتا حضرات انبیاء (علیہ السلام) جسمانیت اور روحانیت دونوں اعتبار سے کامل ہوتے ہیں اس لیے اہل و عیال ان کے فرائض رسالت کی ادائیگی میں حارج اور مزاحم نہیں ہوتے اور اگر کوئی آپ ﷺ کی نبوت میں یہ شبہ کرے کہ اگر آپ ﷺ اللہ کے نبی ہیں تو ہماری خواہش کے مطابق معجزات کیوں نہیں دکھلاتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی رسول کے امکان میں یہ نہیں کہ بغیر حکم خداوندی اپنی طرف سے کوئی معجزہ اور نشانی لاسکے بغیر خدا کی مرضی کے پیغمبر معجزہ نہیں دکھا سکتا معجزہ کا ظہور اللہ کے ارادہ اور مشیت اور اس کی حکمت اور مصلحت پر موقوف ہے نہ کسی خواہش اور رغبت پر وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر وقت موعود اور موت معینہ کے لیے ایک خاص حکم لکھا ہوا ہے اور ہر دور دورہ کے لیے اس کے یہاں ایک کتاب اور خاص تحریر ہوتی ہے جو مقتضائے حکمت و مصلحت اس مدت اور قرن کے لیے مناسب ہوتی ہے اور وہ کتاب کارکنان قضاء وقدر یعنی ملائکہ مدبرات کو دے دی جاتی ہے۔ جب تک اس کی میعاد باقی رہتی ہے اس وقت تک وہ حکم جاری رہتا ہے جب اس کی میعاد ختم ہوجاتی ہے تب دوسرے زمانہ اور قرن کے مناسب دوسرا حکم آتا ہے اس جگہ اجل سے ازمنۂ موجودات مراد ہیں ہر موجود کے لیے ایک محدود اور معین زمان چاہئے جس میں وہ محدود ہو کر پایا جائے نہ بڑھے نہ گھٹے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وقت کسی کام کے لیے مقرر کردیا ہے وہ اس کے یہاں لکھا ہوا جب وہ وقت آتا ہے تو جو حکم اس وقت کے مناسب ہوتا ہے وہ ظاہر ہوتا ہے ہر زمانہ کے لئے اس کے یہاں ایک مخصوص کتاب ہے اس نے کمال علم و حکمت سے ہر زمانہ کے لئے ایک حکم معین اور مقدر فرما دیا ہے جو ان پر اپنے وقت پر ظاہر ہوتا ہے اسی طرح سمجھو کہ کوئی نشان اپنے لکھے ہوئے وقت سے پہلے ظاہر نہیں ہوسکتا اللہ کا کارخانہ لوگوں کی فرمائشوں اور پبلک کے مطالبات پر نہیں چلتا اللہ نے اپنی حکمت اور مصلحت سے ہر کام کے لیے وقت مقرر کر کے لکھ دیا ہے جب تک وہ مقرر وقت نہ آجائے وہ کام نہیں ہوسکتا مطالبہ اور جلد بازی سے کچھ نہیں ہوتا اس ارشاد سراپا رشاد سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ ہر قضائے الٰہی اور وعدہ خداوندی کا وقت لکھا ہوا ہے اور ہر قرن اور زمانہ کے لیے جدا حکم ہے جو اس کے مناسب ہے اور ہر حکم اپنے لکھے ہوئے کے مطابق اپنے وقت پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس آیت سے مشرکین کے اس شبہ کا جواب ہوگیا جو مشرکین کہتے تھے کہ آپ اپنے کفر اور تکذیب کی بناء پر جن بلاؤں اور عذابوں سے ہم کو ڈراتے ہیں وہ کہاں ہیں اس کے جواب میں فرمایا کہ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور معین ہے جو اللہ کے یہاں لکھا ہوا ہے اپنے اپنے وقت پر اس کا ظہور ہوتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ لکل اجل کتاب میں اجل سے وقت موعود اور مدت معینہ مراد ہے اور کتاب سے نامہ خداوندی اور نشوتہ خداوندی مراد ہے اور آیت اپنے طاہر پر ہے جمہور مفسرین نے اسی کا اختیار فرمایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہر وہ وقت جس میں اللہ نے کسی امر کے وقوع کو مقدر کیا ہے اللہ کے یہاں اس کے جاری ہونے کا وقت لکھا ہوا ہے اسی لکھے ہوئے کے مطابق اس کا وقوع اور ظہور ہوتا ہے اور فتراء نحوی (رح) یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے اور اصل کلام اس طرح ہے لکل کتاب اجل، یعنی امر جس کو خدا تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے اس کے لیے ایک اجل مؤجل اور وقت معلوم ہے کما قال اللہ تعالیٰ لکل نباء مستقر (دیکھو تفسیر قرطبی ص 328 نیز تفصیل کے لیے تفسیر کبیر ص 215 جلد 5 دیکھیں) اب آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مالک و مختار ہے اس نے اپنی حکمت اور ارادہ اور مشیت سے ہر چیز کا ایک وقت مقرر کردیا ہے مگر وہ اس پر لازم نہیں اس میں جس طرح چاہے تغیر و تبدل کرسکتا ہے اس لیے کہ اللہ اپنی قدرت اور حکمت سے جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے اس کو ثابت اور برقرار رکھتا ہے وہ لکھے ہوئے ہیں تغیر و تبدل پر قادر ہے اس کو اختیار ہے کہ جس حکم کو چاہے منسوخ کر دے اور جس کو چاہے باقی رکھے یہ اس لیے فرمایا کہ یہود یہ کہتے تھے کہ یہ کیسا نبی ہے کہ جو توریت اور انجیل میں اور اپنی شریعت کے احکام میں نسخ کو جائز رکھتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ اللہ اپنی حکمت اور مصلحت کے موافق نازل کرتا ہے اور جب وہ مصلحت نہیں رہتی تو اس حکم کو محو کردیتا ہے یعنی منسوخ کردیتا ہے اس سے یہود و نصاری کے اس شبہ کا جواب ہوگیا جو وہ نسخ احکام کے متعلق کرتے تھے۔ جاننا چاہئے کہ اس آیت میں جو محوو اثبات کا ذکر کیا گیا اس میں ہر قسم کی تغیر و تبدیل داخل ہے مثلا حکومتوں کا فناء وزوال اور قوموں کا ادبار واقبال اور سعادت و شقاوت کا بدلنا اور رزق میں فراخی اور تنگی ہونا اور عالم سفلی میں کون و فساد کا ہونا اس قسم کے تمام تغیرات اور انقلابات، محوواثبات کے عموم میں داخل ہیں اور مطلب یہ ہے کہ وہ مالک و مختار ہے کبھی موجود کرتا ہے اور کبھی معدوم کبھی زندہ کرتا ہے اور کبھی مارتا ہے کبھی مالدار بناتا ہے اور کبھی فقیر وغیرہ وغیرہ۔ پس اسی طرح اس کا اختیار ہے کہ جس حکم کو چاہے کسی وقت منسوخ کرے اور جس حکم کو چاہے برقرار رکھے وہ علیم و حکیم ہے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں غرض یہ کہ ہر قسم کی تغیر و تبدیل اور ہر قسم کا محوو اثبات اور نسخ احکام سب اس کے ہاتھ میں ہے اور محو و اثبات اور تغیر و تبدیل ” بدا “ نہیں (جیسا کہ رو افض کا گمان ہے) بلکہ بطریق حکمت و مصلحت ہے اس لیے کہ اس کے پاس اصل کتاب ہے جس کا نام لوح محفوظ ہے جس میں اس محوو اثبات و تغیر و تبدیل کی تمام تفصیل درج ہے اور یہ لوح محفوظ قضا وقدر کے تمام دفاتر کی جڑ ہے اور تغیر و تبدیل اور محوواثبات سے منزہ اور مبریٰ ہے۔ حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں ” دنیا میں ہر چیز اسباب سے ہے بعضے اسباب ظاہر ہیں بعضے اسباب کی تاثیر کا ایک اندازہ ہے جب اللہ چاہے اس کی تاثیر اندازہ سے کم یا زیادہ کر دے جب چاہے ویسی ہی رکھے آدمی کبھی کنکر سے مرتا ہے اور کبھی گولی سے بچتا ہے اور ایک اندازہ ہر چیز کا اللہ کے علم میں ہے وہ ہرگز نہیں بدلتا اندازے کو تقدیر کہتے ہیں یہ دو تقدیریں ہیں ایک بدلتی ہے ایک نہیں بدلتی۔ جو تقدیر بدلتی ہے اس کو معلق کہتے ہیں اور جو نہیں بدلتی اس کو مبرم کہتے ہیں “۔ اھ (کذانی موضح القرآن) حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرہ ان آیات کے ترجمہ میں تحریر فرماتے ہیں ” ہر قضائے موقت رانامہ ہست یعنی چوں قضائے الٰہی بوج ہے متحقق شود آنرا در عالم ملکوت ثبت می کنند نا بودمی سازد۔ خدا ہر چہ می خواہد و ثابت می کند ہرچہ خواہد و نزدیک اوست ام الکتاب یعنی لوح محفوظ مترجم گوید صورت حادثہ در عالم ملکوت خلق می فرماید بعد ازاں اگر خواہد خوکند و ثابت دار دوشاید کہ معنی چنیں باشد ہر زمانے را شریعت، ہست نسخ می کند، خدائے تعالیٰ آنچہ خواہد و ثابت می گذارد آنچہ خواہد و نزدیک اوست لوح محفوظ “ واللہ اعلم (فتح الرحمن) حاصل کلام یہ کہ ان آیات میں حق تعالیٰ نے اپنی صفت تقدیر اور علم ازلی کو بیان کیا کہ حق تعالیٰ نے حوادث اور واقعات کے لیے ایک وقت مقدر اور مقرر فرمایا ہے ان میں خدا کی مرضی سے ردوبدل بھی ہوتا رہتا ہے اور ایک حکم قطعی ہے وہ کبھی نہیں بدلتا پہلے کو قضاء معلق اور دوسرے کو مبرم کہتے ہیں۔ مسئلہ بدا کی مختصر تشریح شیعہ آیت مذکورہ یعنی یمحو اللہ ما یشاء ویثبت سے بدا ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جس محو اور اثبات کا ذکر ہے اس سے بطریق بدا محو اور اثبات مراد ہے اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور فہم دے اہل سنت کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی تغیر و تبدیل اور محو اور اثبات سب اللہ کے ہاتھ میں ہے عالم میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب اس کے علم ازلی اور ارادہ اور مشیت سے ہو رہا ہے اور اللہ کا علم اور ارادہ بدا سے پاک اور منزہ ہے شیعوں کے اس خیال سراپا خیال کے اختلال ظاہر کرنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ بدا کی مختصر سی تشریح کردی جائے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بدا جائز نہیں اس لیے کہ بدا کا حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ ایک چیز کا ارادہ فرمائے پھر اس کو کسی دوسری چیز میں مصلحت ظاہر ہو جو اس سے قبل ظاہر نہ تھی پس ارادہ اول کو فتح کرکے دوسری چیز کا ارادہ کرلے تو یہ بدا ہے شیعہ کہتے ہیں کہ اللہ کے لیے بدا جائز ہے اور واقع ہے اور آیت مذکورہ یمحوا اللہ ما یشاء ویثبت کو استدلال میں پیش کرتے ہیں۔ یعنی اللہ مٹاتا ہے جو چاہتا ہے۔ اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے شیعہ کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کو دوسری مصلحت ظاہر ہوتی ہے تو پہلے ارادہ کو بدل دیتا ہے اور یہ ہی معنی بدا کے ہیں علماء شیعہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں ان معنی قولنا بدالہ تعالیٰ انہ ظھر لہ مالم یکن ظاھعا یعنی ہمارے اس قول کہ اللہ تعالیٰ کو بدا واقع ہوا اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کو ایسی بات ظاہر اور معلوم ہوئی جو پہلے ظاہر نہ ہوئی تھی۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بدا کا واقع ہونا ناممکن اور محال ہے کیونکہ نصوص متواترہ سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ اللہ کا علم ازل تمام کائنات کو محیط ہے ازل سے ابد تک تمام کائنات اور ممکنات کو برابر اور یکساں جانتا ہے کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس کو پہلے سے نہ جانتا ہو اور بعد میں اس کو جانے عقلا یہ بات محال ہے کہ اللہ پر کوئی ایسی چیز اور منکشف ہو جو پہلے اس پر ظاہر اور منکشف نہ تھی اور سورة طہ میں ہے لایضل ربی ولا ینسی، اللہ کا علم غلطی اور نسیان سے پاک ہے معاذ اللہ اگر حق تعالیٰ کے لیے بدا جائز ہے۔ تو لازم آئے گا کہ حق تعالیٰ نا عاقبت اندیش ہے اور اس کو انجام کا علم نہیں تعالیٰ اللہ عن ذالک علوا کبیرا۔ عجیب بات ہے کہ شیعوں کے نزدیک ایمہ کو تو علم ماکان وما یکون ہو اور خداوند علام الغیوب کو نہ ہو کہ جس کو بدا کی ضرورت لاحق ہو کہ مصلحت ظاہر ہونے پر پہلے ارادہ کو فسخ کرے اور دوسری چیز کا ارادہ کرے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں خلفاء ثلاثہ اور مہاجرین اور انصار کی مدح کی مگر بعد میں بدا واقع ہوا کہ یہ ساعی تعریفیں اور سارے وعدے غلطی سے اول ظہور میں آئے اور بعد میں حقیقتہ الامر صحابہ کی جناب باری کو معلوم اور ظاہر ہوگئی مگر حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی جگہ بھی اشارتا اور کنایۃ یہ نہیں بتلایا کہ صحابہ کے بارے میں مجھے بدا واقع ہوگیا ہے شیعوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کو صحابہ کے بارے میں قدر قلیل بدا واقع نہیں ہوا بلکہ بمقدار عظیم و کثیر بدا واقع ہوا کہ بیشمار آیتوں میں صحابہ کی مدح فرما گئے اور بعد میں ظاہر ہوا کہ یہ سب خلاف مصلحت تھا اور معاذ اللہ نبی اکرم ﷺ تو ساری ہی عمر اسی غلطی میں مبتلا رہے جس سے خداوند کریم کو بدا واقع ہوا شاید حسب زعم شیعہ جو قرآن امام غائب کے پاس ہے اس میں کوئی آیت ایسی ہو جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ کو صحابہ ؓ کے بارے میں بدا واقع ہوا۔ بدا کی اقسام شیعوں کی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدا کی تین قسمیں ہیں۔ قسم اول : بدا فی العلم : وھو ان یظھر لہ خلاف ماعلم، یعنی بدا در علم یہ ہے کہ پہلے علم کے خلاف کوئی چیز ظاہر ہو یعنی خدا تعالیٰ نے پہلے سے جو جان رکھا تھا بعد میں حقیقۃ الامر اس کے خلاف معلوم ہوئی اور منکشف ہوئی۔ قسم دوم : بدا فی الارادہ : وھو ان یظھرلہ علی خلاف ما ارادہ، یعنی بدا در ارادہ یہ ہے کہ پہلے کچھ ارادہ تھا پھر بعد میں یوں معلوم ہوا کہ یہ ارادہ ٹھیک نہیں تھا۔ قسم سوم : بدافی الامر : وھو ان یامر بشیء ثم یامر بشیء بعدہ، یعنی بدا فی الامر یہ ہے کہ پہلے کچھ حکم دیا پھر بعد ازاں یہ معلوم ہوا کہ پہلے حکم میں کچھ غلطی تھی اس حکم کو بدل کر دوسرا حکم ایسا دیا کہ جس میں یہ غلطی نہ ہو بلکہ مصلحت وقت کے مطابق ہو۔ اور شیعہ ان تینوں معنی پر خدا تعالیٰ کی بدا کو جائز قرار دیتا ہیں اور بدا کی پہلی قسم کو شیعہ اپنے عرف میں بدا در اخبار کہتے ہیں اور دوسری قسم کو بدا درتکوین کہتے ہیں اور تیسری قسم کو بدا در تکلیف کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اہل سنت نے بھی بدا کی اس تیسری قسم کو جائز رکھا ہے چونکہ بدا کی تیسری قسم یعنی بدا فی الحکم اور بدا فی التکلیف بظاہر نسخ کے مشابہ معلوم ہوتی ہے جس کے اہل سنت قائل ہیں اور بدا کو جائز نہیں رکھتے اور نسخ اور بدا فی الامر میں فرق ہے اور ہر ایک کی حقیقت دوسرے سے مغایر اور جدا ہے۔ نسخ اور بدافی الحکم میں فرق : اہل سنت کہتے ہیں کہ نسخ کی حقیقت اور ہے اور بدا کی حقیقت اور ہے نسخ کی حقیقت یہ ہے کہ ایک حکم کا زمانہ ختم ہوجائے اور دوسرے حکم کا زمانہ آجائے معاذ اللہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلے حکم میں کچھ غلطی تھی اس لیے وہ حکم موقوف ہوگیا بلکہ وہ حکم اسی زمانہ تک تھا اس کے بعد دوسرے حکم کا زمانہ آگیا چاہے بندوں میں سے کسی کو پہلے سے زمانہ حکم اول کی مقدار اور مدت معلوم ہو یا نہ ہو اللہ کے یہاں ہر حکم کی ایک میعاد اور وقت مقرر ہے وہ حکم اس میعاد اور مدت تک برقرار رہتا ہے اور یہ سب کچھ اس حکم ازلی میں ہوتا ہے اور ہر حکم اپنے اپنے وقت میں عین حکمت اور عین مصلحت ہوتا ہے اور غلطی اور خطاء سے پاک اور مبرا ہوتا ہے اور بدا کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے ایک حکم دیا پھر جب اس میں کوئی نقصان معلوم ہوا تو اس کو بدل دیا تو خطا اور غلطی بدا کے مفہوم اور اس کی حقیقت میں داخل ہے ورنہ پھر وہ بدا نہیں تمام کتب شیعہ سے یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ بدا کی حقیقت یہ ہی ہے کہ پہلی بات میں کوئی غلطی اور چوک ظاہر ہوجائے اور نیا علم پیدا ہو۔ اہل سنت اس کو محال اور ناممکن قرار دیتے ہیں کہ اللہ کے علم میں اور اس کے ارادہ میں اور اس کے حکم میں کسی خطا اور نسیان کا ذرہ برابر امکان نہیں اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے علیم اور حکیم ہے اس کو کوئی نیا علم ظاہر نہیں ہوتا اور لا یضل ربی ولا ینسی اس کی شان ہے اس کے علم میں کسی غلطی اور بھول چوک کا امکان نہیں اور اللہ تعالیٰ کا بندوں کی مصلحت اور ان کے فائدہ اور منفعت کے لیے احکام کو بدلنا یہ نسخ ہے بدا نہیں اللہ تعالیٰ کا ہر حکم ہر زمان اور مکان میں حق اور درست ہے اور اس کے علم قدیم اور حکمت ازلیہ پر مبنی ہے اور خطاء اور نسیان سے پاک اور منزہ ہے نسخ میں حکم اول کی تبدیلی اس بنا پر نہیں کہ کوئی جدید مصلحت ظاہر ہوئی جو پہلے ظاہر نہ تھی بلکہ مصالح مکلفین کی تبدیلی کی بنا پر احکام میں تبدیلی ہوئی ہے اور اللہ کے علم ازلی میں پہلے سے تھا کہ یہ حکم فلاں وقت تک رہے گا اس لیے اہل سنت نسخ کے قائل ہیں اور بدا کے قائل نہیں کیونکہ بدا کے معنی یہ ہیں کہ جب غلطی معلوم ہو تو اس کو بدل دیا جائے یہ اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ کا علم محیط ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس کو حق تعالیٰ قبل ہونے کے اور بعد ہونے کے برابر نہ جانتا ہو۔ برو علم یک ذرہ پوشیدہ نیست کہ پیداؤ پنہاں بنزدش یکیست اور آیت یمحوا اللہ ما یشاء ویثبت میں محو اور اثبات سے نا مہائے اعمال سے حسنات اور سیئات کا محوواثبات مراد ہے یا احکام اور شرائع میں تغیر و تبدل مراد ہے علم الٰہی میں محو اور اثبات مراد نہیں کیونکہ اسی آیت کے بعد متصلا یہ وارد ہے وعندہ ام الکتاب اور اللہ کے پاس اصل کتاب ہے یعنی لوح محفوظ ہے اس میں نہ تغیر ہے اور نہ تبدل ہے اور علم الٰہی میں محو اور اثبات اور تغیر و تبدل عقلا محال ہے عالم میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب اس کے علم ازلی کے مطابق اور موافق ہو رہا ہے۔ اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ کے یہاں دو دفتر ہیں ایک بڑا دفتر ہے جس کی طرف امام الکتاب کا لفظ اشارہ کرتا ہے دوسرا چھوٹا دفتر ہے اور لکل اجل کتاب سے چھوٹے دفتر کی طرف اشارہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے یہاں ہر دور اور مدت کے لیے ایک جدا کتاب ہے اس میں سے ہو چاہے مٹادے اور جو چاہے باقی رکھے اور یہ محوواثبات اس چھوٹے دفتر میں ہوتا ہے بڑے دفتر میں نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جملہ یمحوا اللہ ما یشاء ویثبت چھوٹے دفتر یعنی لکل اجل کتاب کے بعد واقع ہے اور یہ ہی مذہب اہل سنت کا ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ بڑا دفتر علم خداوندی کے موافق ہے یا خود علم خداوندی ہے اس میں گھٹاؤ بڑھاؤ نہیں ہوتا پھر شیعہ کس خوبی پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بدا کلام اللہ سے ثابت ہے۔ مسئلہ بدا کے متعلق ہم نے بقدر ضرورت یہ مختصر کلام ہدیہ ناظرین کیا ہے جو تحفۃ اثنا عشریہ مصنفہ حضرت شاہ عبد العزیز قدس سرہ اور ہدیتہ الشیعہ مصنفہ حضرت مولینا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ سے ماخوذ ہے حضرات اہل علم اصل کی مراجعت فرمائیں۔
Top