Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 85
فَاَتْبَعَ سَبَبًا
فَاَتْبَعَ : سو وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
تو اس نے سفر کا ایک سامان کیا
سفر اول قال اللہ تعالیٰ ۔ فاتبع سببا حتٰیٓ اذا بلغ مغرب الشمس۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ وسنقول لہ من امرنا یسرا پس جب حق تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے ہر قسم کا سامان مہیا کردیا جس سے وہ اپنے عزائم کو پورا کرسکے تو اس نے سفر شروع کیا۔ پہلا سفر اس کا یہ ہوا کہ اس نے بارادۂ فتوحات ملک مغرب کی راہ لی اور ایسا راستہ اختیار کیا کہ جو اسے مغرب تک پہنچا دے یہاں تک کہ جب سفر کرتے کرتے اور درمیانی ممالک کو فتح کرتے کرتے سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا۔ یعنی سمت مغرب میں منتہائے آبادی میں پہنچا جہاں آبادی ختم ہوتی تھی تو اس نے سورج کو سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا یعنی ظاہر نظر میں اس کو ایسا دکھائی دیا جیسے سمندر کا مسافر غروب کے وقت یہ دیکھتا ہے آفتاب سمندر میں ڈوب رہا ہے حالانکہ آفتاب آسمان پر ہوتا ہے مگر سمندر میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح ذوالقرنین نے اس جگہ پہنچ کر سورج کو اپنی نگاہ میں ایسا پایا کہ وہ کیچڑ کے سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے ورنہ عقلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آفتاب جیسا جسم عظیم جو زمین سے کئی ہزار گنا بڑا ہے اور زمین سے بہت بلند ہے وہ زمین کے ایک چشمہ میں ڈوب جائے۔ نیز آفتاب تو ہر وقت حرکت میں رہتا ہے آفاق پر سے گزرتا ہے کہیں اسکا طلوع ہوتا ہے اور کہیں اسکا غروب ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین جب ساحل غربی پر پہنچا تو وہ ایسی جگہ تھی کہ وہ دلدل اور کیچڑ تھی کی آدمی کا وہاں گذر نہ تھا آگے زمین نہ تھی یہ جگہ زمین کا کنارہ تھی۔ آگے سوائے پانی کے کچھ نہ تھا اس لیے اس کو ایسا نظر آیا کہ سورج کیچڑ کے چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ اس وقت اس کی نگاہ میں سوائے کیچڑ اور دلدل کے کچھ نہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا وجدھا تغرب یعنی اپنی نگاہ میں سورج کو ایسا پایا اور یہ نہیں فرمایا کہ کانت تغرب۔ کہ سورج فی الواقع کیچڑ میں ڈوب رہا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر نہیں دی کہ سورج فی الواقع کیچڑ میں ڈوب رہا تھا بلکہ یہ بتلایا کہ ذوالقرنین نے اس کو ایسا پایا۔ معاذ اللہ یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ سورج فی الواقع سیاہ کیچڑ میں گھس گیا تھا یا اس کے اندر اتر گیا تھا یا اس میں جا کر چھپ گیا تھا۔ کیچڑ کے ایک چشمہ میں اتنی گنجائش کہاں سے آئی کہ وہ آفتاب جیسے جرم عظیم کو اپنے اندر سما سکے آفتاب تو زمین سے بہت بلند ہے وہ زمین سے ملاصق اور ملا ہوا نہیں اور اس قدر برا ہے کہ زمین کے چشمہ میں نہیں آسکتا اور نہ ا میں اتر سکتا ہے۔ فائدہ : ایک قرأت میں عین حمءۃ کے بجائے عین حامیۃ آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ گرم چشمہ میں آفتاب کو غروب ہوتے ہوئے پایا اور اس کو ایسا نظر آیا کہ آفتاب گرم پانی کے چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقع میں بھی ایسا ہی ہوا اور یہ دونوں قرأتیں معروف ہیں معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ بہر حال مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین برابر چلتا رہایہاں تک کہ جب خشکی کی حد ختم ہوگئی اور جہاں تک آدمی جاسکتا تھا وہاں تک ذوالقرنین پہنچ گیا تو اس جگہ پہنچ کر ذوالقرنین نے آفتاب کو سیاہ کیچڑ یا گرم پانی کے چشمہ میں ڈوبتے ہوئے پایا۔ اس کے بعد حق تعالیٰ نے اس سے آگے جانے کا ذکر نہیں فرمایا ظاہر تو یہ ہے کہ اس سے آگے نہیں گیا اور ممکن ہے کہ شاید آگے بھی گیا ہو واللہ اعلم۔ اور پھر اس جگہ جہاں پانی کی کیچڑ میں اس کو سورج ڈوبتا ہوا نظر آیا وہاں اس نے ایک قوم کو آباد پایا جو کافر تھی جیسا کہ اگلی آیت و اما من ظلم۔ الخ اس پر دلالت کرتی ہے تو ہم نے ذوالقرنین سے بطور الہام یا کسی نبی کے ذریعے یہ کہا اے ذوالقرنین تجھ کو اس کافر قوم کے بارے میں اختیار ہے یا تو ان کافروں کو سزا دے یعنی ان کو کفر کی سزا میں قتل کرے یا قید کرے یا غلام بنا دے یا یہ کہ تو ان پر احسان کرے کہ فدیہ لے کر ان کو زندہ چھوڑ دے بہر حال تجھ کو اختیار ہے ان دو باتوں کے درمیان۔ ذوالقرنین نے عرض کیا کہ میں اول اس قوم کو ملت ابراہیمی کی دعوت دون گا لیکن اس دعوت کے بعد جو شخص کفر اور شرک کر کے اپنی جان پر ظلم کرے گا سو عنقریب ہم یعنی میں اور میرے ارکان دولت اور حکام حکومت دنیا میں اس کو سزا دیں گے یعنی اس کو قتل کریں گے یہ سزا تو دنیا میں ہوگی پھر وہ مرنے کے بعد آخرت میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹا دیا جائے گا پھر اللہ عزوجل اس کو دوزخ کی سزا دے گا اور میری دعوت کے بعد جو ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو آخرت میں اس کو نیک بدلہ ملے گا۔ اور ہم بھی دنیا میں اس کے ساتھ آسانی کا معاملہ کریں گے یعنی اس کو مشقت اور محنت میں نہ ڈالیں گے۔ بلکہ اس کے ساتھ رعایت اور نرمی کا معاملہ کریں گے اور جو میری دعوت سے روگردانی کرے گا وہ مستوجب سزا ہوگا۔ عادل فرماں روا کی یہی راہ ہے کہ بروں کو سزا دے اور بھلوں سے نرمی کرے۔
Top