Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 114
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ١ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ ۔ مَنَعَ : سے جو۔ روکا مَسَاجِدَ : مسجدیں اللہِ : اللہ اَنْ : کہ يُذْکَرَ : ذکر کیا جائے فِیْهَا : اس میں اسْمُهُ : اس کا نام وَسَعٰى : اور کوشش کی فِیْ : میں خَرَابِهَا : اس کی ویرانی اُولٰئِکَ : یہ لوگ مَا کَانَ : نہ تھا لَهُمْ : ان کے لئے اَنْ ۔ يَدْخُلُوْهَا : کہ۔ وہاں داخل ہوتے اِلَّا : مگر خَائِفِیْنَ : ڈرتے ہوئے لَهُمْ : ان کے لئے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ عَظِیْمٌ : بڑا عذاب
اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی مسجدوں میں خدا کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ؟ ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے
شناعت بست ونہم (29) باشتراک نصاری ومشرکین قال تعالیٰ ومن اظلم ممن منع مسجدا اللہ۔۔۔ الی۔۔۔ ان اللہ واسع علیم۔ یہود اور نصاری اور مشرکین سب ہی اس امر کے مدعی ہیں کہ ہم حق پر ہیں لیکن اگر ذرا غور کریں تو معلوم ہوجائے کہ حق سے کس قدر دور ہیں۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ کی مسجدوں کو اس بات سے روکتا ہے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے خواہ دل سے اور خواہ زبان سے اور خواہ اعضاء اور جوارح سے اور فقط اس پر کفایت نہ کرے بلکہ ان کے ویران اور برباد کرنے کی کوشش کرے مساجد کی بیحرمتی کرنا اور ان کو منہدم کرنا یہ مساجد کی ظاہری تخریب ہے اور عبادت اور ذکر اللہ کی بندش کردینا یہ مساجد کی معنوی تخریب اور باطنی ویرانی ہے۔ جیسا کہ حق تعالیٰ کے اس ارشاد انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر واقام الصلوۃ۔ اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور نماز قائم کی۔ میں عمارت سے ظاہری اور معنوی دونوں قسم کی عمارت مراد ہے اسی طرح وسعی فی خرابھا میں ظاہری اور معنوی دونوں قسم کی تخریب مراد ہے۔ غرض یہ کہ مساجد کو ویران کرنا سب کے نزدیک نہایت قبیح اور فعل شنیع ہے اور یہ تینوں گروہ اس بلا میں مبتلا ہیں۔ یہود اور نصاری نے بیت المقدس اور مسجد اقصی کو ویران کیا اور مشرکین مکہ نے مسجد حرام کو ویران کی اور اس میں خدا کا نام لینے سے مانع اور مزاحم بنے۔ ان ظالموں کو چاہئے تھا کہ مسجدوں میں اور خدا کے گھروں میں قدم بھی نہ رکھتے مگر ڈرتے ہوئے کہ مبادا خدا کے گھر کے ادب اور تعطیم میں ہم سے کوئی قصور نہ ہوجائے جس سے خدا کے سامنے شرمدہ ہونا پڑے۔ اس گھر کا ادب یہی ہے کہ اس کو اللہ کے ذکر اور عبادت سے آباد کیا جائے۔ خدا کے دربار میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے ہی دو رکعت نماز پڑھ لینی چاہئے۔ افسوس کہ یہ لوگ نہ خدا سے ڈرے اور نہ اس کے گھر کا ادب کیا۔ بلکہ ظلم ڈھانے لگے اور اللہ کے بندوں کو اس کے دربار میں حاضری سے روکنے لگے اور ظاہر ہے کہ دربار شاہی کو ویران کرنے کی کوشش کرنا اس سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں اس لیے یہ لوگ دونوں جہان میں سزا یاب ہونگے۔ ان کو دنیا میں بھی سخت رسوائی نصیب ہوگی کہ قتل اور قید کیے جائیں گے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا عذاب ہوگا۔ اور اے مسلمانو ! اگر کافر تم کو مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ میں جانے سے روکیں تو ملول نہ ہونا۔ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین کو تمہارے لیے مسجد بنا دیا ہے ہر جگہ تمہارے لیے نماز اور عبادت درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی جسم اور جسمانی نہیں کہ جس کسی خاص مکان میں موجود ہو اور دوسرے مکان میں نہ ہو وہ تو وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے البتہ تم زمان اور مکان اور جہت کے ساتھ مقید ہو اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمہاری عبادت کے لیے ایک جہت مقر فرما دی اور ایک قبلہ متعین کردیا لیکن اگر تم فرائض میں کسی دشمن کے خوف کی وجہ سے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز نہ پڑھ سکو۔ یا اندھیری رات میں قبلہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے تم نے تحری کر کے نماز پڑھ لی اور بعد میں معلوم ہوا کہ نماز قبلہ رخ نہیں پڑھی گئی یا سفر میں سواری پر نوافل پڑھنا چاہتے تھے اور سواری کا منہ قبلہ کی طرف نہ تھا اور سواری سے اترنے میں دشواری تھی تو ان حالات میں نماز پڑھتے وقت جدھر بھی اپنا منہ کرلو گے تو ادھر ہی اللہ کا رخ ہے یعنی وہی جہت اور سمت قبلہ کی ہے اور تمہاری نماز ہر حال میں صحیح اور مقبول ہے اور ہر حال میں اللہ کا قرب اور حضور تم کو حاصل ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جسم اور جسمانی نہیں کہ اگر ایک مکان میں موجود ہو تو دوسرے مکان میں موجود نہ ہو وہ کسی مکان اور جہت کے ساتھ مقید نہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ وسعت اور سہولت اس لیے عطاء فرمائی کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی وسیع رحمت والے ہیں۔ امام ربانی فرماتے ہیں کہ واسع سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی وسعت مراد ہے اس کی ذات کی طرح اس کی وسعت بھی بیچون وچکون ہے جس کی کیفیت حیطۂ ادراک سے باہر ہے اور بندہ کی حاجتوں اور مصلحتوں کے خوب جاننے والے ہیں۔ حسن بصری اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ حکم قبلہ متعین ہونے سے پہلے تھا ابتداء میں اختیار تھا کہ جس سمت میں چاہیں نماز پڑھیں بعد میں یہ حکم منسوخ ہوا مگر یہ قول ضعیف ہے اور روایات سے اس پر کوئی سند اور دلیل نہیں اور بعض کہتے ہیں کہ تحویل قبلہ کی تمہید ہے اور یہود اور نصاریٰ کا رد ہے کہ جو ہر ایک اپنے قبلہ کو بہتر بتاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرق اور مغرب سب اسی کا ہے جس جہت اور جس سمت کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دے وہی جہت قبلہ ہے اور آیت کریمہ اپنے عموم کی وجہ سے ان تمام صورتوں کو شامل ہے جو اس کے شان نزول میں مروی ہیں۔ ابوبکر رازی نے احکام القرآن میں اسی عموم کو اختیار فرمایا ہے۔
Top