Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 84
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے (نہیں) وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں
شناعت سی ام ایضا باشتراک نصاریٰ ومشرکین قال تعالیٰ وقالو اتخذ اللہ ولدا سبحنہ۔۔۔ الی۔۔۔ کن فیکون۔ اللہ کی مسجدوں کو ویران کرنا بلاشبہ ظلم ہے مگر یہ ظالم اس سے بڑھ کر شرک کے ظلم عظیم میں مبتلا ہیں اور وہ ظلم عظیم یہ ہے کہ یہ ظالم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے لیے اولاد بنائی ہے۔ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے تھے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ حضرات عیسیٰ خدا کے بیٹے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بتاتے ہیں۔ سبحان اللہ کیا احمقانہ اور گستاخانہ کلمہ ہے سب کو معلوم ہے کہ اللہ سبحانہ توالد اور تناسل سے پاک اور منزہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کا ہونا عقلاً ناممکن ہے اس لیے کہ بیٹا باپ کے مماثل اور مشابہ اور ہم جنس ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ بےمثل اور بیچون وچگون ہے ورنہ اگر بیٹا باپ کے ہم جنس نہ ہو تو پھر وہ بیٹا اس باپ کا فرزند نہ ہوگا نیز بیٹے کا باپ کے ہم جنس نہ ہونا ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ نیز باپ اولاد کا محتاج ہوتا ہے اور اولاد سے پہلے بیوی کا محتاج ہوتا ہے کہ اولاد بغیر زوجہ کے ممکن نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ صمد یعنی بےنیاز ہے کسی کا محتاج نہیں۔ نیز ولادت کے لیے تغیر اور تبدل اور تجزی اور انقسام لازمی ہے اور یہ خاصہ ممکن اور حادث کا ہے۔ قدیم میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں ہوتا۔ نیز اگر بالفرض خدا تعالیٰ کے لیے فرزند ہو تو دو حال سے خالی نہیں یا وہ فرزند بھی خدا اور واجب لذاتہٖ ہوگا یا نہیں اگر وہ فرزند خدا ہوا تو لا محالہ مستقل ہوگا اور باپ سے مستغنی اور بےنیاز ہوگا اس لیے کہ خدائی کے لیے بےنیازی لازم ہے حالانکہ بیٹے کا باپ سے مستغنی اور بےنیاز ہونا عقلاً محال ہے بیٹے کا وجود ہی باپ سے ہوا ہے اور جب بیٹا خدا ہونے کی وجہ سے باپ سے مستغنی اور بےنیاز ہوگا تو پھر اس کو باپ سے کوئی تعلق بھی نہ ہوگا اور بیٹے کا باپ سے بےتعلق ہونا ناممکن ہے اس لیے کہ فرع کا اصل سے بےتعلق ہونا عقلاً محال ہے علاوہ ازیں جب بیٹا باپ سے مستغنی اور بےنیاز ہوگا تو باپ خدا نہ رہے گا اس لیے کہ خدا سے کوئی مستغنی نہیں ہوسکتا وہ خدا ہی کیا ہوا جس سے کوئی مستغنی اور بےنیاز ہوسکے اور اگر یہ کہو کہ وہ بیٹا خدا اور واجب الوجود نہیں تو لامحالہ وہ خدا کا پیدا کیا ہوا ہوگا اور اس کا عبد اور مملوک ہوگا لہذا فرزند کا عبد اور مملوک ہونا لازم آئیگا اور بیٹا عبد اور مملوک نہیں ہوتا جیسا کہ آئندہ آیت میں ارشاد ہے۔ بل لہ ما فی السموت والارض۔ یعنی اس کے لیے کوئی اولاد نہیں بلکہ آسمان اور زمین کی تمام چیزیں خاص اسی کی مملوک ہیں اور ملکیت اور ابنیت جمع نہیں ہوسکتی اس لیے کہ یہ امر ظاہر ہے کہ مملوک اور مخلوق مالک اور خالق کے ہم جنس نہیں اور فرزند باپ کے ہم جنس ہوتا ہے اسی وجہ سے شریعت میں یہ مسئلہ ہے کہ جو شخص اپنے بیٹے یا کسی قریبی رشتہ دار کا مالک بن جائے تو وہ فوراً آزاد ہوجاتا ہے اس لیے کہ فرزندیت اور عبدیت میں تباین کلی اور منافات تامہ ہے پس جبکہ بندوں میں فرزندیت اور عبدیت جمع نہیں ۃ وسکتی تو بارگاہ الوہیت میں یہ دونوں چیزیں کیسے جمع ہوسکتی ہیں اور علاوہ مملوک ہونے کے آسمان و زمین کے رہنے والے تمام کے تمام جن میں فرشتے اور حضرت عزیر اور حضرت مسیح بھی داخل ہیں۔ سب اللہ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں۔ بعضے برضا ورغبت جیسے فرشتے اور انبیاء کرام اور مومنین صالحین اور بعضے جبراً وقہراً جیسے شیاطین اور کفار وفجار۔ یہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے ارادہ اور مشیت کو ٹال سکے اور اس کے حکم سے سرتابی کرسکے اور کافر وفاجر جو ظاہراً اس کی معصیت کرتے ہیں وہ تکوینی اور باطنی طور پر اللہ ہی کے ارادہ اور مشیت سے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت اور مصلحت سے ان کو معصیت کرنے کی قدرت دی ہے ورنہ اگر وہ قدرت نہ دیتا تو کوئی معصیت نہ کرسکتا۔ غرض یہ کہ تمام موجودات اسی کے قبضۂ تصرف میں ہیں جس کو چاہے مارے اور جس کو چاہے جلائے کوئی اس کے تصرف سے باہر نہیں نکل سکتا اور جس کی یہ شان ہو اس کا کوئی ہم جن اور مماثل نہیں ہوسکتا۔ اور بیٹے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ باپ کے ہم جنس ہو۔ اور عجب نہیں کہ کل لہ قانتون سے الزام مقصود ہو کہ جن کو تم خدا کا بیٹا اور اولاد کہتے ہو وہ سب اللہ کی عبودیت کے معترف اور مقر ہیں اور ہر وقت اسی کی تسبیح وتنزیہ میں لگے رہتے ہیں۔ پھر تم ان کو خدا کی اولاد کس طرح بتلاتے ہو۔ نیز ولادت کے لیے مادہ اور مدت اور آلات اور اسباب کی ضرورت ہے۔ اور خدا کی شان یہ ہے کہ وہ بدیع السموات والرض یعنی بغیر مادہ کے آسمان اور زمین کا موجد ہے۔ محض اپنی قدرت سے تمام کائنات کو پردۂ عدم سے نکال کر مسند وجود پر لا بٹھلایا ہے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کردے تو اس کے لیے مشکل نہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی ایجاد میں کسی مادہ اور مدت اور کسی آلہ اور سبب کا محتاج نہیں اس لیے کہ وہ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو کن کا حکم دیتا ہے یعنی موجود ہوجا ! پس وہ شئی فوراً موجود ہوجاتی ہے اور فرشتے اور حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ سب اسی طریقہ سے پیدا ہوئے اور ظاہر ہے کہ اس طریقہ سے پیدا ہونے کا نام کسی کے نزدیک ولادت نہیں ھر کیوں ان کی خدا کی اولاد بتاتے ہو۔ نیز عیسیٰ (علیہ السلام) میں یہ قدرت نہ تھی کہ وہ کلمۂ کن سے کسی کو پیدا کرسکیں اور بقول نصاری وہ تو اپنی جان بھی یہود کے ہاتھ سے نہ بچا سکے اور نہ دشمنوں پر غلبہ پا سکے تو پھر وہ خدا کیسے ہوئے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ یہود اور نصاریٰ اور مشرکین خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے اول حق تالیٰ نے سبحانہ فرما کر اولاد اپنا پاک ہونا بیان فرمایا اور بعد ازاں چند وجوہ سے انکا رد فرمایا ول یہ کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے وہ سب اس کی ملک ہے اور اولاد ملک نہیں ہوتی۔ دوم یہ کہ تمام کائنات اس کی تابعدار اور اس کے ارادہ اور مشیت کے مسخر ہے کائنات کے ہر ذرہ سے حدوث اور احتیاج کے آثار اور علامات نمایاں ہیں جو سراسر وجوب ذاتی کے منافی ہیں اور حادث اور ممکن واجب ذاتی کا بیٹآ نہیں ہوسکتا لہذا کائنات میں سے کوئی شے بھی خدا کی اولاد نہیں ہوسکتی اس لیے کہ اولاد اگرچہ باپ کے برابر نہ ہو لیکن ہم جن ضرور ہوتی ہے اور کائنات کا کوئی ذرہ وجوب ذاتی میں باری تعالیٰ کا شریک اور سہیم نہیں۔ اور اگر چاہو تو جملۂ کل لہ قانتون کو جملہ لہ ما فی السموات والارض کا تتمہ اور تکملہ بنا دو تو اب دونوں جملے مل کر ایک ہی دلیل بنیں گے۔ علیحدہ علیحدہ دلیل نہ بنیں گے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ بدیع السموات والارض ہے یعنی اللہ تعالیٰ بغیر مادہ کے آسمان و زمین پیدا کرنے والے ہیں اور ولادت کے لیے مادہ اور مدت درکار ہے چوتھے یہ کہ حق تعالیٰ کی ایجاد کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو کون فرمادیتے ہیں وہ اسی وقت موجود ہوجاتی ہے اور اس کا نام ولادت نہیں یا یوں کہو کہ یہ تمام صفات کمال خداوند ذوالجلال کے ساتھ مختص ہیں کسی فرشتہ اور نبی میں یہ صفات نہیں پائی جاتیں۔ خدا کے سوا نہ کوئی آسمان اور زمین کے ذرہ کا مالک ہے اور نہ ایک مچھر کے پر کی ایجاد اور تخلیق پر قادر ہے پھر کس طرح خدا کے فرزند ہوئے۔ پانچویں یہ کہ بیٹا ہمیشہ کا باپ جزء ہوتا ہے اور جزء کسی مرکب کا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ترکیب سے پاک ہے۔ فائدہ : نصاری جب ان دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ کے جواب سے لاجواب ہوتے ہیں تو یہ جواب دیتے ہیں کہ ہماری مراد بیٹے سے حقیقی معنی نہیں بلکہ معنی مجازی مراد ہیں جیسے پیار اور محبت میں کسی کو بیٹآ بول دیتے ہیں تو اس سے معنی حقیقی مراد نہیں ہوتے بلکہ محبوب اور برگزیدہ کے معنی مراد ہوتے ہیں اس معنی کر ہم حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ جواب : اگر ابن اللہ سے خدا کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں۔ ابن اللہ کا اطلاق محبوب اور برگزیدہ کے معنی میں اگرچہ کفر اور شرک نہیں لیکن کفر اور شرک کا ایہام اس میں ضرور ہے جیسے غیر اللہ کو سجدہ بہ نیت تعظیم وتحیت کفر نہیں بلکہ حرام ہے۔ اسی طرح شریعت محمدیہ میں سجدہ تحیت وتعظیم کی طرح اس لفظ کے اطلاق ہی کو ممنوع قرار دیا۔ بارگاہ خداوندی کے کے آداب کے خلاف ہے کہ زبان سے کوئی لفط ایسا نکالاجائے جس میں خدا تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس کے خلاف کا ایہام بھی ہو پادری صاحبان جب بالکل ہی لاچار ہوجاتے ہیں تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ مسئلہ سر الٰہی اور رمز خداوندی ہے ہم اس کے سمجھانے سے قاصر ہیں۔ لیکن اب اس صریح خلاف عقل عقیدہ کے ماننے والے بہت ہی کم رہ گئے ہیں۔ سوائے ان پادریوں کے جن کو مشن سے تنخواہ ملتی ہے وہ حضرت مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا بتلاتے ہیں۔ باقی یورپ اور ایشیا کے اکثر عیسائی حضرت مسیح کو خدا کا بندہ اور رسول سمجھنے لگے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ قرآن کریم کی ساڑھے تیرہ سو برس کی مسلسل پکار کے بعد بنی اسرائیل کی بھیڑوں کی سمجھ میں آیا کہ ابنیت، تثلیث کا عقیدہ عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔ عذر لنگ : اور بعض سنجیدہ عیسائی جنہوں نے صفیہ کرام کی کتابوں کا کچھ مطالعہ کیا ہے وہ اپنے اس عقیدہ ابنیت کی اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کی صفات صفات خداوندی کا عکس اور پرتو تھیں اور چونکہ اس قسم کا انعکاس سوائے حضرت مسیح کے کسی مخلوق میں نہیں ظاہر ہوا اور اس بارے میں حضرت مسیح کا مرتبہ تمام مخلوق سے بالا اور برتر تھا اس لیے ان کو خدا تعالیٰ سے ایسی نسبت ہے جو اور کسی مخلوق کو حاصل نہیں اسی نسبت کو ہم ابو ت اور بنوت سے تعبیر کرتے ہیں اور مسیح کو ابن اللہ کہتے ہیں۔ جواب : یہ محض ایک اصطلاحی تاویل ہے جس کے تسلیم کرلینے کے بعد عیسائیوں کے پاس مسیح کی بالخصوص ابن اللہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں رہتی۔ حق تعالیٰ نے اپنے بہت سے برگزیدہ بندوں کو اپنے جلال و جمال کا مظہر بنایا اور ان پر اپنی صفات کمال کا خاص عکس اور پر تو ڈالا جو اور کسی مخلوق پر نہیں ڈالا تو کیا ان حضرات کو بھی ابن اللہ کہنا جائز ہوگا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی ذات با برکات بھی صفات خداوندی کا خاص مظہر اور آئینہ تھی اور سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات تو تمام اولین اور آخرین کے کمال کی جامع تھی۔ نصاری کی اگر یہ تاویل صحیح ہو تو کواکب پرست بھی یہی تاویل کرسکتے ہیں کہ ہم چاند اور سورج وغیرہ کو کامل ترین مخلوق الٰہی یا مظہر جلال خداوندی سمجھ کر ان کی پرستش کرسکتے ہیں۔ صائبین چاند اور سورج کو خدا تعالیٰ کا مظہر اتم سمجھے اور نصاری مسیح بن مریم کو اور دونوں گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ شبہ۔ بادی النظر میں یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ جب کوئی چیز عدم محض ہو تو پھر اس کو وجود کا حکم کیونکر دیا جاسکتا ہے کیونکہ حکم تو موجود کو دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ موجود کو وجود کا حکم دینا تحصیل حاصل ہے۔ جواب : یہ ہے کہ یہ امر کن۔ امر تکلیفی نہیں جس کے لیے وجود مخاطب اور فہم خطاب ضروری ہو بلکہ امر تسخیری اور تکوینی ہے جس سے معدوم کو موجود کیا جاتا ہے۔ ذات انسانی میں اصل فاعل مختار اس کا اندرونی نفس ناطقہ ہے اور اعضاء اور جوارح اس کے حکم پر حرکت کرتے ہیں۔ نفس ناطقہ جب زبان کو بولنے کا حکم دیتا ہے تو زبان سے وہ کلمات ظہور اور وجود میں آنے لگتے ہیں کہ پہلے سے جن کا وجود خارجی میں کہیں نام ونشان نہ تھا اور نفس ناطقہ قدم کو چلنے کا حکم دیتا ہے جس سے وہ حرکات ظہور میں آتی ہیں جو پہلے سے معدوم تھیں مگر نفس ناطقہ کے علم اور تصور میں تھیں۔ اسی طرح سمجھو کہ جو ممکنات خارج میں معدوم ہیں وہ سب علم الٰہی میں موجود ہیں جس معدوم کو حق تعالیٰ اپنے خزانۂ علم سے نکال کر خارج میں موجود کرنا چاہتا ہے اس کو کن خطاب فرماتے ہیں اسی طرح وہ معدوم وجود علمی سے نکل کر وجود خارجی میں آجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو ہر شدنی امر کا اس کے ہونے سے پہلے علم ہوتا ہے اس لیے وہ چیزیں جو ابھی عدم سے وجود میں نہیں آئی ہیں وہ سب اس کے علم میں موجود ہیں اور اس کے نزدیک موجود کا حکم رکھتی ہیں اس لیے جب وہ ان کو عدم سے وجود کی طرف نکلنے کا حکم دیتا ہے اور کن کہتا ہے تو موجود ہوجاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ اس معدوم کی صورت علم الٰہی میں پہلے سے موجود ہوتی ہے وہ کن کا مخاطب اور محکوم ہوتی ہے متکلمین کے دو گروہ ہیں ایک اشاعرہ اور ایک ماتریدیہ۔ ماتریدیہ کے نزدیک یہ آیت اپنے ظاہر اور حقیقت پر ہے اور اشاعرہ کے نزدیک یہ آیت مجاز اور تمثیل پر محمول ہے قاضی بیضاوی (رح) نے اسی کو اختیار فرمایا کہ آیت میں حقیقۃً کسی شئے کو کن کا خطاب کرنا مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شئے کو حقیقۃً امر فرمایا ہو اور اس نے امتثال کیا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت کسی شئے کو پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ شئی فوراً موجود ہوجاتی ہے۔ ہمارے ارادہ اور پیدائش میں ذرہ برابر فاصلہ نہیں ہوتا۔
Top