Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 84
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ
: اور
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اتَّخَذَ
: بنا لیا
اللہُ
: اللہ
وَلَدًا
: بیٹا
سُبْحَانَهٗ
: وہ پاک ہے
بَلْ
: بلکہ
لَهٗ
: اسی کے لیے
مَا
: جو
فِي
: میں
السَّمَاوَاتِ
: آسمانوں
وَ الْاَرْضِ
: اور زمین
كُلٌّ
: سب
لَهٗ
: اسی کے
قَانِتُوْنَ
: زیر فرمان
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے (نہیں) وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں
شناعت سی ام ایضا باشتراک نصاریٰ ومشرکین قال تعالیٰ وقالو اتخذ اللہ ولدا سبحنہ۔۔۔ الی۔۔۔ کن فیکون۔ اللہ کی مسجدوں کو ویران کرنا بلاشبہ ظلم ہے مگر یہ ظالم اس سے بڑھ کر شرک کے ظلم عظیم میں مبتلا ہیں اور وہ ظلم عظیم یہ ہے کہ یہ ظالم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے لیے اولاد بنائی ہے۔ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے تھے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ حضرات عیسیٰ خدا کے بیٹے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بتاتے ہیں۔ سبحان اللہ کیا احمقانہ اور گستاخانہ کلمہ ہے سب کو معلوم ہے کہ اللہ سبحانہ توالد اور تناسل سے پاک اور منزہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کا ہونا عقلاً ناممکن ہے اس لیے کہ بیٹا باپ کے مماثل اور مشابہ اور ہم جنس ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ بےمثل اور بیچون وچگون ہے ورنہ اگر بیٹا باپ کے ہم جنس نہ ہو تو پھر وہ بیٹا اس باپ کا فرزند نہ ہوگا نیز بیٹے کا باپ کے ہم جنس نہ ہونا ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ نیز باپ اولاد کا محتاج ہوتا ہے اور اولاد سے پہلے بیوی کا محتاج ہوتا ہے کہ اولاد بغیر زوجہ کے ممکن نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ صمد یعنی بےنیاز ہے کسی کا محتاج نہیں۔ نیز ولادت کے لیے تغیر اور تبدل اور تجزی اور انقسام لازمی ہے اور یہ خاصہ ممکن اور حادث کا ہے۔ قدیم میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں ہوتا۔ نیز اگر بالفرض خدا تعالیٰ کے لیے فرزند ہو تو دو حال سے خالی نہیں یا وہ فرزند بھی خدا اور واجب لذاتہٖ ہوگا یا نہیں اگر وہ فرزند خدا ہوا تو لا محالہ مستقل ہوگا اور باپ سے مستغنی اور بےنیاز ہوگا اس لیے کہ خدائی کے لیے بےنیازی لازم ہے حالانکہ بیٹے کا باپ سے مستغنی اور بےنیاز ہونا عقلاً محال ہے بیٹے کا وجود ہی باپ سے ہوا ہے اور جب بیٹا خدا ہونے کی وجہ سے باپ سے مستغنی اور بےنیاز ہوگا تو پھر اس کو باپ سے کوئی تعلق بھی نہ ہوگا اور بیٹے کا باپ سے بےتعلق ہونا ناممکن ہے اس لیے کہ فرع کا اصل سے بےتعلق ہونا عقلاً محال ہے علاوہ ازیں جب بیٹا باپ سے مستغنی اور بےنیاز ہوگا تو باپ خدا نہ رہے گا اس لیے کہ خدا سے کوئی مستغنی نہیں ہوسکتا وہ خدا ہی کیا ہوا جس سے کوئی مستغنی اور بےنیاز ہوسکے اور اگر یہ کہو کہ وہ بیٹا خدا اور واجب الوجود نہیں تو لامحالہ وہ خدا کا پیدا کیا ہوا ہوگا اور اس کا عبد اور مملوک ہوگا لہذا فرزند کا عبد اور مملوک ہونا لازم آئیگا اور بیٹا عبد اور مملوک نہیں ہوتا جیسا کہ آئندہ آیت میں ارشاد ہے۔ بل لہ ما فی السموت والارض۔ یعنی اس کے لیے کوئی اولاد نہیں بلکہ آسمان اور زمین کی تمام چیزیں خاص اسی کی مملوک ہیں اور ملکیت اور ابنیت جمع نہیں ہوسکتی اس لیے کہ یہ امر ظاہر ہے کہ مملوک اور مخلوق مالک اور خالق کے ہم جنس نہیں اور فرزند باپ کے ہم جنس ہوتا ہے اسی وجہ سے شریعت میں یہ مسئلہ ہے کہ جو شخص اپنے بیٹے یا کسی قریبی رشتہ دار کا مالک بن جائے تو وہ فوراً آزاد ہوجاتا ہے اس لیے کہ فرزندیت اور عبدیت میں تباین کلی اور منافات تامہ ہے پس جبکہ بندوں میں فرزندیت اور عبدیت جمع نہیں ۃ وسکتی تو بارگاہ الوہیت میں یہ دونوں چیزیں کیسے جمع ہوسکتی ہیں اور علاوہ مملوک ہونے کے آسمان و زمین کے رہنے والے تمام کے تمام جن میں فرشتے اور حضرت عزیر اور حضرت مسیح بھی داخل ہیں۔ سب اللہ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں۔ بعضے برضا ورغبت جیسے فرشتے اور انبیاء کرام اور مومنین صالحین اور بعضے جبراً وقہراً جیسے شیاطین اور کفار وفجار۔ یہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے ارادہ اور مشیت کو ٹال سکے اور اس کے حکم سے سرتابی کرسکے اور کافر وفاجر جو ظاہراً اس کی معصیت کرتے ہیں وہ تکوینی اور باطنی طور پر اللہ ہی کے ارادہ اور مشیت سے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت اور مصلحت سے ان کو معصیت کرنے کی قدرت دی ہے ورنہ اگر وہ قدرت نہ دیتا تو کوئی معصیت نہ کرسکتا۔ غرض یہ کہ تمام موجودات اسی کے قبضۂ تصرف میں ہیں جس کو چاہے مارے اور جس کو چاہے جلائے کوئی اس کے تصرف سے باہر نہیں نکل سکتا اور جس کی یہ شان ہو اس کا کوئی ہم جن اور مماثل نہیں ہوسکتا۔ اور بیٹے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ باپ کے ہم جنس ہو۔ اور عجب نہیں کہ کل لہ قانتون سے الزام مقصود ہو کہ جن کو تم خدا کا بیٹا اور اولاد کہتے ہو وہ سب اللہ کی عبودیت کے معترف اور مقر ہیں اور ہر وقت اسی کی تسبیح وتنزیہ میں لگے رہتے ہیں۔ پھر تم ان کو خدا کی اولاد کس طرح بتلاتے ہو۔ نیز ولادت کے لیے مادہ اور مدت اور آلات اور اسباب کی ضرورت ہے۔ اور خدا کی شان یہ ہے کہ وہ بدیع السموات والرض یعنی بغیر مادہ کے آسمان اور زمین کا موجد ہے۔ محض اپنی قدرت سے تمام کائنات کو پردۂ عدم سے نکال کر مسند وجود پر لا بٹھلایا ہے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کردے تو اس کے لیے مشکل نہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی ایجاد میں کسی مادہ اور مدت اور کسی آلہ اور سبب کا محتاج نہیں اس لیے کہ وہ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو کن کا حکم دیتا ہے یعنی موجود ہوجا ! پس وہ شئی فوراً موجود ہوجاتی ہے اور فرشتے اور حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ سب اسی طریقہ سے پیدا ہوئے اور ظاہر ہے کہ اس طریقہ سے پیدا ہونے کا نام کسی کے نزدیک ولادت نہیں ھر کیوں ان کی خدا کی اولاد بتاتے ہو۔ نیز عیسیٰ (علیہ السلام) میں یہ قدرت نہ تھی کہ وہ کلمۂ کن سے کسی کو پیدا کرسکیں اور بقول نصاری وہ تو اپنی جان بھی یہود کے ہاتھ سے نہ بچا سکے اور نہ دشمنوں پر غلبہ پا سکے تو پھر وہ خدا کیسے ہوئے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ یہود اور نصاریٰ اور مشرکین خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے اول حق تالیٰ نے سبحانہ فرما کر اولاد اپنا پاک ہونا بیان فرمایا اور بعد ازاں چند وجوہ سے انکا رد فرمایا ول یہ کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے وہ سب اس کی ملک ہے اور اولاد ملک نہیں ہوتی۔ دوم یہ کہ تمام کائنات اس کی تابعدار اور اس کے ارادہ اور مشیت کے مسخر ہے کائنات کے ہر ذرہ سے حدوث اور احتیاج کے آثار اور علامات نمایاں ہیں جو سراسر وجوب ذاتی کے منافی ہیں اور حادث اور ممکن واجب ذاتی کا بیٹآ نہیں ہوسکتا لہذا کائنات میں سے کوئی شے بھی خدا کی اولاد نہیں ہوسکتی اس لیے کہ اولاد اگرچہ باپ کے برابر نہ ہو لیکن ہم جن ضرور ہوتی ہے اور کائنات کا کوئی ذرہ وجوب ذاتی میں باری تعالیٰ کا شریک اور سہیم نہیں۔ اور اگر چاہو تو جملۂ کل لہ قانتون کو جملہ لہ ما فی السموات والارض کا تتمہ اور تکملہ بنا دو تو اب دونوں جملے مل کر ایک ہی دلیل بنیں گے۔ علیحدہ علیحدہ دلیل نہ بنیں گے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ بدیع السموات والارض ہے یعنی اللہ تعالیٰ بغیر مادہ کے آسمان و زمین پیدا کرنے والے ہیں اور ولادت کے لیے مادہ اور مدت درکار ہے چوتھے یہ کہ حق تعالیٰ کی ایجاد کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو کون فرمادیتے ہیں وہ اسی وقت موجود ہوجاتی ہے اور اس کا نام ولادت نہیں یا یوں کہو کہ یہ تمام صفات کمال خداوند ذوالجلال کے ساتھ مختص ہیں کسی فرشتہ اور نبی میں یہ صفات نہیں پائی جاتیں۔ خدا کے سوا نہ کوئی آسمان اور زمین کے ذرہ کا مالک ہے اور نہ ایک مچھر کے پر کی ایجاد اور تخلیق پر قادر ہے پھر کس طرح خدا کے فرزند ہوئے۔ پانچویں یہ کہ بیٹا ہمیشہ کا باپ جزء ہوتا ہے اور جزء کسی مرکب کا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ترکیب سے پاک ہے۔ فائدہ : نصاری جب ان دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ کے جواب سے لاجواب ہوتے ہیں تو یہ جواب دیتے ہیں کہ ہماری مراد بیٹے سے حقیقی معنی نہیں بلکہ معنی مجازی مراد ہیں جیسے پیار اور محبت میں کسی کو بیٹآ بول دیتے ہیں تو اس سے معنی حقیقی مراد نہیں ہوتے بلکہ محبوب اور برگزیدہ کے معنی مراد ہوتے ہیں اس معنی کر ہم حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ جواب : اگر ابن اللہ سے خدا کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں۔ ابن اللہ کا اطلاق محبوب اور برگزیدہ کے معنی میں اگرچہ کفر اور شرک نہیں لیکن کفر اور شرک کا ایہام اس میں ضرور ہے جیسے غیر اللہ کو سجدہ بہ نیت تعظیم وتحیت کفر نہیں بلکہ حرام ہے۔ اسی طرح شریعت محمدیہ میں سجدہ تحیت وتعظیم کی طرح اس لفظ کے اطلاق ہی کو ممنوع قرار دیا۔ بارگاہ خداوندی کے کے آداب کے خلاف ہے کہ زبان سے کوئی لفط ایسا نکالاجائے جس میں خدا تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس کے خلاف کا ایہام بھی ہو پادری صاحبان جب بالکل ہی لاچار ہوجاتے ہیں تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ مسئلہ سر الٰہی اور رمز خداوندی ہے ہم اس کے سمجھانے سے قاصر ہیں۔ لیکن اب اس صریح خلاف عقل عقیدہ کے ماننے والے بہت ہی کم رہ گئے ہیں۔ سوائے ان پادریوں کے جن کو مشن سے تنخواہ ملتی ہے وہ حضرت مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا بتلاتے ہیں۔ باقی یورپ اور ایشیا کے اکثر عیسائی حضرت مسیح کو خدا کا بندہ اور رسول سمجھنے لگے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ قرآن کریم کی ساڑھے تیرہ سو برس کی مسلسل پکار کے بعد بنی اسرائیل کی بھیڑوں کی سمجھ میں آیا کہ ابنیت، تثلیث کا عقیدہ عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔ عذر لنگ : اور بعض سنجیدہ عیسائی جنہوں نے صفیہ کرام کی کتابوں کا کچھ مطالعہ کیا ہے وہ اپنے اس عقیدہ ابنیت کی اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کی صفات صفات خداوندی کا عکس اور پرتو تھیں اور چونکہ اس قسم کا انعکاس سوائے حضرت مسیح کے کسی مخلوق میں نہیں ظاہر ہوا اور اس بارے میں حضرت مسیح کا مرتبہ تمام مخلوق سے بالا اور برتر تھا اس لیے ان کو خدا تعالیٰ سے ایسی نسبت ہے جو اور کسی مخلوق کو حاصل نہیں اسی نسبت کو ہم ابو ت اور بنوت سے تعبیر کرتے ہیں اور مسیح کو ابن اللہ کہتے ہیں۔ جواب : یہ محض ایک اصطلاحی تاویل ہے جس کے تسلیم کرلینے کے بعد عیسائیوں کے پاس مسیح کی بالخصوص ابن اللہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں رہتی۔ حق تعالیٰ نے اپنے بہت سے برگزیدہ بندوں کو اپنے جلال و جمال کا مظہر بنایا اور ان پر اپنی صفات کمال کا خاص عکس اور پر تو ڈالا جو اور کسی مخلوق پر نہیں ڈالا تو کیا ان حضرات کو بھی ابن اللہ کہنا جائز ہوگا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی ذات با برکات بھی صفات خداوندی کا خاص مظہر اور آئینہ تھی اور سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات تو تمام اولین اور آخرین کے کمال کی جامع تھی۔ نصاری کی اگر یہ تاویل صحیح ہو تو کواکب پرست بھی یہی تاویل کرسکتے ہیں کہ ہم چاند اور سورج وغیرہ کو کامل ترین مخلوق الٰہی یا مظہر جلال خداوندی سمجھ کر ان کی پرستش کرسکتے ہیں۔ صائبین چاند اور سورج کو خدا تعالیٰ کا مظہر اتم سمجھے اور نصاری مسیح بن مریم کو اور دونوں گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ شبہ۔ بادی النظر میں یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ جب کوئی چیز عدم محض ہو تو پھر اس کو وجود کا حکم کیونکر دیا جاسکتا ہے کیونکہ حکم تو موجود کو دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ موجود کو وجود کا حکم دینا تحصیل حاصل ہے۔ جواب : یہ ہے کہ یہ امر کن۔ امر تکلیفی نہیں جس کے لیے وجود مخاطب اور فہم خطاب ضروری ہو بلکہ امر تسخیری اور تکوینی ہے جس سے معدوم کو موجود کیا جاتا ہے۔ ذات انسانی میں اصل فاعل مختار اس کا اندرونی نفس ناطقہ ہے اور اعضاء اور جوارح اس کے حکم پر حرکت کرتے ہیں۔ نفس ناطقہ جب زبان کو بولنے کا حکم دیتا ہے تو زبان سے وہ کلمات ظہور اور وجود میں آنے لگتے ہیں کہ پہلے سے جن کا وجود خارجی میں کہیں نام ونشان نہ تھا اور نفس ناطقہ قدم کو چلنے کا حکم دیتا ہے جس سے وہ حرکات ظہور میں آتی ہیں جو پہلے سے معدوم تھیں مگر نفس ناطقہ کے علم اور تصور میں تھیں۔ اسی طرح سمجھو کہ جو ممکنات خارج میں معدوم ہیں وہ سب علم الٰہی میں موجود ہیں جس معدوم کو حق تعالیٰ اپنے خزانۂ علم سے نکال کر خارج میں موجود کرنا چاہتا ہے اس کو کن خطاب فرماتے ہیں اسی طرح وہ معدوم وجود علمی سے نکل کر وجود خارجی میں آجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو ہر شدنی امر کا اس کے ہونے سے پہلے علم ہوتا ہے اس لیے وہ چیزیں جو ابھی عدم سے وجود میں نہیں آئی ہیں وہ سب اس کے علم میں موجود ہیں اور اس کے نزدیک موجود کا حکم رکھتی ہیں اس لیے جب وہ ان کو عدم سے وجود کی طرف نکلنے کا حکم دیتا ہے اور کن کہتا ہے تو موجود ہوجاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ اس معدوم کی صورت علم الٰہی میں پہلے سے موجود ہوتی ہے وہ کن کا مخاطب اور محکوم ہوتی ہے متکلمین کے دو گروہ ہیں ایک اشاعرہ اور ایک ماتریدیہ۔ ماتریدیہ کے نزدیک یہ آیت اپنے ظاہر اور حقیقت پر ہے اور اشاعرہ کے نزدیک یہ آیت مجاز اور تمثیل پر محمول ہے قاضی بیضاوی (رح) نے اسی کو اختیار فرمایا کہ آیت میں حقیقۃً کسی شئے کو کن کا خطاب کرنا مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شئے کو حقیقۃً امر فرمایا ہو اور اس نے امتثال کیا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت کسی شئے کو پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ شئی فوراً موجود ہوجاتی ہے۔ ہمارے ارادہ اور پیدائش میں ذرہ برابر فاصلہ نہیں ہوتا۔
Top