Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 25
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اِ۟لْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِ١ؕ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠ ۧ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا
وَيَصُدُّوْنَ
: اور وہ روکتے ہیں
عَنْ
: سے
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کا راستہ
وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
: اور مسجد حرام (بیت اللہ)
الَّذِيْ
: وہ جسے
جَعَلْنٰهُ
: ہم نے مقرر کیا
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
سَوَآءَ
: برابر
ۨ الْعَاكِفُ
: رہنے والا
فِيْهِ
: اس میں
وَالْبَادِ
: اور پردیسی
وَمَنْ
: اور جو
يُّرِدْ
: ارادہ کرے
فِيْهِ
: اس میں
بِاِلْحَادٍ
: گمراہی کا
بِظُلْمٍ
: ظلم سے
نُّذِقْهُ
: ہم اسے چکھائیں گے
مِنْ
: سے
عَذَابٍ
: عذاب
اَلِيْمٍ
: دردناک
جو لوگ کافر ہیں اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے اور مسجد محترم سے جسے ہم نے لوگوں کے لئے یکساں (عبادت گاہ) بنایا ہے روکتے ہیں خواہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو اس میں شرارت سے کجروی (وکفر) کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزا چکھائیں گے
مذمت کفار لئام بر مزاحمت اہل اسلام و زیارت مسجد حرام وبیان بعض احکام متعلقہ آں مقام واجب الاحترام قال اللہ تعالیٰ ان الذین کفروا ویصدون عن سبیل اللہ والمسجد الحرام .... الیٰ .... ان اللہ لایحب کل خوان کفور۔ (ربط) اوپر کی آیتوں میں فریق کفار کی خصوصیت اور جدال اور اضلال کا ذکر تھا کہ کفار مکہ اہل اسلام کی عداوت اور خصوصیت پر تلے ہوئے ہیں اب ان آیات میں ان کی دوسری قسم کی خصومت اور جدال کا ذکر کرتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کو مسجد حرام میں جانے سے روکتے ہیں اور ان کو حج اور عمرہ کے ارکان ادا کرنے دیتے، حالانکہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ اس بیت حرام یعنی خانہ کعبہ کے اولیاء یعنی متولی ہم ہیں کما قال تعالیٰ ان اولیاہ الا المتقون۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ یہ کافر اور مشرک تو کبھی بھی اس کے متولی نہ تھے اس کے اولیاء یعنی متولی تو فقط متقی لوگ ہیں پس اس مناسبت سے آئندہ آیات میں مسجد حرام کا ذکر فرماتے ہیں اور اس مقدس مقام کی فضیلت اور ان ایام کی برکت اور حج اور عمرہ اور قربانی کے کچھ احکام بیان کرتے ہیں کہ یہ مقدس عبادت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے برابر چلی آرہی ہے مگر کفار قریش اس عبادت میں مانع اور مزاحم ہیں اور اپنے افعال شرکیہ سے باز نہیں آتے حالانکہ خانہ کعبہ کی بنیادہی خالص توحید پر رکھی گئی ہے کہ اس گھر میں خالص اللہ کی عبادت کی جائے اور رسوم شرکیہ سے اس گھر کو پاک رکھا جائے۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق جن لوگوں نے کفر کیا اور اسلام اور اہل اسلام کی عداوت اور خصوصیت پر اس درجے تلے ہوئے ہیں کہ وہ فقط اپنے کفر اور شرک اور اپنی گمراہی پر قانع نہیں بلکہ شدت اختصام اور جذبہ انتقام کی بناء پر اہل اسلام کی ہدایت میں مزاحم بنے ہوئے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے یعنی دین اسلام اور طریق حق سے اور مسجد حرام کی زیادت اور حاضری سے روکتے ہیں کہ اس مجسجد میں جا کر کوئی خالص اللہ کی عبادت نہ کرسکے اور اس مسجد کی صفت یہ ہے کہ ہم نے سب لوگوں کے لیے اس کو قبلہ اور معبد بنایا ہے کہ اس میں مقیم یعنی مکہ کا متوطن اور باشندہ اور باہر سے آنے والا برابر ہے مقیم اور مسافر اور شہری اور پردیسی سب کو ٹھہرنے اور عبادت کرنے کے مساویانہ حقوق حاصل ہیں ہر ایک وہاں جاکر عبادت کرسکتا ہے کسی کو روکنے کا حق حاصل نہیں اس میں سب کا حق مساوی ہے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے مسجد حرام کے بارے میں شہری اور بیرونی کو برابر قرار دیا ہے۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ کس چیز میں مساوات اور برابری مراد ہے۔ سواء العاکف میں اقوال قول اول : امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ عبادت اور مناسک حج کی ادائیگی میں برابری مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ مسجد حرام کی حاضری اور وہاں آکر عبادت کرنے میں شہری اور بیرونی سب برابر ہیں کسی شہری کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی بیرونی کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے روک سکے۔ قول دوم : اور ابن عباس ؓ اور صحابہ ؓ وتابعین (رح) کی ایک جماعت یہ فرماتے ہیں کہ مسجد حرام سے تمام مکہ اور سر زمین حرم مراد ہے کیونکہ حدیبیہ کے دن مشرکین مکہ نے آپ کو اور آپ ﷺ کے صحابہ کو حرم میں داخل ہونے سے روکا تھا اور سواء ن العاکف فیہ والباد۔ میں مساوات سے مکہ میں قیام اور سکونت اور نزول کے بارے میں مساوات اور برابری مراد ہے مکہ کی زمینوں اور مکانات میں مقیم لوگوں کا اور باہر سے آنے والوں کا سب کا حق یکساں ہے۔ اور ان حضرات کے نزدیک مکہ کی زمین کسی کی ملک نہیں اور وہاں کے مکانات کا کرایا لینا جائز نہیں اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کا مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کی ایک دلیل تو یہ آیت ہے اور دوسری دلیل یہ ہے کہ امام محمد (رح) نے کتاب الاآثار میں امام ابوحنیفہ (رح) کی سند سے عبد اللہ بن عمر ؓ سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ اللہ نے مکہ کو حرم قرار دیا پس اس کی اراضی کی بیع اور اس کا ثمن کھانا حرام کیا اور تیسری دلیل وہ ہے کہ جو علقمہ تابعی (رح) سے مرسلا مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور ابوبکر ؓ نے وفات پائی اور عمر ؓ نے وفات پائی اور نہیں پکارا جاتا تھا مکہ کی زمینوں کو مگر ” سوائب “ جس کو جہاں ضرورت ہوتی تھی وہ ٹھہر جاتا تھا۔ (رواہ ابن ماجہ) اور سوائب کے معنی وقف عام اور غیر مملوک کے ہیں اور ایک روایت میں عثمان غنی ؓ کا نام اور زیادہ ہے کہ ان کے زمانہ میں بھی مکہ کی زمینیں سوائب کے نام سے پکاری جاتی تھیں کوئی اپنی ملک کا دعویٰ نہیں کرتا تھا۔ (دیکھو تفسیر قرطبی ص 33 ج 12 و تفسیر ابن کثیر ص 214 ج 3) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اراضی مکہ وہاں کے باشندوں کی ملک ہیں ان کو بیع و شراء کا اور اپنے مکانات کا کرایہ پر دینا جائز ہے اور اس پر چند حجتیں قائم فرمائیں۔ (1) اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کے حق میں فرمایا ہے۔ الذین اخرجوا من دیارھم۔ (اپنے گھروں سے نکالے گئے) اس آیت میں گھروں کی اضافت ان کی طرف فرمائی معلوم ہوا کہ گھر ان کے مملوک تھے۔ (2) آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا جو شخص ابو سفیان ؓ کے گھر میں داخل ہوا وہ امن سے ہے اور جس شخص نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا وہ بھی امن سے ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ گھر اس کی ملک ہے۔ (3) صحیحین میں اسامۃ بن زید ؓ سے مروری ہے کہ اسامہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کل کو مکہ میں اپنے مکان میں اتریں گے آپ ﷺ نے فرمایا کہ عقیل (علیہ السلام) نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے اور بات یہ ہے کہ جب ابوطالب کا انتقال ہوا تو عقیل اس وقت کفر پر تھے اور حضرت علی ؓ اور حضرت جعفر ؓ اسلام پر تھے تو ابوطالب کی میراث عقیل کو پہنچی کیونکہ مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث ہوتا اور ظاہر ہے کہ میراث اسی چیز میں جاری ہوتی ہے جس کا میت مالک ہو (4) حضرت عمر ؓ نے مکہ میں قید خانہ کے لیے ایک مکان خرید فرمایا اور صحابہ ؓ نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا اور ظاہر ہے کہ غیر مالک ہی مالک سے خریدار کرتا ہے تاکہ مالک بن جائے۔ لیکن ان دلائل کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیار کی نسبت سے یہ لازم نہیں کہ یہ اضافت ملک ہو۔ ممکن ہے کہ یہ اضافت باعتبار سکونت اور عمارت کے ہو کہ وہ عمارت تو بہرحال ان ہی کی ملک تھی۔ علاوہ ازیں زمانہ اسلام سے پہلے ان مکانات کو اپنی املاک جانتے تھے اور امام ابو یوسف (رح) کا بھی یہی مذہب ہے کہ مکہ کی زمینوں کی بیع اور مکانوں کو کرایہ جائز ہے۔ ہدایہ کی کتاب الکراہتیہ میں ہے کہ بیوت مکہ کی عمارت فروخت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں و لیکن زمین سمیت عمارت کا فروخت کرنا مکروہ ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے اور امام ابویوسف (رح) اور امام محمد (رح) کہتے ہیں کہ زمین کے فروخت کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) سے ایک روایت میں یہ قول بھی منقول ہوا ہے کہ مکہ کی زمینوں کی بیع اور مکانات کا کرایہ جائز ہے اور کتب فتاویٰ میں یہ بھی آیا ہے کہ اب فتویٰ اسی قول پر ہے۔ دیکھو روح المعانی ص 126 ج 17 اور تفصیل کے لیے ہدایہ کی کتاب الکراہیتہ دیکھیں اور مزید تفصیل کے لیے شروح ہدایہ اور شروح بخاری دیکھیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب تم کو معلوم ہوگیا کہ مسجد حرام کی یہ شان ہے اور اس درجہ اس کا احترام واجب ہے اور لوگوں کو مسجد حرام سے روکنا سراسر ظلم اور زیادتی ہے تو جو شخص مسجد حرام میں ظلم اور زیادتی کے ساتھ کج روی اور راہ حق سے عدول اور انحراف کا ارادہ بھی کرے تو ایسئے ظالم کو ہم دردناک عذاب چکھائیں گے۔ ” الحاد “ سے دین سے عدول اور انحراف اور مسجد حرام کی بےحرمتی مراد ہے اور ظلم کے معنی زیادتی اور ستمگاری کے ہیں یہاں بظلم سے عمداً اور قصداً اور دیدہ دانستہ حرم میں الحاد کا ارادہ کرنے کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ حرم محترم میں الحاد اور بےدینی کا ارادہ سخت ترین اور شدید ترین جرم ہے جو اس پاک مقام میں الحاد کا ارادہ کرے اگرچہ اس کو نہ کرے تو اس پر دردناک عذاب ہوگا۔ اسی وجہ سے اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ حرم محترم میں گناہ کا ارادہ کرنے سے بھی آدمی عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے اگرچہ اسکا ارتکاب نہ کرے اور حدود حرم سے باہر جب تک گناہ کا ارتکاب نہ کرے اس وقت تک محض ارادہ اور خیال پر وہ عذاب کا مستحق نہیں ہوتا ان آیات میں مسجد حرام سے روکنے کو ظلم قرار دیا اور حرام میں الحاد اور بےدینی کے ارادہ پر وعید فرمائی اب آئندہ آیات میں اس مقام محترم میں ظلم عظیم یعنی شرک کونے پر وعید اور تہدید فرماتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ اس محترم مقام کی ابتداء اور بنیادی توحید اور خالص اللہ کی عبادت سے ہوئی چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی یاد کرو اس وقت کو جبکہ ہم نے خانہ کعبہ کی جگہ ابراہیم کے لئے اس جگہ کعبہ بناؤ اور یہ حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور میرے اس گھر کو کفر اور شرک کی نجاستوں اور پلیدیوں سے پاک رکھو طواف کرنے والوں کے لیے اور نماز میں کھڑے ہونے والوں کے لیے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ بھی حکم دیا کہ لوگوں میں حج کے لیے پکار دو کہ اللہ کا گھر تیار ہوگیا اور اس کا حج فرض ہے ابراہیم علیہا لسلام نے عرض کیا کہ اے پروردگار میری آواز لوگوں کو کیسے پہنچے گی۔ حکم ہوا کہ تمہارے ذمہ صرف پکار دینا ہے۔ پہنچانا ہمارا کام ہے۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) جبل ابو قبیس پر کھڑے ہوئے اور پکارا اے لوگو ! تمہارے پروردگار نے ایک گھر بنایا ہے اور تم پر اس کی زیارت فرض کی ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ آواز تمام اقطار زمین تک پہنچ گئی اور قیامت تک پیدا ہونے والوں نے اس آواز کو سنا جس کے مقدر میں اللہ نے حج لکھ دیا تھا اس نے لبیک کہا۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اے لوگو ! تم پر اللہ نے اپنی گھر کا حج فرض کیا ہے پس تمہارے اس اعلان کے بعد لوگ آئیں گے تیرے پاس یا پیادہ اور بعضے سوار ہو کر دبلے دبلے اور کمزور اونٹوں پر۔ چلی آئیں گی یہ سواریاں ہر دور دراز راہ سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج کے لیے مکہ جانا گویا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جانا ہے اور ان کی زیارت کرنا ہے اور وہ لوگ اس لیے آئیں گے تاکہ اپنے دینی اور دنیاوی فائدوں پر حاضر ہوں اور وہاں پہنچ کر دنیا و آخرت کے منافع حاصل کریں، دنیا کی تجارت بھی کریں اور آخرت کی بھی تجارت کریں اور منافع حاصل کریں اور اس لیے آویں تاکہ مقررہ دنوں میں ان چوپایوں پر جو اللہ نے ان ہیں یعنی اونٹ اور گائے اور بکری اور بھیڑ پر ان کے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیں ” ایام معلومات “ سے بعض مفسرین (رح) کے نزدیک عشرہ ذی الحج مراد ہے اور فقہاء کہتے ہیں کہ ایام نحر یعنی ایام قربانی مراد ہیں۔ دسویں اور گیارہویں اور بارہویں ذی الحج مراد ہے۔ کفار بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے اور خود اس میں سے کچھ نہ کھاتے تھے اللہ نے حکم دیا کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لو پھر اس قربانی کے گوشت سے تم خود بھی کھاؤ اور عاجز اور درماندہ فقیر کو بھی اس میں میں سے کھلاؤ۔ تمام علماء کا اجماع ہے کہ اپنی قربانی کے گوشت سے کچھ کھانا اور کھلانا مستحب ہے واجب نہیں اور اعلیٰ ہذا یہ بھی ضروری نہیں کہ اس میں سے فقیرہی کو کھلائے بلکہ غنی کو بھی کھلانا جائز ہے پھر قربانی کے بعد اپنے بدن کا میل کچیل دور کریں یعنی احرام کھول ڈالیں اور سر کے بال منڈوائیں اور ناخن ترشوائیں اور بغلوں کے بال صاف کرائیں اور مونچھیں کروائیں اس کے لئے دسویں ذی الحج مقرر ہے۔ ہدی ذبح کرنے کے بعد ان میلوں کو دور کریں اور احرام سے باہر ہوجائیں اور اپنی نذریں پوری کریں اللہ کے لیے جو منتیں مانی ہوں وہ پوری کریں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نذور سے مناسک حج اور نذریں پوری کریں اللہ کے لیے جو منتیں مانی ہوں وہ پوری کریں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نذور سے مناسک حج اور واجبات حج مراد ہے جب سے احرام شروع ہوا تھا اور لبیک اللہم لبیک کہا تھا اس وقت سے بالوں کا کتوانا اور ناخونوں کا ترشوانا ممنوع ہوگیا تھا۔ اس مدت میں بدن پر میل کچیل چڑھ گیا تھا۔ جب دسویں تاریخ ذی الحجہ کو قربانی کرکے احرام ختم ہوا تو حکم ہوا کہ اب حجامت بنواؤ اور بدن کا میل کچیل دور کرو۔ اور غسل کرو اور خوشبو لگاؤ اور اپنی منتیں پوری کرو اور پھر قربانی کے بعد انہی ایام معلومات میں اس قدیم گھر کا یعنی خانہ کعبہ کا طواف کریں۔ اس طواف کو طواف زیارت اور طواف افاضہ بھی کہتے ہیں جو فرض ہے اور رمی جمار اور قربانی اور حلق کے بعد دسویں ذی الحجہ کو ہوتا ہے۔ فائدہ (1): جاننا چاہئے کہ طواف تین ہیں۔ اول طواف قدوم جب آدمی مکہ میں داخل ہو کر طواف کرے وہ طواف قدوم ہے۔ دوم طواف زیارت جس کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں اس آیت میں جس طواف کا حکم مذکور ہے وہ یہی طواف زیارت ہے جو دسویں تاریخ ذی الحجہ کو رمی جمار اور سر منذوانے کے بعد ہوتا ہے اور یہ طواف فرض ہے۔ سوم طواف و داع ہے جو مکہ سے رخصت ہوتے وقت کیا جائے یہ طواف واجب ہے۔ فائدہ (2) : اس آیت میں خانہ کعبہ کو بیت عتیق کہا گیا۔ عتیق کے معنی قدیم کے بھی آتے ہیں اور آزاد کے بھی آتے ہیں پس بعض کہتے ہیں کہ اس کو بیت عتیق اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ظالموں کے ہاتھوں سے آزاد رکھا ہے کوئی جبار اس پر غالب نہیں آیا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سب سے پہلا معبد ہے جو اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا یہ وجہ قرآن کریم کی اس آیت ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ۔ سے ماخوذ ہے۔ یہ حکم تو تم سن چکے اور اداء مناسک اور احترام کعبہ کے متعلق بات پوری ہوئی اور اب دیگر احکام کے متعلق دوسری بات سنو کہ جو شخص اللہ کی محترم چیزوں کی تعظیم اور ادب اور احترام کو ملحوظ رکھے اور ان کی بےحرمتی نہ کرے تو یہ تعظیم اور ادب اس کے پروردگار کے یہاں اس کے لیے بہتر ہے یعنی جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے محترم اور قابل ادب قرار دیا ہے۔ ان کے ادب اور تعظیم کو ملحوظ رکھنا بڑی کی بات ہے اور اس کا انجام بہت خوب ہے۔ حرمات اللہ کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ جو چیزیں اللہ کے نزدیک قابل احترام اور قابل تعظیم ہیں جو بظاہر تمام احکام الہیہ کو شامل ہے مگر اس مقام پر خصوصیت سے مسجد حرام اور قربانی اور صفا اور مروہ اور منا اور عرفات اس قسم کے مناسک حج اور شعائر السلام مراد ہیں کہ ان کی تعظیم اور احترام کو ملھوظ رکھے اور جس طرح حق تعالیٰ نے ان کے بارے میں حکم دیا ہے اسی طرح ان کو بجا لائے۔ اور اے مسلمانو ! تمہارے کھانے کے لیے حالت احرام میں اور بلد حرام میں چوپائے اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ حلال کر دئیے گئے سوائے ان چیزوں کے جن کی حرمت تم کو دیگر آیات قرآنیہ میں پڑھ کر سنائی جاتی ہے جیسے سورة مائدہ اور سورة انعام میں ان محرمات کا ذکر ہے سو وہ چیزیں تمہارے لیے کسی حال میں حلال نہیں جیسے مردار اور دوم مسفوح اور خنزیر اور بتوں کے نام پر ذبح کیا ہوا، یہ چیزیں قطعاً حرام ہیں پس تم بتوں کی گندگی سے بچو یعنی بتوں کی بندگی اور ان کے نام پر ذبح کرنے کو چھوڑ دو ۔ یہ سب گندے افعال ہیں اور تلبیہ میں لبیک اللہم لبیک کے ساتھ الاشریکا ھو لک تملکہ وما ملک کہنے سے بھی بچو۔ یہ گندہ قول ہے اور جھوٹی بات سے احتراز کرو خدا کا شریک قرار دینا اور جھوٹی گواہی دونوں برابر ہیں۔ شرک بھی تو آخر ایک قسم کا جھوٹ ہے اور زجاج (رح) وغیرہ سے منقول ہے کہ قول زور سے مشرکین کا یہ قول مراد ہے۔ ھذا حلال و ھذا حرام کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے۔ یہ سب اللہ پر افتراء اور جھوٹ باندھنا ہے۔ پس اے مسلمانو ! تم بتوں کی پلیدی سے اور جھوٹ بولنے سے احتراز کرو۔ سب سے ہٹ کر اور بچ کر خدا کی طرف جھک جانے والے اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنے والے ہوجاؤ۔ اخلاص اور توحید آدمی کو نجات دیتا ہے اور کفر اور شرک آدمی کو ہلاک کرکے چھوڑتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ ایسا ہوگیا کہ گویا آسمان سے گر پڑا۔ پھر پرند اس کو اچک لے گئے یا ہوا نے اس کو کسی دور دراز مکان میں لے جاکر پھینک دیا۔ تو ایسا شخص کبھی سلامت نہیں رہ سکتا اور اس قدر بلندی سے گرنے کے بعد زندہ نہیں بچ سکتا۔ اسی طرح جس نے شرک کیا وہ آسمان توحید کی بلندی سے شرک کی پستی کی طرف گرا اور مردار خوار پرندوں کی طرح نفسانی خواہشوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا وسوسہ شیطانی کی تند اور تیز ہوا نے اس کو لے جا کر کسی وادی ضلالت میں پھینک دیا جس سے اس کی تمام ہڈیاں اور پسلیاں الگ لاگ ہوگئیں۔ حاصل کلام یہ کہ شرک کرنے والا اس طرح ہلاک ہوتا ہے کہ پھر نجات کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ (دیکھو تفسیر کبیر ص 182 ج 6) یہ بات تو ختم ہوئی اب دوسری بات سنو اور وہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی یادگاروں یعنی اس کے دین کی نشانیوں، علامتوں اور اس کی نامزد چیزوں کی تعظیم کرے گا تو اس میں شک نہیں کہ شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کی پرہیزگاری سے پیدا ہوتی ہے قلب میں جس درجہ کا تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی عظمت ہوگی اسی درجہ کی تعظیم اس سے سرزد ہوگی۔ تقویٰ اور فجور کا اصل منشا اور منبع قلوب ہیں اور اعضاء ظاہری ان کے آثار کے مظہر ہیں۔ اندر کا اثران اعضاء پر ظاہر ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم شرک نہیں بلکہ تقویٰ کی علامت ہے اور آثار توحید میں سے ہے اس لیے کہ عاشق کی شان یہ ہے کہ جو چیز اس کے محبوب کی طرف منسوب ہو یا اس کی نامزد ہو یا اس کے دین کی نشانی ہو۔ دل و جان سے اس کی تعظیم کرے۔ شعائر : جمع شعیرۃ یا شعارۃ کی ہے جس کے معنی علامت اور نشانی کے ہیں اس جگہ شعائر اللہ سے مناسک حج اور قربانی کے جانور مراد ہیں جیسا کہ آئندہ آیت سے مفہوم ہوتا ہے اور تمہارے لیے ان جانوروں سے فائدے ہیں کہ بحالت ضرورت یا بحالت اضطرار ان پر سواری کرنا بھی جائز ہے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک قربانی کے جانور پر بحالر ضرورت سواری جائز ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اضطرار اور غایت درجہ کی مجبوری کی حالت میں جائز ہے ورنہ نہیں۔ (تفصیل کے لیے شروح بخاری دیکھیں) البتہ قربانی کے بعد ان کے گوشت اور کھال سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ پھر ان ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کی حلال ہونے کی جگہ قدیم گھر کے قریب ہے یعنی منیٰ اور حدود حرم کے اندر اس کو خدا کے نام پر ذبح کیا جائے۔ حدود حرم سے باہر ذبح جائز نہیں باقی مسائل جو ان آیات سے ماخوذ ہیں وہ کتب فقہ میں دیکھے جائیں۔ اور آپ ﷺ سے پہلے ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا طریقہ اور مکان معین اور مقرر کیا تھا تاکہ ان چوپایوں پر جو اللہ نے ان کو دئیے ہیں۔ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیں اللہ کے نام پر قربانی کرنے کا حکم تمام شریعتوں میں رہا ہے کہ ذبح کرتے وقت اس خدائے وحدہ لاشریک لہ کا نام لیں جس نے یہ نعمت عطاء کی۔ خدا کے سوا کسی کے نام پر ذبح کرنا اور اس کی نذونیاز کرنا یہ ہر ملت میں شرک رہا ہے پس سمجھ لو کہ تمہارا معبود حقیقی ایک ہی خدا ہے۔ سو تم اپنے آپ کو اسی ایک خدا کے حوالہ اور سپرد کر دو خالص اسی کی اطاعت کرو اور اسی کی اطاعت پر جمے رہو۔ اور اے نبی خوشخبری سنا دیجئے۔ اللہ کے سامنے پست ہونے والوں اور اس کے احکام کے سامنے گردن جھکانے والوں کو اور اس کے سامنے خجل اور شرمندہ ہونے والوں کو اور بندگی میں عاجزی اور فروتنی کرنے والوں کو جن کے دل خدا کی عظمت سے اس درجہ لبریز ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور دوسری صفت ان کی یہ ہے کہ وہ مصیبتوں پر صبر کرنے والے ہیں یعنی مصیبت کے وقت ان کے قدم استقامت میں کوئی تزلزل نہیں آتا اور تیسری صفت ان کی یہ ہے کہ وہ نماز کو قائم رکھنے والے ہیں۔ نماز ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور چوتھی صفت ان کی یہ ہے کہ ہمارے دیئے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں یعنی مال کا کچھ حصہ ہمارے نام پر قربان کرتے ہیں تاکہ اللہ کا تقرب حاصل ہو۔ اور قرب الٰہی کے حصول کا قریب ترین ذریعہ ایام حج میں جانور کی کی قربانی ہے اس لیے کہ ہم نے قربانی کے جانوروں کو یعنی اونٹ اور گائے کو اور اسی طرح بھیڑ بکری کو تمہارے لیے اللہ کے دین کی نشانیوں اور علامتوں میں سے بنا دیا ہے۔ جن کے ذبح کرنے میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ان دنوں میں خدا کے لیے قربانی اور اس کے لیے خون بہانے سے بہتر اور بڑھ کر کوئی عمل نہیں پس تم کو ان کے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لو۔ خدا کے سوا اور کسی کا نام نہ لو۔ درآنحالیکہ وہ قطار باندھے کھڑے ہوں یا یہ معنی ہوں کہ وہ اپنے تین پاؤں پر کھڑے ہوں۔ اونٹ اسی طرح ذبح کیے جاتے ہیں اور یہی سنت ہے پس تم ان جانوروں کو اس طرح خالص اللہ کا نام لیکر اللہ کے لیے قربان کرو پھر جب ان کے پہلو زمین پر گر جائیں اور ان کی جان نکل جائے اور ٹھنڈے ہوجائیں تو تم خود بھی اس میں سے کھاؤ اور قناعت کرنے والے فقیر کو جو سوال نہیں کرتا اور سوال کرنے والے کو جو اپنی خواہش لیکر تمہارے سامنے آئے اس کو بھی اس میں سے کھلاؤ اور کھلانے سے گوشت دینا مراد ہے ” قانع “ سے وہ درویش مراد ہے جو صبر و قناعت کے ساتھ اپنے گھر میں بیٹھا ہے اور سوال نہیں کرتا اور ” معتر “ سے وپ محتاج مراد ہے جو تمہارے سامنے آئے اور ادب کے ساتھ تم سے سوال کرے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ” قانع “ وہ ہے کہ جو تیری طرف جھکے اور سوال کرے اور ” معتر “ وہ ہے کہ جو چاپلوسی کے ساتھ تیرے سامنے آئے اور سوال نہ کرے بعض کہتے ہیں کہ قانع سے طامع مراد ہے کہ جو بمع کرے اور معتردہ ہے کہ جو قربانی کے وقت موجود ہو خواہ تو انگر ہو یا فقیرہو، مطلب یہ ہے کہ مبارک گوشت میں سے خود بھی کھاؤ اور دوستوں اور فقیروں کو بھی کھلاؤ۔ اور یہ حکم استحبابی ہے وجو بی نہیں۔ اگر سب صدقہ کردے تو یہ بھی جائز ہے اور اگر سب اپنی ہی لیے رکھ لے تو یہ بھی جائز ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تہائی صدقہ کر دے اور تہائی اقارب اور احباب کو ہدیہ کر دے اور تہائی اپنے لیے رکھ لے۔ اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کردیا کہ اتنے عظیم الجثہ بڑے بڑے جانور تمہارے قبضہ میں کر دئیے کہ تم ان کو پکڑتے اور باندھتے ہو اور اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہو تاکہ تم ہمارا احسان مانو اور شکر کرو مگر بجائے شکر کے شرک اور ناشکری کرنے لگے۔ تم کو چاہئے کہ جس طرح یہ جانور تمہارے سامنے گردن جھاکئے ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی خدا کے سامنے گردن ڈال دو ۔ ان جانوروں کو جو اللہ کا عطیہ ہیں ان کو خالص اللہ کے نام پر ذبح کرو، کسی غیر کا نام اس میں شریک نہ کرو اور قربانی میں مشرکوں کا طریقہ نہ اختیار کرو۔ عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں جو قربانی کرتے تھے تو اس کا خون بتوں پر چھڑکتے تھے اور کعبہ کی دیواروں پر بھی ملتے تھے، اس کے بارے میں آئندہ آیت میں نازل ہوا کہ ہرگز نہیں پہنچتے اللہ کو قربانی کے گوشت اور ان کے خون لیکن پہنچتا ہے اس کو تمہارے دل کا تقویٰ اور ادب کہ تم نے کس جذبہ محبت و اخلاص سے ایک قیمتی چیز خالص اس کے نام پر قربان کی اور شرک سے بچے۔ پس تمہارا یہ اخلاص اور تقویٰ یعنی شرک سے پرہیزگاری اور جذبہ جاں نثاری قبولیت کا سبب بنا اور پھر جب تم نے اس گوشت کو محتاجوں کی حاجت رفع کرنے کے لیے محض خدا کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا تو بارگاہ خداوندی میں تمہاری یہ چیز قبول ہوئی ورنہ اس کی ذات والا صفات اس سے بالا اور برتر ہے کہ اس کی بارگاہ میں جانوروں کا گوشت اور خون پہنچے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح ان جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تاکہ تم اس بات پر اللہ کی عظمت اور اللہ کی کبریائی کو بیان کرو کہ تم کو اللہ نے اپنے قرب اور رضا کے حصول کے لیے قربانی کی ہدایت اور توفیق دی اور جہالت اور جاہلیت کے مشرکانہ رسموں سے تم کو آگاہ کیا اور اے نبی ان اخلاص سے قربانی کرنے والوں کو ہمارے قرب و رضا اور قبولیت کی بشارت سنا دیجئے اور بتلا دیجئے کہ خدا کی طرف جو چیز پہنچتی ہے وہ تمہارا تقویٰ اور اخلاص ہے اور اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے وبشر المحسنین پر ختم فرمایا۔ اشارہ اس طرف ہے کہ احسان یعنی اخلاص اور صدق نیت تمام اعمال صالحہ کی روح ہے۔ تتمۂ کلام سابق (یعنی اہل ایمان کی طرف سے مدافعت) ان اللہ یدفع عن الذین امنوا، ان اللہ لایحب کل خواب کفورہ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ دفع کرے گا اہل ایمان سے کافروں کے شر اور ضرر کو اور ان کے فتنوں کو کہ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ کفار اہل اسلام کو مسجد حرام سے نہیں روک سکیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کسی دغا باز کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔ یعنی جو لوگ کفر اور شرک کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ دغا بازی کرتے ہیں اور طرح طرح سے ان کو ستاتے ہیں اور مسجد حرام کی زیارت سے ان کو روکتے ہیں یہ لوگ اللہ کے نزدیک مبغوض ہیں محبوب نہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کے لیے بطور پیشین گوئی ایک تسلی آمیز وعدہ ہے اور کفار کے لیے وعید ہے اسلئے کہ اس آیت میں اہل ایمان کی حمایت اور دشمنوں کی مدافعت کی خبر سی جا رہی ہے یہ کلام شروع کلام کا تتمہ ہے آغاز کلام اس آیت سے ہوا تھا۔ ان الذین کفروا ویصدون عن سبیل اللہ و المسجد الحرام۔ یعنی کفار قریش مسلمانوں کو مسجد حرام کی زیارت سے روکتے ہیں اب آخر میں اہل اسلام کو تسلی فرماتے ہیں کہ تم ان احکام مذکورہ کو سن کر یہ خیال نہ کرنا کہ ہمیشہ غلبہ انہی کفار مانعین کا رہے گا۔ عنقریب ایک وقت آنے والا ہے کہ مسلمان بےخوف و خطر حج وعمرہ کیا کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کافروں کو مسلمانوں کے راستے سے ہٹا دے گا اے مسلمانو ! تم فی الحال کافروں کے غلبہ سے یہ نہ سمجھنا کہ یہ کفار اللہ کے نزدیک محبوب ہیں بلکہ اللہ کے نزدیک مبغوض اور معتوب ہیں کیونکہ سرتاپا کفر اور خیانت ہیں، ایسے کیسے محبوب ہوسکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حکمتوں اور مصلحتوں کی بناء پر ان کو مہلت دے رکھی ہے گھبراؤ نہیں عنقریب راستہ بالکل صاف ہوجائے گا اور اللہ اہل اسلام کی مدد کریگا اور ان کو کافروں پر غلبہ فرمائیگا جیسا کہ اس کا وعدہ ہے انا لننصر رسلنا والذین امنوا۔ پس یہ آیت غلبہ اسلام کی بشارت ہے اور گزشتہ آیت بشر المحسنین۔ کا تتمہ اور تکملہ ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
Top