Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 25
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اِ۟لْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِ١ؕ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا وَيَصُدُّوْنَ : اور وہ روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : اور مسجد حرام (بیت اللہ) الَّذِيْ : وہ جسے جَعَلْنٰهُ : ہم نے مقرر کیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے سَوَآءَ : برابر ۨ الْعَاكِفُ : رہنے والا فِيْهِ : اس میں وَالْبَادِ : اور پردیسی وَمَنْ : اور جو يُّرِدْ : ارادہ کرے فِيْهِ : اس میں بِاِلْحَادٍ : گمراہی کا بِظُلْمٍ : ظلم سے نُّذِقْهُ : ہم اسے چکھائیں گے مِنْ : سے عَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ لوگ کی راہ اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جس کو ہم نے لوگوں کے لئے یکساں بنایا، خواہ وہ اس کے شہری ہوں یا آفاقی (تو انہوں نے بہت ظلم کا ارتکاب کیا) اور جو اس میں کسی بےدینی، کسی شرک کے ارتکاب کا ارادہ کریں گے تو ہم ان کو ایک عذاب درد ناک کا مزا چکھائیں گے
آگے کا مضمون ……… آیات 37-25 توحید و شرک کی بحث جو اوپر سے چلی آرہی ہے یہاں وہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ قریش اور ان کے ہمنوائوں نے اس دور میں جو اتنی شدید خصومت کی روش اختیار کرلی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ دعوت توحید اور ابطال شرک کی اس جدوجہد کی نوعیت صرف ایک کلامی و عقائدی نزاع کی نہیں ہے بلکہ اس کی ضرب ان کی اس مہنتی اور سیادت و قیادت پر بھی پڑنے والی ہے جو ان کو حرم کی تولیت کی بدولت حاصل ہے۔ قریش نے حرم پر اپنا قبضہ جما رکھا تھا اور ان کا دعویٰ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی اس وراثت کے اصلی حقدار اور متولی و امین وہی ہیں۔ خاندان بنی ہاشم کو خانہ کعبہ کی کلید برداری کا منصب حاصل تھا اور ان کا سرغنہ اس زمانے میں ابولہب تھا جو رفادہ کے تمام خزانے پر غاصبانہ قابض اور اس میں من مانے تصرفات کے لئے پوری طرح آزاد تھا۔ یہ امر بھی محلوظ رہے کہ قریش کو صرف مکہ ہی میں سیادت و امارت حاصل نہیں تھی بلکہ حرم کے پاسبان سمجھے جانے کے سبب سے پورے عرب پر ان کی مذہبی پیشوائی کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ایسے حالات میں وہ ایک ایسی دعوت کو ٹھنڈے پٹیوں کس طرح برداشت کرسکتے تھے جو ان کو ان تمام مفادات سے یک قلم مروم کر دے۔ چناچہ انہوں نے مسلمانوں کو حرم کی حاضری سے بھی محروم کردیا اور ظلمو تشدد کے زور سے ان کو سر زمین مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ ان حالات میں یہ آیات اتریں جن میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اس گھر کو کس مقصد کے لئے بنایا تھا، ان کی دعوت کیا تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو کن شعائر و مناسک کی تعلیم دی تھی۔ یہ گویا ایک آئینہ ہے جو قریش کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اس میں اپنا منہ دیکھ کر خود فیصلہ کرلیں کہ وہ اس وراثت ابراہیمی کے حق دار ہیں یا غاصب و غدار ! ضمناً مسلمانوں کی اس میں حوصلہ افزائی بھی فرمائی گئی ہے اور ان کو ان ذمہ داریوں سے بھی آگاہ فرمایا گیا ہے جو آگے اس گھر کے مناسک و شعائر سے متعلق ان پر عائد ہونے والی ہیں … اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمایئے۔ تالیف کلام کی دو شکلیں اس آیت میں تالیف کلام کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ ان الذین کفروا سے لے کر العاکف فیہ وانباء تک پورے ٹکڑے کو بطور تو طیہ و تمہید مانیے اور اصل مبتداء و من یردنیہ کو قرار دیجیے دوسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں خبر کو یعنی فقد ظلموا ظلماً کبیراً یا اس کے ہم معنی الفاظ محذوف مانیے عربیت کے قاعدے سے یہ دونوں شکلیں صحیح ہیں۔ اساتذ امام ؒ کا رجحان پہلی صورت کی طرف ہے اور میرا رجحان دوسری شکل کی طرف۔ میں نے ترجمے میں اسی کا لحاظ رکھا ہے لیکن آیت کی تاویل میں۔ اشارہ قریش کی طرف دونوں ہی صورتوں میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوگا۔ ان الذین کفروا ویصدون عن سبیل اللہ والمسجد الحرام یہ اشارہ قریش کی طرف ہے جنہوں نے نبی ﷺ کی دعوت کا انکار کردیا تھا اور مسلمانوں کو جبر و زور کے ذریعہ سے اللہ کے دین سے بھی روک رہے تھے اور اس دور میں جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، انہوں نے مسلمانوں کو حرم کی حاضری سے بھی محروم کردیا تھا۔ بنی ہاشم کی مہنتی پر ضرب بنی ہاشم کی مہنتی پر ضرب الذی جعلنہ للناس سوآء العاکف فیہ والباد یہ مسجد حرام کی تعریف ہے کہ اللہ نے اس میں حدود حرم کے مقیمین اور باہر سے آنے والوں دونوں کے حقوق یکساں رکھے ہیں یہ قریش کی اجارہ داری اور خاص طور پر بنی ہاشم کی مہنتی پر ضرب ہے کہ انہوں نے اللہ کے اس گھر پر اپنا جو تسلط مالکانہ دعا کی نہ جما رکھا ہے جس کو چاہیں اس میں آنے دیں، جس کو چاہیں اس کی حاضری سے محروم کردیں یہ بالکل ناجائز ہے۔ اس گھر پر کسی خاص خاندان کا اجارہ نہیں ہے۔ ہر شخص جو اللہ کی عبادت اور حج و اطراف کے لئے اس گھر کا قصد کرے، خواہ قرشی و ہاشمی ہو یا غیر قرشی و غیر ہاشمی، مکی ہو یا غیر مکی، عربی ہو یا عجمی اس کے اوپر کسی کو کوئی قد غن عاید کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس کے مقیمین کا اگر کوئی حق و فرض ہے تو صرف یہ ہے کہ وہ اس کو ان گندگیوں سے پاک و صاف رکھیں جن سے اس کو پاک و صاف رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کو حکم دیا تھا اور جن کی تفصیل آگے آرہی ہے لیکن قریش کی یہ ستم ظریفی ہے کہ انہوں نے اللہ کے اس گھر کو ان تمام نجاستوں سے تو بھر دیا ہے جن سے پاک رکھنے کی اللہ نے ہدایت فرمائی تھی لیکن اس کی تولیت کے مدعی بنے بیٹھے ہیں اور اللہ کے ان بندوں کو اس سے روک رہے ہیں جو اس کو اس کے اصل ابراہیمی حسن و جمال سے از سر نو منور کرنا چاہتے ہیں۔ العاکف والباد کا عام مفہوم تو جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا۔ یہاں مقیم و آفاقی کا ہے لیکن حرم کے باشندوں کے لئے عاکف کا لفظ استعمال کر کے قرآن نے ان کی اصل حیثیت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ان کی حیثیت حرم الٰہی کے ٹھیدی اروں، اجارہ داروں اور حکمرانوں کی نہیں ہے بلکہ اس کے معتکفین اور خدمت گزاروں کی ہے۔ وہ اس کو حضرت اسماعیل کی طرح تمام دنیا کے لئے حج و عبادت کا مرکز بنائیں اور تمام خلق کو دعوت دیں کہ لوگ اس کی برکتوں سے بہرہ اندوز ہونے کے لئے اس آستانہ الٰہی پر آئیں۔ مسجد حرام پر کسی خاندان یا حکومت کی اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی ان الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ جہاں تک مسجد حرام کا تعلق ہے اس پر کسی خاندان یا کسی مخصوص حکومت کی اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی۔ اس میں عرب و عجم اور شرق و غرب کے تمام مسلمانوں کے حقوق بالکل یکساں ہیں۔ اہل مکہ یا ان کی حکومت کی حیثیت اس کے مالکوں کی نہیں بلکہ اس کے پاسبانوں اور خدمت گزاروں کی ہے۔ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کو شرک و بدعت کے ہر شائبہ سے پاک و صاف رکھیں اور اللہ کے جو بندے حج و قربانی کے لئے وہاں پہنچیں ان کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کریں لیکن کسی حال میں بھی دنیا کے کسی خطہ کے کسی مسلمان کو وہ اس کی حاضری سے محروم نہیں کرسکتے الا آنکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ اللہ کے اس گھر کو ان مقاصد کے خلا استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے جن کے لئے حضرت ابراہیم نے اس کی تعمیر فرمائی ہے۔ مسجد حرام کی حفاظت تمام مسلمانوں کی مشترک ذمہ داری ہے حقوق کے ساتھ ساتھ اس گھر کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داریوں میں بھی تمام دنیا کے مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ جو لوگ اس کے پاسبان ہیں وہ اس کو ان چیزوں سے آلودہ کر رہے ہیں جن سے اللہ نے اس کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ہے تو تمام دنیا کے مسلمانوں کی یہ مشترک ذمہ داری ہے کہ وہ پاسبانوں کے ہاتھ پکڑیں۔ اس کے پاسبان یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ان کے گھر کا داخلی معاملہ ہے، دوسروں کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ اسی طرح اگر خدانخواستہ کوئی بیرونی طاقت اس پر حملہ کر دے تو اس کی حفاظت و مدافعت کے لئے تمام دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجائے گا۔ اس معاملے میں کسی قومی یا بین الاقوامی معاہدے اور مصلحت کا بھی کوئی لحاظ جائز نہیں ہوگا۔ اگر کسی ملک کی حکومت اس جہاد میں شرکت سے روکے تو ہرچند وہ نام نہاد مسلمانوں ہی کی حکومت ہو۔ اس کے خلاف بھی اہل ایمان پر فرض ہوگا کہ وہ جہاد کریں، اس لئے کہ جرم کی حفاظت و مدافعت کی ذمہ داری صرف اہل مکہ یا ان کی حکومت پر نہیں ہے بلکہ ہر کلمہ گو پر ہے، اس کو کسی صورت میں بھی پرایا جھگڑا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حرم کے حقوق اور ذمہ داریوں میں ہر مسلمان برابر کا شریک ہے حرم امت مسلمہ کا دل ہے۔ اس کی صلاح تمام امت کی صلاح اور اس کا فساد پوری ملت کا فسا ہے۔ سوآء العاکف فیہ والباد کے الفاظ سے یہ نتائج تو بدیہی طور پر نکلتے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے لیکن ہمارے فقہاء کی ایک جماعت نے اس سے یہ مسئلہ بھی استنباط کیا ہے کہ حدود حرم میں نہ کوئی گھپر کسی کی ذاتی ملکیت ہوسکتا اور نہ وہ کسی دوسرے سے کسی گھر کا کرایہ وصول کرسکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ استنباط ضعیف ہے۔ آیت کے الفاظ پر نگاہ ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ جعلنہ للناس سورة العاکف فیہ و الباد کے الفاظ مسجد حرام کی صفت کی حیثیت سے وارد ہوئے ہیں۔ پوے مکہ یا تمام حدود حرم کی صفت کے طور پر نہیں آئے ہیں۔ اس وجہ سے میں اس مسئلہ میں شوافع کے مسلک کو ترجیح دیتا ہوں جو اس پابندی کے حق میں نہیں ہیں۔ ومن یردفیہ بالحاد بظلونذقہ من عذاب الیم یود کے بعد ب کا صلہ اس کا قرینہ ہے کہ یہاں یہ لفظ ھم کے مفہوم پر متضمن ہے۔ اس اسلوب کی وضاحت دوسرے مقامات میں چکی ہے۔ الحاد کے معنی انحراف کجی اور بےدینی کے ہیں۔ بظلم، بظلم بالحاد سے بدل واقع ہے اور لفظ شرک کے مفہوم کے لئے قرآن مجید میں معروف ہے۔ آیت کا مدعا یہ ہے کہ یہ گھر وہ گھر ہے کہ اس میں اگر کوئی کسی بےدینی کا اور وہ بھی شرک جیسی بےدینی کرے گا تو ہم اس کو ایک عذاب درد ناک کا مزا چکھائیں گے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ ارادہ اور میں تھوڑا سا فرق ہے ارادہ تو سوچ سمجھ کر ظہور میں آتا ہے لیکن ھم جیسا کہ بھموابمالم بنالوا (توبہ :74) ولقد ھمت بہ وھم بھا (یوسف 24) وغیرہ آیات میں وارد ہے کسی وقتی میلان نفس سے بھی ظہور میں آجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس گھر کے شرائط و آداب بہت سخت ہیں۔ یہاں ان غلط چیزوں پر بھی گرفت ہے جو وقتی میلانات نفس سے ظہور میں آجاتی ہیں۔ ع ہشدار کہ رہ بردم تیغ است قدم را الحاد کے بعد ظلم کا اضافہ کر کے یہ حقیقت واضح فرما دی کہ جب یہاں معمولی کجروی بھی قابل گرفت ہے تو اس شرک عظیم کے لئے یہاں کس طرح گنجائش نکل سکتی ہے جس کا ایک وسیع کاروبار یہاں قریش نے پھیلا رکھا ہے !
Top