Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنا لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارے گئے عَلَيْنَا : ہم پر الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ نَرٰي : یا ہم دیکھ لیتے رَبَّنَا : اپنا رب لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا : تحقیق انہوں نے بڑا کیا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں وَعَتَوْ : اور انہوں نے سرکشی کی عُتُوًّا كَبِيْرًا : بڑی سرکشی
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کیے گئے یا ہم اپنی آنکھ سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں ؟ یہ اپنے خیال میں بڑائی رکھتے ہیں اور (اسی بنا پر) بڑے سرکش ہو رہے ہیں
(وقال الذین لا یرجون۔۔۔۔۔۔۔ ) وقال الذین لا یرجون لقاء ناوہ ارادہ کرتا ہے وہ دوبارہ اٹھائے جانے اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے نہیں ڈرتے یعنی وہ اس چیز پر ایمان نہیں رکھتے، شاعر نے کہا : اذا لسغتہ النحل لم یرج السعھا جب شہد کی مکھیاں اس کو ڈنگ ماریں تو اس کے ڈنگ کا خوف نہیں کرتا۔ اس قول یہ کیا گیا ہے : لا یرجعون کا معنی ہے وہ پرواہ نہیں کرتے شاعر نے کہا : لعمرک ما ارجو اذا کنت مسلما علی ای جنب کان فی اللہ مصرعی تیری زندگی کی قسم ! جب میں مسلمان ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر میری موت کس پہلو پر واقع ہوتی ہے۔ ابن شجرہ نے کہا : وہ امید نہیں رکھتے، شاعر نے کہا : اترجو امۃ قتلت حسینا شفاعۃ جدہ یوم الحساب کیا وہ لوگ جنہوں نے امام عالی مقام کو شہید کیا تھا وہ قیامت کے روز آپ کے نانا کی شفاعت کی امید رکھتے ہیں ؟ لولا انزل کیوں نہ نازل کیے گئے علینا الملیکۃ ہم پر فرشتے جو خبر دیتے کہ حضرت محمد ﷺ سچے ہیں۔ اونری ربنا یا اپنے رب کو عیاں دیکھتے جو ہمیں آپ ﷺ کی رسالت کی خبر دیتا۔ اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا۔ اَوْ تَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْہٰرَ خِلٰـلَہَا تَفْجِیْرًا۔ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِ اللہ ِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیْلًا۔ “ (الاسرائ : 90۔ 92) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا کَبِیْرًا۔ “ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی بات کا سوال کیا جو حقیقت سے بہت بعید تھی، کیونکہ فرشتوں کو نہیں دیکھا جا سکتا مگر موت کے وقت اور نزول عذاب کے وقت۔ اللہ تعالیٰ کا احاطہ آنکھیں نہیں کرسکتیں اللہ تعالیٰ کی ذات آنکھوں کا احاطہ کرسکتی ہے کوئی ایسی آنکھ نہیں جو اسے دیکھے۔ مقاتل نے کہا : عتوا سے مراد ہے زمین میں غلبہ۔ عتو شدید ترین کفر اور سخت ظلم ہے۔ جب معجزات انہیں کفایتس نہیں کرتے تو فرشتے انہیں کیسے کفایت کریں گے جب کہ وہ فرشتوں اور شیاطین کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ ان کے لیے ایک ایسے معجزہ کا ہونا ضروری ہے جو معجزہ وہ آدمی قائم کرے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ فرشتے ہے۔ اس قوم کو معجزہ کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں جنہوں نے معجزہ دیکھ لیا تھا۔ ” یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ لَابُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ “ اس سے یہ ارادہ کیا کہ فرشتوں کو کوئی نہیں دیکھتا مگر موت کے وقت ہی انہیں دیکھتا ہے وہ مومنوں کی جنت کی بشارت دیتے ہیں، مشرکوں اور کفار کو لوہے کے ہنٹر مارتے ہیں یہاں تک کہ انکی روحیں نکل آتی ہیں۔ ویقولون حجرا محجوراً یہ ارادہ کیا ہے کہ فرشتے کہتے ہیں : حرام کردیا گیا ہے کہ جنت میں کوئی داخل ہو مگر یہ کہ جولا الہ اللہ اللہ ہے، شرعی احکام کو بجا لائے، یہ قول حصرت ابن عباس ؓ اور دوسرے علماء نے کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ قیامت کا دن ہے : وہ مجاہد اور عطیہ عوفی کا قول ہے۔ عطیہ نے کہا : جب قیامت کا دن ہوگا تو مومن کو خوشخبری دیتے ہوئے ملاقات کی جائے گی۔ جب کافر یہ دیکھے گا تو اس کی تمنا کرے گا تو وہ فرشتے کو نہیں دیکھے گا۔ یوم یرون کو نصب تقدیر کلام کی وجہ سے دی گئی ہے وہ یہ ہے الا بشری یوم یرون الملائکۃ۔ یومئذ یہ یوم یرون کی تاکید ہے۔ نحاس نے کہا : یہ جائز نہیں ہے کہ یوم یرون، بشری کی وجہ سے منصوب ہو کیونکہ جو نفی کے حکم میں ہو وہ ما قبل میں عمل نہیں کرتا لیکن اس میں تقدیر یہ ہے کہ معنی ہو جس روز وہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو انہیں بشارت سے روک دیا جائے گا۔ یومیذ تاکید ہے، اس کا یہ معنی کرنا بھی جائز ہے کہ اس دن کو یاد کرو جس روز وہ فرشتوں کو دیکھیں گے۔ پھر ابتداء کی اور ارشاد فرمایا :” لَابُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا۔ “ فرشتے کہیں گے : قطعی حرام ہے یعنی بشارت صرف مومنوں کے لیے ہے، شاعر نے کہا : الا اصحبت اسماء حجرا محرما یہاں یہ ارادہ کیا ہے، خبر دار اسماء قطعی حرام ہوگئی۔ ایک اور شاعر نے کہا : حنت الی النخلۃ القصوی فقلت لھا حجر حرام الا تلک الا ھاریس اس میں یہ لفظ اسی معنی میں ہے۔ حضرت حسن بصری سے مروی ہے فرمایا : ویقولون حجرا یہ مجرموں کے قول سے ہے اور اس پر وقف ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : محجورا یعنی انہیں پناہ دیئے جانے سے روک دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز اسے ان پر روک دیا، پہلا قول حضرت ابن عباس ؓ کا ہے، فراء نے بھی یہی کہا ہے، یہ ابن انباری نے کہا۔ حضرت حسن بصری اور رجاء نے حجرا پڑھا ہے جس کہ دوسرے علماء نے اسے کسرہ کے ساتھ حجرا پڑھا ہے۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے : یہ کفار کے قول میں سے ہے انہوں نے یہ قول اپنی ذاتوں سے کیا، یہ قتادہ نے کہا، جو ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ کفار کا قول ہے جو انہوں نے ملائکہ سے کیا۔ یہ پناہ مانگنے کے لیے لفظ استعمال ہوتا ہے یہ دور جاہلیت میں معروف تھا، جب کوئی آدمی کسی ایسے آدمی سے ملتا جس سے وہ خوف محسوس کرتا تو کہتا ” حجراً محجورا “ یعنی مجھ سے تعرض کرنا تیرے لیے حرام ہے۔ اس کو نصب اس جملہ کے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے دی گئی ہے ” حجرت علیک، حجر اللہ علیک “ جس طرح تو کہتا ہے : یعنی مجرم جب فرشتوں کو دیکھیں گے کہ وہ مجرموں کو جہنم میں پھینکتے ہیں تو وہ کہیں گے : نعوذ باللہ منکم ہم تم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ! قشیری نے اس کا ذکر کیا، مہدوی نے مجاہد سے یہی معنی نقل کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حجراً مجرموں کا قول ہے محجورا یہ علامہ کا قول ہے یعنی وہ فرشتوں سے کہیں گے : ہم تم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں تم ہم سے چھیڑ چھاڑ کرو۔ فرشتے کہیں گے : محجوراً تم کو اس امر سے روک دیا گیا ہے کہ تم اس دن کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہو، یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ وقدمنا الی ما عملوا من عمد یہ تو قیامت کے عظیم الشان ہونے پر تنبیہ ہے یعنی ہم نے اس دن قصد کیا ان اعمال کی طرف جنہیں مجرم اپنے طور پر اچھے عمل کے طور پر کرتے رہے، یہ جملہ بولا جاتا ہے قدم فلان لی مرکذا یعنی اس کا قصد کیا۔ مجاہد نے کہا : قدمنا یعنی ہم نے قصد کیا، راجز نے کہا : وقد الخوارح الضلال الی عباد ربھم فقالوا ان دماء کم لنا حلال گمراہ خارجیوں نے اپنے رب کے بندوں کا قصد کیا اور کہا : تمہارے خون ہمارے لیے حلال ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد فرشتوں کا آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فعل کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے کیونکہ فرشتوں کا آنا بھی اس کا حکم سے ہوتا ہے۔ فجعلنہ صبا منثوراً اس سے نفع حاصل نہیں کیا جاسکتا یعنی ہم نے کفر کے ساتھ اسے باطل کردیا۔ ھبا ہمزہ والے حروف میں سے نہیں، اجتماع ساکنین کی وجہ سے ہمزہ آیا ہے، اس کی تصغیر ھبی ہے، یہ رفع کے محل میں ہے نحویوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں ھبی یہ رفع کے محل میں ہے : نحاس نے اسے بیان کیا ہے۔ اس کی واحد ھباۃ ہے جمع اھباء آتی ہے۔ حارث بن حلزہ اونٹنی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے : فتری خلفھا من الرجع والو قع منینا کا نہ اھباء تو اس اونٹنی کے ٹانگوں کے واپس آنے اور پائوں کے پڑنے پر باریک غبار دیکھے گا گویا وہ ہباء ہے۔ حارث نے حضرت علی ؓ شیر خدا سے روایت نقل کی ہے کہ ھبا منثورا سے مراد سورج کی وہ شعاع ہے جو کسی سوراخ سے داخل ہوتی ہے۔ ازہری نے کہا : ھبا سے مراد وہ چیز ہے جو سورج کی روشنی میں اس سوراخ سے نکلتی ہے جو غبار کے مشابہ ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو برباد کردیا یہاں تک کہ وہ ھباء منثورا کے قائم مقام ہوگئے جہاں تک ھباء المنبث کا تعلق ہے اس سے مراد وہ غبار ہے جسے گھوڑے اپنے سموں کے ساتھ اڑاتے ہیں، منبث کا معنی بکھرا ہوا ہے۔ ابن عرفہ نے کہا : ھبرۃ اور ھباء سے مراد باریک مٹی ہے۔ جوہری نے کہا : جب وہ بلند ہو تو کہا جاتا ہے : ھبا، یھبوھبوا واھبیتہ انا، ھبوۃ کا معنی غبار ہے۔ موضوع ھابی التراب ایسی جگہ گویا اس کی مٹی باریکی میں ھباء کی طرح ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ہے خشک پتوں میں سے جسے ہوائیں بکھیر دیتی ہیں : یہ قتادہ اور حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بھی کہا : اس سے مراد بہایا گیا پانی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد راکھ ہے : یہ عبید بن یعلی کا قول ہے۔ ” اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا۔ “ اس کے بارے میں گفتگو ” قل اذلک خیرامر جنۃ الخلد التی وعد المتقون “ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ نحاس نے کہا : کوفہ کے علماء اس قول کو جائز سمجھتے ہیں۔ العسل احلی من الخل یہ قول مردود ہے کیونکہ فلاں خیر من فلان کا معنی ہے فلاں فلاں سے خیر میں زیادہ ہے جب کہ سرکہ میں تو کوئی مٹھاس نہیں ہوتی۔ یہ کہنا جائز نہیں النصرانی خیر من الیھودی کیونکہ دونوں میں کوئی خیر نہیں کہ ان دونوں میں سے ایک خیر میں دوسرے سے بڑھ کر ہو، لیکن یہ کہنا درست ہوگا الیھودی شر من النصرانی، اس کو معنی میں عربوں کا کلام ہے۔ مستقرا اس کو ظرف کی حیثیت سے نصب دی گئی ہے جب اسے افعل منک سے مقدر نہ مانا جائے۔ معنی ہوگا اس کے لیے مستقر میں خیر ہے جب یہ افعل منک کے باب سے ہو تو مستقرا بیان کے طریقہ پر منصوب ہوگا، یہ نحاس اور مہدوی کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : ” واحسن مقیلا “ بہترین منزل اور بہترین ٹھکانہ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ہی مقیل ہے، عرب جسے جانتے پہچانتے ہیں وہ نصف النہار کا قیلولہ ہے۔ اسی معنی میں مرفوع حدیث ہے : ” ان اللہ تبارک و تعالیٰ یفرغ من حساب الخلق فی مقدار نصف یوم فیقیل اھل الجنۃ فی الجنۃ واھل النار فی النار “ (1 ؎ تفسیر طبری) اللہ تعالیٰ نصف دن کی مقدار میں مخلوقات کے حساب سے فارغ ہوجائے گا تو اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں قیلولہ کریں گے، مہدوی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا : قیامت کے روز دنیا کا نصف النہار نہیں ہوگا یہاں تک کہ یہ جنت میں اور یہ جہنم میں قیلولہ کریں گے۔ پھر یہ پڑھا : ثم ان مقیلھم لا لی الجیم۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت میں یہ اسی طرح ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس معنی میں وہ روایت ہے قیلوا فان الشیاطین لا تقیل، تم قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔ قاسم بن اصبغ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ “ میں نے عرض کی : یہ دن کتنا ہی طویل ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! یہ مومن پر خفیف ہوگا یہاں تک دنیا میں وہ جتنے وقت میں فرض نماز پڑھتا تھا اس سے بھی خفیف ہوگا “۔ ” ویوم تشقق السماء بالغمام “ اس دن کو یاد کرو جب آسمان بادلوں کی صورت میں پھٹ جائے گا۔ عاصم، اعمش، یحییٰ ، حمزہ، کسائی اور ابو عمرو نے تشقق شین کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اصل میں تششقق تھا پہلی تاء کو تخفیف کے طریقہ پر حذف کردیا : ابو عبیدہ نے اسے پسند کیا ہے۔ باقی قراء نے تشقق شین کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، ابو حاتم نے اسے پسند کیا ہے۔ سورة ق میں بھی اسی طرح ہے۔ بالغمام سے مراد عن الغمام ہے۔ باء اور عن ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں جس طرح تو کہتا ہے : رمیت بالقوس، رمیت عن القوس۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ آسمان سفید پتلے بادلوں کی صورت میں پھٹ جائے گا جس طرح کہر ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کے لیے تیہ کے ریگستان میں ایسا ہی ہوا، آسمان اس بادل کی صورت میں پھٹ جائے گا اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :” ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلآَّ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللہ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ “ ( البقرہ : 210) ونزل الملئکۃ آسمان سے فرشتے نازل کیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فیصلہ کے لیے آٹھ فرشتوں کے جلو میں جلوہ گر ہوگا جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اس طریقہ پر جس پر اس کے آنے کے محمول کیا جاسکتا ہے، نہ اس طریقہ پر جس پر مخلوقات کے آنے کا محمول کیا جاتا ہے جس میں حرکت اور انتقال کی صورت ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : آسمان دنیا پھٹے گا تو اسکے مکیں اتریں گے زمین میں جتن جن و انس ہیں وہ فرشتے ان سے زیادہ ہوں گے پھر دوسرا آسمان پھٹے گا تو اس کے مکین اتریں گے وہ اس سے زیادہ ہوں گے جتنے آسمان دنیا میں تھے۔ پھر اس طرح ساتواں آسمان پھٹے گا، پھر مقرب فرشتے اتریں گے اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے اتریں گے، اللہ تعالیٰ کے فرمان : ونزل الملئکۃ تنزیلا کا یہی معنی ہے یعنی جن و انس کے حساب کے لیے آسمان سے زمین کی طرف فرشتے اتریں گے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آسمان پھٹ جائے گا اس بادل کی صورت میں جو لوگوں اور آسمان کے درمیان میں ہے تو بادل پھٹ جائے سے آسمان کے پھٹ جائے گا۔ جب آسمان پھٹ جائے گا تو اس کا اتصال ختم ہوجائے گا، اسے لپیٹ دیا جائے گا اور فرشتے اس کے علاوہ مکان کی طرف اتریں گے۔ ابن کثیر نے وتنزل الملائکۃ نصب کے ساتھ پڑھا ہے باقی قراء نے نزل الملائکۃ رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس کی دلیل تنزیلا ہے اگر پہلے قول کے مطابق ہونا تو انزال کہتا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے نزل اور انزل کا معنی ایک ہی ہے۔ تنزیلا، نزل کی بناء پر آیا ہے۔ عبد الوہاب نے ابو عمرو سے قرأت نقل کی ہے و نزل الملئکۃ تنزیلا حضرت ابن مسعود نے وانزل الملائکۃ حضرت ابی بن کعب نے ونزلت الملائکۃ قرأت کی ہے ان سے وتنزلت الملائکہ بھی مروی ہے۔ الملک یومئذ الحق للرحمن، الملک مبتداء ہے الحق اس کی صفت ہے للرحمن اس کی خبر ہے کیونکہ ایسی ملکیت جو زائل ہوجائے اور ختم ہوجائے وہ ملک نہیں، اس روز مالکوں کی ملکیتیں ختم ہوجائیں گی ان کے دعوے منقطع ہوجائیں گے۔ ہر بادشاہ کو بادشاہت اور حکومت زائل ہوجائے گی صرف حقیقی بادشاہت اللہ تعالیٰ رہ جائے گی۔ وکان یوما علی الکفرین عسیرا کافروں پر وہ دن بڑا سخت ہوگا، کیونکہ وہ ہولناکیوں پائیں گے اور انہیں حزن اور ذلت لاحق ہوگی۔ وہ دن مومنوں پر فرض نماز سے بھی خفیف ہوگا جس طرح حدیث میں پہلے گزر چکا ہے۔ یہ آت اس پر دال ہے کیونکہ کافروں پر جب مشکل ہے تو وہ مومنوں پر آسان ہوگا۔ اس کا باپ یوں ذکر کیا جاتا ہے۔ عسر یعسر عسر، یعسر۔
Top