Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 210
وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ
وَ : اور مَا تَنَزَّلَتْ : نہیں اترے بِهِ : اسے لے کر الشَّيٰطِيْنُ : شیطان (جمع)
اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوئے
ابطال کہانت وما تنزلت بہ الشیطین وما ینبغی لہم وما یستطیعون انہم عن السمع لمعزولون۔ گزشتہ آیات میں یہ بتلایا کہ یہ قرآن اللہ رب العالمین کا نازل فرمودہ ہے جس کو جبریل امین (علیہ السلام) لے کے آپ ﷺ کے قلب پر اترے ہیں۔ اب آگے ان لوگوں کے قول کا رد کرتے ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن جن اور شیاطین کا القا ہے۔ جیسے شیاطین کاہنوں پر القا کرتے ہیں یہ بھی اسی قسم کا کلام ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ اور اس قرآن کو شیاطین لے کر نہیں اترتے جو کاہنوں کے پاس آیا کرتے تھے۔ جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں بلکہ اس قرآن کو تو جبریل امین (علیہ السلام) خدا تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے ہیں اور نہ شیاطین کے لئے یہ سزاوار ہے کہ وہ ایسی کتاب ہدایت کو لے کر آئیں یہ کتاب تو سرچشمہ ہدایت ہے اور شیاطین سرچشمہ ضلالت وشقاوت ہیں وہ اس کو کس طرح اتار سکتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اس پر قادر بھی نہیں کیونکہ تحقیق وہ فرشتوں کے کلام سننے سے دور رکھے گئے ہیں۔ ملا اعلیٰ اور حظیرۃ القدس تک ان کی رسال نہیں تو پھر وہ قرآن کو کس طرح سن سکتے ہیں۔ ترمذی میں ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ پہلے جنات آسمان پر جایا کرتے تھے اور وہاں سے کوئی بات سن کر آتے تھے تو ساحروں اور کاہنوں پر اترتے اور ان کو القا کرتے وہ اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے جب آنحضرت ﷺ نبی بنائے گئے اور آپ ﷺ پر نزول قرآن شروع ہوا تو آسمانوں پر پہرے لگا دئیے گئے کہ شیاطین وہاں جا کر کوئی حرف نہ سن سکیں اگر وہاں جاتے ہیں تو ان پر شعلے برسائے جاتے ہیں۔ کما قال تعالیٰ وانا لمسنا السماء فوجدناھا ملئت حرسا شدیدا وشھبا وانا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد لہ شھابا رصدا وقال تعالیٰ فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصلا۔ ان غیبی پہروں کے ہوتے ہوئے شیاطین کا وہاں گزر نہیں تو پھر وہ کیسے کوئی حرف اچک سکتے ہیں۔ یہ قرآن القاء رحمانی ہے نہ کہ القا شیطانی۔ اس لئے کہ جس بارگاہ سے یہ قرآن نازل ہو رہا ہے شیاطین وہاں تک پہنچنے سے محروم ہیں۔ دوم یہ کہ القاء شیطانی نفوس خبیثہ پر ہوتا ہے نہ کہ نفوس قدسیہ پر۔ غرض یہ کہ قرآن کریم نہ سحر ہے اور نہ کہانت ہے شیاطین کے القا سے بالکلیہ محفوظ ہے۔ سوائے نبی حسب ہدایت قرآن تم توحید کی دعوت میں لگے رہو اور خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو مبادا کہ تو عذاب پانے والوں میں سے ہوجائے آیت میں خطاب اگرچہ نبی کو ہے مگر مراد دوسرے لوگ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بفرض محال اگر نبی بھی شرک کرنے لگے تو اس پر بھی عذاب آئے تو دوسروں کی کیا حقیقت ہے اور اے نبی آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہمارے عذاب سے ڈرائیے۔ چناچہ آپ نے اپنے خویش و اقارب کو جمع کر کے عذاب الٰہی سے ڈرایا اور پوری طرح حکم خداوندی کی تعمیل کی اس آیت میں کفار اور مشرکین کو عذاب الٰہی سے ڈرانے کا حکم دیا۔ اب آئندہ آیت میں اہل ایمان کی مدارات اور ان کے ساتھ تواضع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اے نبی آپ اپنے بازو کو ان مسلمانوں کے لئے پست کر دیجئے جو آپ کے پیرو بن چکے ہیں۔ اور آپ کے نقش قدم پر آپ کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں پس اگر آپ ﷺ کی قوم والے آپ کی نافرمانی کریں اور آپ کی دعوت کو قبول نہ کریں اور آپ پر ایمان نہ لائیں تو آپ کہدیجئے کہ میں بری اور بیزار ہوں اس کام سے جو تم کر رہے ہو اور ان کی طرف سے ایذا اور ضرر کا خطرہ دل میں نہ لائیے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھیئے جو غالب اور مہربان ہے اور آپ کا نگہبان ہے جو آپ کو دیکھتا ہے جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور تہجد کے لئے اٹھتے ہیں اور نیز دیکھتا ہے وہ آپ کی نشست وبرخاست کو سجدہ کرنے والوں میں یعنی جب آپ جماعت میں رکوع و سجود کرتے ہیں اللہ اس سے بھی واقف ہے اس سے جماعت کی فضیلت نکلتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ ارکان نماز میں سجدہ ایک خاص شان رکھتا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خاص طور پر دیکھتا ہے جب آپ تنہا نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور جب آپ جماعت میں ہوتے ہیں تب بھی آپ کو دیکھتا ہے اور نماز کے علاوہ اور حالات میں بھی آپ کو دیکھتا ہے غرض یہ کہ ہر حال میں آپ پر اس کی نظر نظر عنایت ہے۔ بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے کوئی حالت اس کے علم محیط سے خارج نہیں۔ اور بعض سلف یہ کہتے ہیں کہ ساجدین سے حضور پر نور ﷺ کے آباؤ اجداد مراد ہیں اور یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہ السلام) سے لے کر حضور ﷺ کے والدین تک آپ کی روح پاک کو ایک ساجد اور موجد سے دوسرے ساجد اور موحد اور موحد کی طرف منتقل فرمایا اور آپ کے سلسلہ نسب میں کوئی مشرک نہ تھا اس پر یہ اعتراض وارد ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد آزر تو بنص قرآنی مشرک تھے بعض نے اس کا یہ جواب دیا کہ آزر ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نہ تھے بلکہ چچا تھے اور مجازا چچا پر بھی باپ کا اطلاق کردیا جاتا ہے اور بعض نے یہ کہا کہ آزر کے شرک کرنے سے پہلے نور نبوت منتقل ہوچکا تھا۔ تتمہ ابطال کہانت گزشتہ آیات میں یہ بتلایا تھا کہ یہ قرآن کہانت نہیں اور آنحضرت ﷺ کاہن نہیں اب آئندہ آیت میں اسی کا تتمہ ہے کہ یہ قرآن وحی الٰہی ہے اس میں شیاطین کا کوئی دخل نہیں۔ اے نبی آپ ﷺ ان لوگوں سے واضح کہہ دیجئے کہ کیا میں تم کو خبر دوں کہ کس قسم کے شخص پر شیاطین نازل ہوتے ہیں تاکہ تم پر وحی ربانی اور وحی شیطانی کا فرق واضح ہوجائے۔ سو سن لو شیاطین ہر جھوٹے فریبی بدکار پر اترتے ہیں جیسے مسیلمہ کذاب اور دیگر کاہن اس قسم کے جھوٹے اور مکار لوگوں پر شیاطین اترتے ہیں اور یہ شیاطین فرشتوں سے کوئی سنی ہوئی بات ان کاہنوں پر لا کر القا کرتے ہیں اور ان کاہنوں میں کے اکثر لوگ جھوٹے ہوتے ہیں۔ کفار یہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ پر شیطان آتا ہے اور وہی ان کو یہ قرآن تعلیم کرجاتا ہے اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ شیاطین تو جھوٹے بدکاروں پر آتے ہیں اور چوری چھپے جو کوئی ایک آدھی بات فرشتوں سے سن بھاگتے ہیں وہ ان کاہنوں پر القا دیتے ہیں پھر وہ بدکار کاہن اس میں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر اس کو مشہور کردیتے ہیں۔ راست بازوں اور حق پرستوں کے پاس شیاطین کا کیا کام۔ ان کے تو سایہ سے بھی وہ بھاگتے ہیں اور ہمارے نبی تو صد ق مجسم ہیں ان کی زبان سے تو کوئی جھوٹ حرف نکل ہی نہیں سکتا پس معلوم ہوا کہ یہ قرآن شیاطین کا کلام نہیں۔ خدا کا کلام ہے۔ اور بعض علما یہ کہتے ہیں یلقون کی ضمیر افاکین کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ جھوٹے اور بدکار لوگ ہمہ تن شیاطین کی طرف کان لگائے رکھتے ہیں جو کچھ ان سے مل جاتا ہے اس میں سو جھوٹ ملا کر آگے چلتا کرتے ہیں اور برخلاف حضور پر نور ﷺ کے کہ آپ نے جو پیش گوئیاں کی ہیں اور آئندہ کی خبریں دی ہیں وہ حرف بحرف صحیح نکلیں ان میں ذرہ برابر جھوٹ کی ملاوٹ نہیں۔
Top