Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ
: فرمادیں
يٰعِبَادِيَ
: اے میرے بندو
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
اَسْرَفُوْا
: زیادتی کی
عَلٰٓي
: پر
اَنْفُسِهِمْ
: اپنی جانیں
لَا تَقْنَطُوْا
: مایوس نہ ہو تم
مِنْ
: سے
رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ
: اللہ کی رحمت
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يَغْفِرُ
: بخش دیتا ہے
الذُّنُوْبَ
: گناہ (جمع)
جَمِيْعًا ۭ
: سب
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہی
الْغَفُوْرُ
: بخشنے والا
الرَّحِيْمُ
: مہربان
(اے پیغمبر ﷺ میری طرف سے لوگوں سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
بیان ترتب عفو ونجات بر قبول اسلام۔ وہلاکت و حسرت برائے مجرمان رب انام :۔ قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” قل یعبادی الذین اسرفوا ....... الی ....... اولئک ھم الخسرون “۔ (ربط) اس سے قبل چند آیات میں مشرکین کی مذمت اور ان کے دل آزار طریقوں کا بیان تھا اور ساتھ ہی نہایت مؤثر انداز میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی تھی، اس سلسلہ میں شرک وکفر کی گندگی اور مذمت کو سنتے ہوئے ممکن تھا کہ کسی کے دل میں قبول اسلام کی رغبت پیدا ہوتی اور ساتھ ہی یہ تصور بھی گذرسکتا تھا کہ جب انسان اس قدر ذلت اور گندگیوں میں آلودہ ہوچکا ایسی دنائت اور کمینہ پن کرچکا تو اب اس کو اپنی نجات اور عذاب خداوندی سے بچنے کی کیا توقع ہوسکتی ہے تو اس طرح مایوسی کا تصور پیدا ہونا ایک طبعی سا امر تھا تو اس کو دلوں سے نکالنے کے لیے یہ آیات نازل کی گئیں جن میں ہر اس شخص کو اللہ کی رحمت ومغفرت کی بشارت دی گئی جو باطل سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف اپنا رخ کرلے، جیسے کہ عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث میں ہے کہ اہل مکہ یہ کہنے لگے کہ محمد ﷺ یہ کہتے ہیں جس شخص نے بت پرستی کی اور خدا کے ساتھ کسی اور معبود بنایا کسی کو قتل کیا تو اس کی کبھی مغفرت نہ ہوگی تو ہم کیسے ہجرت کریں، اور کس طرح اسلام لائیں حالانکہ ہم نے تو بتوں کو پوجا ہے اور خدا کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کیا اور قتل بھی کیا تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں بعض سندوں سے یہ مضمون اس طرح منقول ہے، کچھ لوگ اہل شرک میں سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے جو اسلام کی رغبت رکھتے تھے، اور جاہلیت کے زمانہ میں انہوں نے شرک بھی کیا تھا، قتل کے بھی مرتکب ہوئے تھے اور زنا بھی وچوری بھی خوب کی تھی تو انہوں نے یہ عرض کیا یا رسول اللہ، آپ جس چیز کی دعوت دے رہے ہیں وہ نہایت ہی بہترین چیز ہے اب ہم اسلام تو لانا چاہتے ہی، لیکن یہ سب کچھ ہم نے کیا ہے اور ان چیزوں کے باعث ہم ڈرتے ہیں تو کیا اسلام لانے پر ہماری نجات ہوجائے گی اس پر یہ آیات نازل ہوئیں، ارشاد فرمایا (آیت ) ” قل یعبادی الذی اسرفوا “۔ کہہ دیجئے آپ میرے ان بندوں سے جنہوں نے کفر وشرک اور قتل وزنا جیسے کام کرکے اپنے اوپر زیادتی کی ہے کہ تم اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہوؤ اور اس خیال سے کہ یہ گناہ کیسے معاف ہوں گے، ایمان لانے میں ہرگز تامل وتردد نہ کرو بیشک اللہ رب العزت اسلام لانے کی وجہ سے تمام گناہوں کی مغفرت فرما دے گا، اگرچہ وہ سابق زندگی کا گناہ کفر اور شرک ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اسلام لانے سے تو کفر ایمان وطاعت کی صورت میں تبدیل ہوگیا اور اس نے شرک کی گندگی سے پاکی حاصل کرکے توحید کو اختیاری کرلیا ہے، واقعی وہ بڑا ہی مغفرت کرنے والا مہربان پروردگار ہے، اس کی رحمت ومغفرت میں کمی نہیں، بس صرف شرط اتنی ہے کہ بندہ اس کی طرف رجوع کرلے، اس لیے اے انسانو ! خواہ اب تک تم نے کچھ ہی کرلیا ہو مگر اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہوجاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب خداوندی آجائے پھر تو تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی، کیونکہ عذاب خداوندی کو ٹلانا اور اس کو دفع کرنا خدا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ خدا کے ساتھ مقابلہ کرنے کی تمام کائنات کو بھی طاقت نہیں اگر دنیا کی طاقت ہوا کے جھونکے روکنے سے عاجز ہے تو مجرمین پر برستا ہوا عذاب وقہر کس کی مجال ہے کہ روک لے جب عذاب خداوندی کی یہ نوعیت ہے کہ کسی کی کوئی مدد نہ ہوسکے گی تو اے لوگو، تم کو چاہئے کہ تم ان بہترین احکام کی پروری کرو جو تمہاری طرف اتارے گئے تمہارے رب کی طرف سے قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب خداوندی آجائے، اور حال یہ کہ تم کو اس کا احساس بھی نہ ہو کہ ناگہاں ایسے وقت عذاب آجائے گا اور نہ ہی یہ احساس و گمان ہو اور ایسا شدید عذاب ہوگا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو نہیں روک سکے گی لہذا تم کو چاہئے کہ ایسا وقت آنے سے پہلے احکام خداوندی کی پیروی کرنے لگو، کہیں ایسی نوبت نہ آجائے کوئی انسان یہ کہنے لگے ہائے حسرت وافسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے بارے میں کی کوتاہی اور غفلت تو کیا میں تو بیشک احکام خداوندی اور اس کے دین کا مذاق اڑانے والوں میں سے رہا یا اس سے پہلے ایمان لے آؤ کہ کوئی کہنے لگے کاش اگر اللہ مجھ کو ہدایت کرتا تو میں ایمان وتقوی والوں میں سے ہوجاتا لیکن یہ میرے اعمال اور احوال کی وجہ سے میری بدنصیبی تھی کہ میں اللہ کی توفیق وہدایت سے محروم رہا یا اس سے قبل اے لوگو ! ایمان لے آؤ کہ کوئی کہنے والا یہ کہنے لگے جس وقت کہ عذاب دیکھے اے کاش اگر میرے واسطے دنیا کی طرح کی طرف واپسی کا کوئی امکان ہوجائے تو پھر میں نیک بندوں میں ہوجاؤں، خبردار اے مخاطب منکر یہ باتیں ہرگز تجھے ذیب نہیں دیتیں نہ تو حق میں کوئی خفا اور شبہ تھا اور نہ تو احمق وغافل تھا کہ اس کے دور ہونے پر تو حق وہدایت قبول کرلیتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہاں بیشک تیرے پاس میری آیات احکام و دلائل کے ساتھ پہنچیں لیکن تو نے ان کو جھٹلایا اور تکبر کیا، اللہ رب العزت کے سامنے اطاعت وفرمانبرداری کے ساتھ سرجھکانے سے، اور یہ نہیں کہ یہ حالت کسی وقت رہی ہو اور پھر عقل وہوش آگیا ہو بلکہ تو تو کفر ہی کرنے والوں میں رہا۔ ہدایت تو اس وقت ممکن تھی جب کہ قبول حق کا کوئی ارادہ کرتا جب کہ ایسے مجرموں نے یہ ہی طے کیا ہوا تھا کہ اسلام کی مخالفت اور اللہ کی بغاوت ہی کرنی ہے تو پھر ظاہر ہے ان حسرتوں اور آرزوؤں سے کچھ کام نہ بنے گا اور اے ہمارے پیغمبر آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جنہوں نے خدا پر جھوٹ باندھا تھا کہ ان کے چہرے سیاہ ہوئے ہیں،۔ 1 حاشیہ (” سیاہ ہوئے ہیں “۔ یہ ترجمہ مسودہ کا کیا گیا، جس میں یہ اشارہ ہے کہ یہ چہرے جو دراصل خلقی طور پر ایسے سیاہ نہ تھے ان کو قیامت کے روز سیاہ کردیا جائے گا، جو زیادہ ڈراؤنے اور ہیبت ناک نظر آئیں گے بخلاف چہروں کی اس سیاہی کے جو پیدائشی طور پر دنیا میں بہت سے انسانوں کے ہوتی ہے جیسے سیاہ فام اقوام، تو ایسی سیاہی نہ عیب ہے اور نہ دیکھنے میں یہ چہرے ہیبت ناک اور ڈراؤنے نظر آتے ہیں جھوٹ خود ایک معنوی ظلمت ہے چہ جائیکہ اللہ کے بارے میں جھوٹ بولا جائے یا اس کی باتوں کو جھٹلایا جائے، تو ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کون سا درجہ ہوسکتا ہے معنوی ظلمت کا، اور قیامت کے روز اعمال واوصاف ظاہری حقائق کی صورت میں رونما ہوتے ہیں، اس وجہ سے اللہ کی باتوں کی تکذیب اور اس پر جھوٹ باندھنے کا یہ وبال ہوگا کہ چہرے سیاہ ہوں گے، ) تو کیا ایسے نافرمانوں اور متکبروں کے واسطے جہنم میں ٹھکانا نہ ہوگا، جنہوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کی نافرمانی کی اور اس کے احکام کا مذاق اڑایا اور اس کے فرمانبرداروں کی ذلت و اہانت کی، لیکن اس کے برعکس اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو کفر ونافرمانی سے بچتے تھے جہنم سے نجات دے گا، ان کی کامیابی کے ساتھ اس طرح کہ ان کو ذرہ برابر بھی نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہ غمگین ہوں گے، کیونکہ جنت تو نام ہی ہے عالم راحت اور نشاط و فرحت کا جہاں نہ کوئی غم ہوگا اور نہ کوئی پریشانی، بیشک اللہ ہی خالق ہے ہر چیز کا اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے، اسی کے قبضہ میں ہیں آسمان و زمین کی کنجیاں اس لیے جس کے واسطے وہ چاہے دنیا میں ہدایت و رحمت کے اور آخرت میں نجات ومغفرت کے دروازے کھول دے اور جس کے واسطے چاہے بند کردے، اس کے کھولے ہوئے درکو کوئی بند نہیں کرسکتا اور جو دروازہ وہ بند کردے اس کو کوئی کھول نہیں سکتا، اور جو لوگ اس کے باوجود بھی نہ سمجھیں اور اللہ کی آیتوں اور اس کے احکام کا انکار کرتے ہیں وہ بڑے ہی خسارہ میں ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آخرت کا خسارہ تو ظاہر ہے کہ عذاب جہنم میں مبتلا ہوں گے اور وہ عذاب دنیا کی کسی تکلیف کی طرح نہ ہوگا کہ کچھ عرصہ بعد ختم ہوجائے یا کسی ذریعہ سے انسان اس سے چھٹکارا حاصل کرلے بلکہ وہ تو دائمی ہوگا، جس سے نہ نجات ہوگی اور نہ اس میں کوئی خفت وکمی ہوگی اور دنیا میں ان مجرمین کا خسارہ ذلت اور طرح طرح کے مصائب کی صورت میں ظاہر ہے چناچہ غزوۂ بدر سے ہی اللہ کے نافرمانوں کی ذلت وناکامی کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ دنیا کے انسانوں کو رحمت و عافیت اور نجات ومغفرت کی قرآنی دعوت : یہ آیات مبارکہ قرآن کریم میں سب سے بڑھ کر رحمت ومغفرت خداوندی کی امید دلوں میں قائم کرنیوالی آیات ہیں ان آیات میں پروردگار عالم نے تمام دنیا کے گناہگاروں، نافرمانوں حتی کہ شرک وکفر میں مبتلا ہونے والوں کو دعوت دی ہے کہ وہ نافرمانی وبغاوت سے تائب ہو کر سچے دل سے اگر اللہ کی طرف رجوع کرلیں تو خدا کی عنایات اور رحمتیں ان کی جانب یقیناً مبذول ہوں گی۔ ان کو اپنی سابق زندگی کی نافرمانی اور بداعمالیوں سے یہ تصور نہ کرنا چاہئے کہ ان کی معافی کا کوئی امکان نہیں رہا، نہیں ان کو اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونا چاہئے، جس حالت میں بھی خواہ کسی طرح کا عمل ہو جب بھی وہ اللہ کی طرف رجوع کریں گے رحمت خداوندی کا دروازہ کھلاپائیں گے ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کچھ لوگ مشرکین میں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنی سابق زندگی میں قتل بھی کیے تھے، خوب قتل کیے تھے اور زنا بھی کیا تھا اور بہت کیا تھا تو آنحضرت ﷺ سے کہنے لگے، اے محمد ﷺ جو کچھ آپ ﷺ کہتے ہیں اور جس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بیشک نہایت ہی بہتر ہے لیکن ہمیں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارے کیے ہوئے اعمال کا کوئی کفارہ ہوسکتا ہے تو ہم اسلام لانے کو تیار ہیں تو اس پر آیات (آیت ) ” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر “۔ اور یہ آیات (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا “۔ نازل ہوئیں۔ اور حق تعالیٰ نے نہایت واضح طور سے فرما دیا (آیت ) ” الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبۃ عن عبادہ “۔ کہ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرلیتا ہے اپنے بندوں کی، کہیں ارشاد فرمایا (آیت ) ” ومن یعمل سوٓء اویظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما “۔ کہ جو شخص بھی برا کام کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور پھر وہ اللہ سے معافی مانگے تو اللہ کو پائے گا کہ وہ بڑا ہی مغفرت کرنے والا مہربان ہے، کہیں منافقین کے حق میں خصوصیت سے فرمایا۔ (آیت ) ” ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار ولن تجد لھم نصیرا الا الذین تابوا واصلحوا “۔ کہ منافقین جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے اور اے مخاطب تو ان کے واسطے کوئی مددگار نہیں پائے گا، لیکن جو لوگ تائب ہوجائیں اور اپنے عمل کی اصلاح کرلیں تو بیشک وہ اس عذاب سے نجات پانے والے ہوں گے اہل کتاب میں سے نصاری کے شرک اور کفر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا۔ (آیت ) ” لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ “۔ ان کے اس شرک وکفر کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا (آیت ) ” افلا یتوبون الی اللہ ویستغفرونہ “۔ کہ یہ لوگ کیوں نہیں خدا کی طرف رجوع کرتے اور تائب ہوتے اور کیوں نہیں اس سے معافی مانگتے۔ الغرض ان آیات سے مجموعی طور پر یہ واضح ہوا کہ انسان کی بداعمالیاں ہوں یا کفر وشرک ہو یا نفاق کی گندگیوں میں مبتلا ہو، ان میں سے ہر ایک جس وقت بھی اپنے جرائم و گناہوں اور کفر وشرک یا نفاق سے تائب ہو کر مطیع وفرمانبردار بننا چاہے تو اس کو بارگاہ رحمت سے دھتکارا نہیں جائے گا، نزع روح سکرات موت نزول عذاب اور قیامت کے وقوع سے پہلے جب بھی وہ اللہ کی طرف رجوع کریگا تو (آیت ) ” یجد اللہ توابا رحیما “۔ اللہ کو بڑا ہی مہربان توبہ قبول کرنے والا پائے گا، حسن بصری (رح) (آیت ) ” ان الذین فتنوا ال مومنین وال مومن ات “۔ کی تفسیر میں فرمایا کرتے تھے دیکھو اس جود وکرم کی کیا انتہا ہے کہ جن لوگوں نے مومنین کو ستایا، اولیاء کو قتل کیا، انہیں کو رحمت ومغفرت کی طرف دعوت دی جارہی ہے گناہ کی زندگی سے تائب ہو کر تڑپ اور بیقراری کے ساتھ دررحمت کی طرف دوڑنے والے کو رحمت خداوندی کس طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ؟ اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوسکتا ہے جو ابوسعید خدری ؓ بیان فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ نے بنی اسرائیل میں سے کسی کو واقعہ بیان فرمایا کہ جو ننانوے آدمیوں کو قتل کرچکا تھا، بعد میں اس کو ان بداعمالیوں پر ندامت ہوئی اور اس نے کسی عابد وزاہد کا پتہ معلوم کرنا چاہا کہ جس کے ہاتھ پر جاکر تائب ہو اور اپنی زندگی درست کرلے، ایک راہب کا پتہ معلوم ہونے پر اس کے پاس پہنچا اور اس سے دریافت کیا کہ کیا میرے واسطے توبہ کا امکان ہے، اس نے جواب دیا نہیں۔ اس جواب پر غم وغصہ کی کیفیت میں اس راہب کو بھی قتل کرکے سو کا عدد پورا کردیا، لیکن بدستور وہی تڑپ برقرار رہی اور تلاش میں رہا کہ کسی کے ہاتھ پر بیعت کروں اور تائب ہوجاؤں کسی عالم سے پوچھا کہ کیا میرے واسطے توبہ کا امکان ہے اس نے جواب دیا کہ کون حائل ہوسکتا ہے، تیرے اور تیری توبہ کے درمیان، اور فلاں بستی میں ایک عالم وعابد ہے، تو اس کے پاس جا۔ اور اس بستی میں رہ کر خدا کی عبادت کرتا رہ، یہ شخص روانہ ہوا، سفر کے دوران موت کے آثار واقع ہوئے تو رحمت اور عذاب کے فرشتے آگئے اور باہم خصومت کرنے لگے عذاب کے فرشتے کہتے ہیں ہم اس کی روح قبض کریں گے اور رحمت کے فرشتے کہنے لگے کہ نہیں ہم اس کی روح قبض کرکے رحمت کے مقام میں لے جائیں گے حق تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ زمین ناپ لو جس جگہ سے قریب ہو اسی حکم میں اس کو شمار کرلو۔ ساتھ ہی اللہ نے اس طرف کی زمین کو جہاں یہ جارہا تھا حکم دیا کہ تو نزدیک ہوجا، پیمائش کرنے پر توبہ کی زمین قریب نکلی، اس پر رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح قبض کی، اور ایک روایت میں یہ لفظ ہے کہ جس وقت وہ زمین پر گر رہا تھا اس نے اپنا سینہ اور رخ اسی طرف جھکا دیا جس طرح وہ جارہا تھا تو ایک بالشت کے بقدر ادھر زمین کم رہ گئی ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ کا حکم ہوا سرزمین معصیت کو کہ تو بعید ہوجا اور توبہ کی زمین کو حکم ہوا تو قریب ہوجا، اور اس طرح ملائکہ رحمت کو قبض روح کا حق عنایت کردیا گیا۔ گویا قانون الہی سے اس شخص کو نافرمانیوں اور معصیتوں سے تائب اور پاک شمار کرلیا گیا کیونکہ جس تڑپ اور جذبہ کے ساتھ یہ اپنی جگہ سے نکلا اور ارض معصیت کو نفرت سے چھوڑتے ہوئے ارض اطاعت کا رخ اختیار کرلیا تو درحقیقت یہ اس ارشاد خداوندی کا مصداق بن گیا (آیت ) ” ومن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ ورسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ “۔ اور اللہ کے نزدیک اس کا شمار تائبین ومطیعین میں ہوگیا اور تائب انسان بفرمان نبوی اس معصوم بچہ کی طرح ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ انابت الی اللہ کا مفہوم : انابت اور رجوع الی اللہ کی حقیقت نافرمانی اور معصیت سے بیزار ومتنفر ہو کر اللہ رب العزت کی اطاعت و بندگی کی طرف رخ کرلینا ہے، اس طرح سے کہ گزشتہ کیے ہوئے اعمال پر ندامت وشرمساری ہو اور بار گاہ خداوندی سے عفو کا طالب ہوتے ہوئے یہ عہد کرے کہ آئندہ ان برائیوں سے پرہیزکروں گا۔ حدیث سید الاستغفار کے الفاظ یہ ہیں۔ اللہم انت ربی لا الہ الا انت خلقتنی وانا عبدک وانا علی عھدک ووعدک مااستطعت اعوذبک من شر ما صنعت ابوء لک بنعمتک علی وابواء بذنبی فاغفرلی فانہ لا یغفرالذنوب الا انت ان کلمات سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ توبہ و استغفار کی مجموعی حقیقت یہ ہے کہ بندہ حق تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت وخالقیت کا اعتقاد کامل رکھتے ہوئے اپنی بندگی کا اقرار کرے، اور خدا سے کیے ہوئے عہد و پیمان کی تکمیل کا اپنی عملی حد استطاعت تک عزم رکھے، ساتھ ہی اپنی کی ہوئی برائیوں کا تصور ہو اور اس بات کا احساس ہو کہ خدا کے انعامات کس قدر ہیں اور ان انعامات کے بالمقابل میری تقصیرات کتنی ہیں، ظاہر ہے کہ اس احساس کا نتیجہ ندامت و شرمندگی کی صورت میں ظاہر ہوگا اور اس طرح کے اعتقاد وعزم اور احساس ندامت کے ساتھ معافی کی طلب اور اس بات کا عہد کہ آئندہ اس طرح کی معصیت کا مرتکب نہ ہوں گا۔ تو ان تمام احوال و کیفیات کا مجموعہ درحقیقت اللہ کی طرف انابت ورجوع ہے تو ایسے رجوع الی اللہ پر بشارت سنائی جارہی ہے رحمت ومغفرت کی اور اسی کے ساتھ مایوسی کا تصور قلب و دماغ سے نکال دینے کا بھی امر فرمایا جارہا ہے۔ رحمت خداوندی سے ماویوسی جرم عظیم ہے : دعوت رحمت اور بشارت مغفرت کے ساتھ یہ بھی فرمایا جارہا ہے۔ (آیت ) ” لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “۔ کہ اللہ کی رحمت سے اے لوگو ! ہرگز مایوس نہ ہو اور رحمت خدا وندی سے مایوسی کو کفر کے درجہ میں شمار کیا گیا جیسے ارشاد ہے (آیت ) ” ان لایایئس من روح اللہ الا القوم الکافرون “۔ دوسری جگہ (آیت ) ” قال ومن یقنط من رحمۃ ربہ الا الضآلون “ (الحجر ) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے فرمایا اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ کی رحمت سے مایوس ہو تو درحقیقت ایسا شخص کتاب اللہ کا منکر ہے (ابن کثیر ج 4) عبداللہ بن مسعود ؓ فرمایا کرتے تھے۔ اعظم ترین آیت کتاب اللہ میں آیۃ الکرسی (آیت ) ” اللہ لاالہ الا ھو الحی القیوم “۔ ہے اور خیر وشر کے لیے جامع ترین آیت قرآن کریم میں (آیت ) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “۔ ہے اور سب سے زیادہ مسرت و خوشی کی (آیت ) ” یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “۔ ہے اور تفویض واعتماد علی اللہ کے باب میں سب سے زیادہ مضبوط وقوی (آیت ) ” ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب “۔ ہے۔ مقاتل بن حیان (رح) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتے تھے۔ ہم لوگ اصحاب رسول اللہ ﷺ (آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں) یہ سمجھا کرتے اور کہا کرتے تھے، ہم جو بھی نیکیاں کرتے ہیں وہ یقیناً قبول ہوتی ہیں یہاں تک کہ (آیت ) ” یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوالرسول ولا تبطلوآ اعمالکم (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہم نے سوچا کہ یہ کون سی چیز ہوسکتی ہے جو اعمال کو باطل کردے تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ کبائر و فواحش ہیں کہ ان کے ارتکاب سے انسان کی نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں تو اس پر ہم گھبرا گئے اور کہنے لگے یقیناً جو شخص بھی کسی گناہ کا ارتکاب کرلے وہ تباہ وبرباد ہوگا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے ان دونوں باتوں سے رجوع کیا، یعنی نہ ہم اس تخیل پر رہے کہ ہر نیکی ضرور قبول ہوگی اور نہ یہ عقیدہ رہا کہ گناہ کے ارتکاب کے بعد ہلاکت وتباہی کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں بلکہ اس کے برعکس ہم نے سمجھا کہ گناہوں کے ارتکاب کے بعد توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ سے بندہ اللہ کی مغفرت، عنایات اور رحمتوں کا مستحق ہوجاتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج 4) انابت کا مفہوم رجوع ہے اور (آیت ) ” وانیبوٓا الی ربکم “۔ الخ کے معنی یہ ہیں۔ اے لوگو ! تم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو معصیتوں سے اعراض کرتے ہوئے۔ ان پر ندامت و شرمندگی کے ساتھ۔ اور بعض ائمہ مفسرین نے اس کا مفہوم یہ ذکر کیا ہے کہ تم نفس اور اس کے تقاضوں سے منقطع ہو کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف اس کی عبادت و بندگی اور ذکر کے ساتھ رجوع کرو ، ” توبہ “۔ کے معنی بھی اہل لغت رجوع کے بیان کرتے ہیں اور انابتہ کے معنی بھی رجوع کے ہیں، جیسے کہ بیان کیا گیا، شیخ ابو القاسم قشیری (رح) نے ان دونوں میں لطیف فرق بیان کیا، فرمایا تائب اس کو کہیں گے جو خوف عقاب کی وجہ سے رجوع کرے یعنی سزا اور عقوبت سے ڈر کر معصیت سے تائب ہو اور طاعت کی طرف رجوع کرے، اور منیب اس رجوع کرنے والے کو کہیں گے جو حق تعالیٰ کے انعامات وکرم سے شرما کر معاصی سے باز آئے، (آیت) ” وانیبوا الی ربکم “۔ کے بعد (آیت ) ” واسلموا “۔ کا حکم حق تعالیٰ سبحانہ کے لیے اخلاص پر متوجہ وآمادہ کررہا ہے اور انابت کے بعد اخلاص کا حکم اس مقصد کے لیے ہے کہ بندہ یہ بات سمجھ لے کہ اس کی نجات و کامیابی اس کی انابت کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اس کے فضل وکرم سے ہے اور اسی کا فضل تھا کہ انابت کی توفیق حاصل ہوئی (تفسیر روح المعانی ج 24) الغرض آیت کا مقصد اور اس پیغام رحمت کی غرض یہ ہے کہ کسی شخص کو قبول حق اور رجوع الی اللہ کے لیے یہ بات مانع نہ ہونی چاہئے کہ اسن اپنی سابق زندگی میں عظیم گناہ کیے ہیں، نہ اس کو اس وجہ سے قبول حق سے رکنا چاہئے اور نہ ہی اس کو رحمت خداوندی سے مایوس ہونا چاہئے، اس لیے ان آیات سے یہ سمجھنا کہ اللہ کی نافرمانی اور معصیت میں کوئی مضائقہ نہیں، اور ان اعمال کے مواخذہ کی کوئی فکر نہ کرنی چاہئے۔ قطعا غلط ہے، عقل اور الفاظ کی دلالت ہر گزای سے مفہوم کی اجازت نہیں دیتی حاصل یہ کہ ان آیات سے انسان کو بےفکر ہو کر گناہوں پر جری نہ ہونا چاہئے، بلکہ غرض یہ ہے کہ مایوسی کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔
Top