Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 153
یَسْئَلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ١ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ١ۚ وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يَسْئَلُكَ
: آپ سے سوال کرتے ہیں
اَهْلُ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
اَنْ
: کہ
تُنَزِّلَ
: اتار لائے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
كِتٰبًا
: کتاب
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
فَقَدْ سَاَلُوْا
: سو وہ سوال کرچکے ہیں
مُوْسٰٓى
: موسیٰ
اَكْبَرَ
: بڑا
مِنْ ذٰلِكَ
: اس سے
فَقَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اَرِنَا
: ہمیں دکھائے
اللّٰهَ
: اللہ
جَهْرَةً
: علانیہ
فَاَخَذَتْهُمُ
: سو انہیں آپکڑا
الصّٰعِقَةُ
: بجلی
بِظُلْمِهِمْ
: ان کے ظلم کے باعث
ثُمَّ
: پھر
اتَّخَذُوا
: انہوں نے بنالیا
الْعِجْلَ
: بچھڑا (گؤسالہ)
مِنْۢ بَعْدِ
: اس کے بعد
مَا
: کہ
جَآءَتْهُمُ
: ان کے پاس آئیں
الْبَيِّنٰتُ
: نشانیاں
فَعَفَوْنَا
: سو ہم نے درگزر کیا
عَنْ ذٰلِكَ
: اس سے (اس کو)
وَاٰتَيْنَا
: اور ہم نے دیا
مُوْسٰى
: موسیٰ
سُلْطٰنًا
: غلبہ
مُّبِيْنًا
: ظاہر (صریح)
(اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں کہ تم ان پر ایک (لکھی ہوئی) کتاب آسمان سے اتار لاؤ۔ تو یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑی بڑی درخواستیں کرچکے ہیں (ان سے) کہتے تھے ہمیں خدا ظاہر (آنکھوں سے) دکھا دو ۔ سو ان کے گناہ کی وجہ سے انکو بجلی نے آپکڑا۔ پھر کھلی نشانیاں آئے پیچھے بچھڑے کو (معبود) بنا بیٹھے تو اس سے بھی ہم نے درگزر کی۔ اور موسیٰ کو صریح غلبہ دیا۔
بیان دیگر ذمائم اہل کتاب۔ قال تعالی، یسئلک اھل الکتاب۔۔۔ الی۔۔۔۔ حکیما۔ آیت۔ ربط) گذشتہ آیت میں اہل کتاب کی عظیم شناعت یعنی تفریق فی الایمان کو بیان کیا اب یہاں سے اہل کتاب کی دوسری قباحتوں اور شناعتوں کو اور ان پر جو عقوبتیں اور مصیبتیں نازل ہوئیں ان کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان فرماتے ہیں اے نبی اہل کتاب یعنی یہود آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان پر ایک کتاب آسمان سے اتار لادیں جس کو آسمان سے اترتے ہوئے ہم بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جیسا کہ کعب بن اشرف اور فنحاص بن عازوراء وغیرہ یہود علماء نے نبی ﷺ سے کہا تھا کہ اگر آپ واقعی نبی ہیں تو ایک ہی دفعہ ایک لکھی ہوئی کتاب پوری آسمان سے ہم پر اتاد دو اور ایک روایت میں ہے یہ کہا کہ ہم آپ کے ہاتھ پر جب بیعت کریں گے کہ جب فلاں فلاں اور شخص کے نام اللہ کی طرف سے یہ تحریر آجائے کہ آپ اللہ کے رسول اور نبی آخرالزمان ہیں اور یہ قرآن کلام اللہ ہے حالانکہ یہ لوگ نبی ﷺ دلائل نبوت اور اعجاز قرآنی کا مشاہد کرچکے ہیں اور ان کی یہ درخواست تحقیق حق کے لیے نہیں بلکہ ضد اور عناد پر مبنی ہے بالفرض اگر ان کی یہ درخواست پوری کردی جائے تو کل کو اور اسی قسم کی درخواست کریں گے اس لیے اللہ فرماتے ہیں کہ اے ہمارے نبی پس آپ ان کے اس قسم کے معاندانہ اور متکبرانہ سوالات سے تعجب نہ کیجئے اس لیے کہ تحقیق ان کے اسلام موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بڑھ کر درخواست کرچکے ہیں چناچہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو کھلم کھلا دکھلادو یعنی ضد اور ہٹ دھرمی ان کی قدیمی اور موروثی عادت ہے ان کے آباء و اجداد موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بڑھ کر درخواست کرچکے ہیں کیونکہ کتاب الٰہی کا دنیا میں آسمان سے نازل ہونا فی حد ذاتہ ممکن ہے مگر دنیا میں بلاکسی حجاب اور پردہ کے علانیہ اور آشکارا طور پر دیدار خداوندی ناممکن اور محال ہے پس اس گستاخی کی وجہ سے بجلی نے ان کو آپکڑا اور آنا فانا سب کو ہلاک کرڈالا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ نے ان کو دوبارہ زندہ کیا مقصود اس آیت سے نبی ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کے سوال کی پرواہ نہ کیجئے ضد اور عناد ان کی سرشت میں رکھا ہوا ہے کسی طور پر بھی حق کی طرف آنا نہیں چاہتے اگر ہم آج ان کی یہ درخواست پوری بھی کردیں تو اور کوئی حیلہ نکال کھڑا کریں گے جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات میں ہمیشہ شبہ نکالتے رہے اور اس سے ان کے شبہ مذکورہ کا جواب اس طرح ہوا کہ یہ سب تمہارے حیلے بہانے ہیں اگر ایک مرتبہ کتاب کامل جانا سچ ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں تو موسیٰ (علیہ السلام) سے جن کو ایک ہی مرتبہ توریت مل گئی تھی یہ سوال کیوں کیا تھا کہ ہم کو اللہ پاک کا دیدار کرادو تب یقین کریں گے ان کو تو کتاب ایک ہی دفعہ ملی تھی یقین کے واسطے کیوں کافی نہ ہوئی پھر اس گستاخانہ درخواست سے بڑھ کر ایک اور حرکت کرچکے ہیں وہ یہ کہ انہوں نے بچھڑے کو معبود بنایا لیا بعد اس کے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی توحید اور موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے واضح اور قطعی دلائل آچکے تھے اور پھر جب انہوں نے توبہ کی تو ہم نے ان کا قصور معاف کردیا اور عبادت عجل یعنی گوسالہ پرستی کو دیدار خداوندی کی درخواست سے بڑھ کر اس لیے فرمایا کہ رویت خداوندی تو فقط دنیا ہی میں محال ہے اور آخرت میں ممکن ہے مگر غیر اللہ کا معبود ہونا تو ہر زمان اور ہر مکان میں قطعا ناممکن اور محال ہے مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے معجزات اور دلائل واضحات کے دیکھنے کے بعد بھی ایک احمق حیوان یعنی بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا اور ان سے ہدایات اور یمان کی کیا توقع کی جاسکتی ہے جب کسی کو احمق اور کو دن بتلانا ہوتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ حیوان ہے اور یہ تو بیل اور بچھڑا حماقت میں ضرب المثل ہے پس جس قوم نے ایک احمق حیوان کو اپنا معبود بنایا حماقت کا اندازہ لگا لو کہ احمق معبود کے بندے کیسے ہوں گے باقی مفصل قصہ سورة بقرہ میں گذرچکا ہے وہاں دیکھ لیاجائے اور فعفونا عن ذالک سے مقصود یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اب بھی اپنے ناشائستہ سوال اور شرارتوں سے توبہ کرلیں تو ہم ان کا بھی قصور معاف کردیں گے اور دیا ہم نے موسیٰ کو کھلا غلبہ یعنی ہم نے موسیٰ کو ایسے معجزات عطا کیے جن کو دیکھ کر فرعون جیسا متکبر بھی ڈر گیا گویا کہ یہ آیت نبی کو بشارت ہے کہ آپ ان لوگوں کی سرکشی سے شکستہ دل نہ ہوں موسیٰ کی طرح آپ کو بھی اللہ ان سرکشوں پر غلبہ عنایت کرے گا اور آپ کے دشمن ہلاک ہوں گے اور جب یہود نے احکام تورات کے قبول کرنے انکار کردیا تو ہم نے ان کے سروں پر کور طور کو اٹھا کر معلق کھڑا کردیا ان سے پختہ عہد اور میثاق لینے کے لیے جب بنی اسرائیل نے توریت کے قبول کرنے سے انکار کردی اور کہا کہ اس کے احکام سخت ہیں ہم سے ان تمام احکام پر عمل نہیں ہوسکے گا تو اللہ نے کوہ طور کو اکھاڑ کر ان کے سروں پر معلق کھڑا کردیا اور فرمایا کہ قبول کرتے ہو تو کردو ورنہ ابھی تم پر پہاڑ گرا دیا جائے گا اور سب کچلے جاؤ گے تب مجبور ہو کر اس کو قبول کیا اور کہا کہ بہت اچھا اپ کا حکم ہم کو منظور ہے ہماری توبہ ہم کبھی خدا کے حکم کے خلاف نہیں کریں گے کماقال تعالی، واذ نتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ۔۔۔ الی۔۔۔ آتینکم۔ آیت۔ مفصل قصہ سورة اعراف میں مذکور ہے اور ہم نے ان کے غرور اور سرکشی کو توڑنے کے لیے یہ حکم دیا کہ شہر ایلیاء کے دروازہ میں خشوع اور خضوع اور نیاز مندی کے ساتھ سرجھکائے ہوئے داخل ہونا مگر ان سرکشوں نے اس حکم کو بھی نہ مانا اور بجائے سرجھکائے نے کے سرین کے بل گھسٹتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے اللہ نے ان پر طاعون کو مسلط کیا جس میں قریب ستر ہزار کے مرگئے اور ہم نے ان کو یہ حکم بھی دیا کہ ہفتہ کے دن تعدی اور زیادتی نہ کرنا یعنی ہفت کے دن مچھلیوں کا شکار نہ کرنا کہ وہ تم پر حرام ہے اور خدا کے اس حکم سے تجاوز نہ کرنا اور ہم نے ان سے پختہ عہد لے لیا مگر ان بدعہدوں نے حیلہ اور بہانہ سے اللہ کے صریح حکم اور پختہ عہد کو توڑا جس کا مفصل قصہ سورة اعراف میں مذکور ہے، واسالھم عن القریۃ التی کانت حاضرۃ البحر۔ آیت۔ یہاں تک قدرے یہود کی شرارتوں اور سرکشیوں کو بیان کیا اب آگے یہود کامورد غضب اور محل لعنت اور مستحق ذلت ومسکنت ہونا بیان کرتے ہیں پس ہم نے ان باتوں کی وجہ سے جن کو ہم ذکر کرتے ہیں یہود پر لعنت کی اور ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ان کے اپنے پختہ عہد و پیمان کے توڑنے کی وجہ سے ان پر لعنت کی اور اللہ کی آیتوں کے نہ ماننے کی وجہ سے بھی اور خدا کے پیغمبروں کو دیدہ دانستہ ناحق اور بےوجہ محض عناد اور سرکشی کی بناء پر قتل کرنے کی وجہ سے اور اس قسم کے متکبرانہ اور مغرور انہ کلمات کی وجہ سے مثلا اس کہنے کی وجہ سے کہ ہمارے دل غلاف اور پردوں میں ہیں یعنی جس طرح باہر کی چیز کا اثر پردہ کے اندر نہیں پہنچونتا اسی طرح اے محمد ﷺ آپ کی باتوں کا اثر ہمارے دلوں تک نہیں پہنچتا ان کا مقصودیہ ہوتا کہ آپ جو بات بھی کہتے ہیں وہ ہمارے دل کو نہیں لگتی جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے وقالو قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ۔ آیت۔ یا یہ مطلب کہ ہمارے دل علم و حکمت کے غلاف ومخزن ہیں یعنی ان میں شریعت موسویہ کا علم بھرا ہوا ہے ہمیں کسی دوسری شریعت کے علم کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعای فرماتے ہیں یہ سب غلط ہے کوئی بات نہیں نہ دل ان کے پردہ میں ہیں اور نہ ان کے دل علم کا مخزن ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کردی ہے کہ باہر سے کوئی ہدایت اور نصیحت اندر نہیں پہنچتی اور دلوں کے اندر جو کفر اور گمراہی سربمہر ہوچکی ہے وہ اندر سے باہر نہیں نکلتی ان کے دل علم کا مخزن نہیں بلکہ کفر اور گمراہی کا مخزن ہیں سو وہ ایمان نہیں لاتے مگر بہت تھوڑا یعنی صرف موسیٰ اور ان کی توریت پر ایمان رکھتے ہیں جو کفر کے مساوی ہے اس لیے کہ محمد ﷺ اور حضرت عیسیٰ کو نہ ماننا تمام انبیاء کی تکذیب کے مرادف ہے اور نیز ان کے کفر پر کفر کرنے کی وجہ سے اور نیز حضرت مریم پر ایک ایسا عظیم بہتان لگانے کی وجہ سے جس کو آدمی سن کر مبہوت ہوجائے اور تعجب اور حیرت میں پڑجائے اور ان پر لعنت کی یعنی لوگوں نے حضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی اور جو حضڑت عیسیٰ کی اہانت اور تکذیب کو مستلزم ہے اہانت کو تو اس لیے کہ کسی کی ماں کو زانیہ اور بدکار کہنے کے یہ معنی ہیں کہ معاذ اللہ یہ شخص والدالزنا ہے جو صریح اس کی توہین ہے اور العیاذ باللہ نبی کے حق میں ایسا تصور بھی بدترین کفر ہے اور تکذیب اسی طرح لازم آئی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے حضرت مریم کی برات اور نزاہت ظاہر ہوچکی ہے اور اب اس کے بعد کسی پر تہمت لگانا برائت اور نزاہت کا صاف انکار کرنا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مقتول اور مصلوب ہونے کی تردید۔ اور نیز ان کے اس قول کی وجہ سے جو بطور فخر کہتے تھے کہ تحقیق ہم نے مار ڈالا مسیح کو یعنی مریم کے بیٹے کو جو رسول اللہ کہلاتا تھا اللہ کا ان پر لعنت کی اول تو ان کا کہنا دلیل ہے عداوت کی اور نبی اء کرام کی عداوت بلاشبہ کفر ہے اور پھر اس کفر پر فخر کرنا کفر بالائے کفر ہے پس ان تمام وجوہ مذکورہ کی بناء پر ہم نے یہود پر لعنتیں اور مصیبتیں نازل کیں اور ذلت اور مسکنت کی مہر ان پر لگائی۔ ف) ۔ یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کو رسول اللہ نہیں مانتے تھے مگر اس مقام پر ان کا رسول اللہ کہنا بطور تمسخر تھا جیسا فرعون نے کہا تھا، ان رسولکم الذین ارسل الیکم لمجنون۔ اور جیسے کفار مکہ نبی ﷺ کو بطور تمسخر اس طرح خطاب کیا کرتے تھے یا ایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون آیت۔ اس طرح یہود نہایت فخر سے طنزا کہا کرتے تھے کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو جو خدا کے رسول ہونے کا دعوی کرتے تھے قتل کرڈالا اب آئندہ آیت میں ان کے دعوائے قتل وصلب کی تکذیب فرماتے ہیں اور یہود بےیہود کا یہ دعوی اور ان کا یہ قول کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کرڈالا بالکل غلط ہے اس لیے کہ یہود نے نہ تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا لیکن ان کے لیے ایک دوسرا شخص حضرت عیسیٰ کے مشابہ اور ہم شکل بنا دیا گی اور اسی ہم شکل کو انہوں نے عیسیٰ سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا مطلب یہ کہ بظاہر جو قتل اور صلب پیش آیا ہے اس کا عیسیٰ (علیہ السلام) سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق ایک دوسرے شخص سے ہے جو من جانب اللہ ان کے ہم شکل بنادیا گیا اور تحقیق جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کیا البتہ وہ لوگ حضرت عیسیٰ کی طرف سے شک اور شبہ میں پڑے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کو حضرت عیسیٰ کے قتل کیے جانے اور سولی پر چڑھائے جانے کا یقین نہیں اس لیے علماء یہود ونصاری کے نزدیک یہ امر مسلم ہے کہ حضرت مسیح کی گرفتاری کے وقت حواری تو سب بھاگ گئے تھے اور یہودی جو گرفتار کرنے کے لیے گئے تھے وہ حضرت مسیح کو پہچانتے نہ تھے پس مسیح کی صحیح خبر نہ ان کو اور نہ ان کو سب شک میں یقین کسی کو بھی نہیں بلکہ جس وقت انہوں نے اپنی دانست میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا اسی وقت سے شک میں ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا عروج آسمانی ورفع جسمانی۔ اور خوب سمجھ لو کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا بلکہ البتہ اور یقین طور اور قطعی بات یہ ہے کہ جس وقت وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے قتل اور صلب کا ارادہ ہی کررہے تھے تو اس وقت اللہ نے ان کو زندہ صحیح سالم بذریعہ فرشتہ اپنی طرف اٹھا لیا یعنی آسمان پر اٹھا لیا تاکہ ان کے قتل اور صلب کا امکان ہی ختم ہوجائے یہود حضرت عیسیٰ کے قتل کے درپے تھے اللہ نے قتل کے مقابلہ میں رفع کو ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ قتل وصلب واقع نہیں ہوا بلکہ قتل اور صلب کے بدلہ میں رفع الی السماء واقع ہوا یہود کا دعوائے قتل یعنی انا قتلنا کہنے سے حضرت مسیح کی موت کو ثابت کرنا تھا اللہ نے بل رفعہ اللہ سے اس کے بالقابل ان کی حیات کو ثابت کیا پس معلوم ہوا کہ بل رفعہ اللہ رفع جسمانی مراد ہے اس لیے یہود حضرت مسیح کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے اللہ نے اس کی تردید اور ابطال کے لیے بل رفعہ اللہ الیہ فرمایا یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے ان کو قتل کردیا یا صلیب پر چڑھا دیا بلکہ اللہ نے ان کے جسم کو صحیح سالم آسمان پر اٹھا لیا گیا گذشتہ آیت میں جس چیز کے قتل اور صلب کی نفی کی گئی تھی اس آیت یعنی بل رفعہ اللہ الیہ میں اسی چیز کارفع الی السماء یعنی اوپر اٹھایا جانا بیان فرمایا مزید تفصیل انشاء اللہ لطائف ومعارف میں آئے گی۔ نکتہ اول) ۔ اللہ جل شانہ نے اس آیت میں یہود کے ملعون ہونے کے اسباب بیان کیے ہیں جن میں ایک سبب یہ ذکر فرمایا وقتلھم الانبیاء بغیر حق۔ یعنی انبیاء کو قتل کرنے کی وجہ سے ملعون اور مغضوب ہوئے اور ایک سبب یہ بیان فرمایا کہ وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم۔ یعنی یہود کا حضرت عیسیٰ کے بارے میں صرف یہ کہنا کہ ہم نے ان کو قتل کرڈالا ان کی لعنت کا سبب بن گیا معلوم ہوا کہ ان سے سوائے اس قول کے ناشائستہ فعل سرزد نہیں ہو اور نہ اگر ان سے کوئی اور فعل سرزد ہوتا مثلا پکڑنا یاسر پر کانٹوں کا تاج رکھنا اور منہ پر تھوکنا اور منہ پر طمانچے مارنا تو اسباب لعنت میں ان ناشائستہ امور کو ضرور ذکر کیا جاتا اور صرف اس زبانی قول کے ذکر پر اکتفا نہ کیا جاتا ایسے موقعہ میں صرف دعوائے قتل کو تو نقل کرنا اور جو جرائم وذمائم اس سے ہزاردرجہ بڑھ کر ہوں ان سے سکونت کرنا سمجھ میں نہیں آتا یہود چونکہ قتل انبیاء کے دعوے میں صادق تھے اس لیے اللہ نے اس بارے میں ان کی کوئی تردید نہیں کی اور نہ اس معاملہ میں کسی شک اور اشتباہ کا ذکر فرمایا صرف حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں ان کے دعوائے قتل کو وقولھم اناقتلنا المسیح۔ کے عنوان سے ذکر کیا اور پھر شد ومد سے ان کے قول کی تردید کی اور ان کے لیے شک اور اشتباہ کو بیان کیا۔ نکتہ دوم) ۔ نیز اس آیت میں حضرت مسیح کے دعوائے قتل کو ذکر کرکے بل رفعہ اللہ فرمای اور گذشتہ آیت میں انبیاء سابقین کے قتل کو بیان کرکے بل رفعھم اللہ الیہ نہیں فرمایا حالا کہ قتل کے بعد انبیاء کرام کی ارواح طیبہ بلاشبہ آسمان پر اٹھائی گئیں معلوم ہوا کہ صرف حضرت عیسیٰ جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے۔ نکتہ سوم۔ ابتداء میں قتل اور صلب کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور فردا فردا ہر ایک کی نفی کی مگر چونکہ یہود کا اصل مقصود قتل تھا اس لیے اخیر کلام میں فقط قتل کی نفی کا اعادہ فرما کر رفع الی السماء کو ثابت کیا اور اس طرح فرمایا وما قتلوہ وماصلبوہ بل رفعہ اللہ علیہ (عقید الاسلام ص 186 وص 171) ۔ اور ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کو مستبعد نہ سمجھو اس لیے کہ ہے اللہ غالب اور حکمت والا اس کی قدرت کے اعتبار سے آسمان اور زمین سب برابر ہیں اور اس کا کوئی فعل حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں اس نے اپنی کسی حکمت کی بناء پر کسی شخص کو حضرت عیسیٰ کے ہم شکل بنا کر ان کی جگہ قتل کرادیا اور حضرت عیسیٰ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور آسمان میں ان کو دشمنوں سے محفوظ کردیا رہا یہ امر کہ کیا خدا زمین پر حفاظت نہیں کرسکتا تھا حفاظت کے لیے رفع الی السماء کا طریقہ اختیار کیوں کیا اس میں کیا حکمت ہے سو اس کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں یہ سوال تو ہر طریقہ حفاظت میں جاری ہوسکتا ہے کیا کوئی یہ بتلا سکتا ہے کہ اللہ کو محمد رسول اللہ کو مکہ سے مدینہ اور ابراہیم کو عراق سے شام لے جانے کی کیا ضرورت تھی کیا اللہ اس پر قادر نہ تھا کہ ان کو اپنے وطن عزیز ہی میں رہنے دینا اور وہیں ان کی حفاظت فرمایا اسی طرح کے ہزاروں سوال ہوسکتے ہیں جس کا جواب حافظ شیرازی نے دیا ہے۔ حدیث از مطرب ومی گو وراز دھر کمتر جو، کہ کس نہ کشوردو نہ کشا ید بحکمت ایں معمارا۔
Top