Maarif-ul-Quran - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزٰی کو دیکھا
تنبیہ وتہدید برانکار توحید و رسالت وعدم حقیقت معبودان باطلہ : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” افرء یتم اللت والعزی ...... الی ....... فللہ الاخرۃ والاولی “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں آنحضرت ﷺ کی رسالت ونبوت اور آپ کی عظمت ومنقبت کا بیان تھا اور اس کے ضمن میں معراج کے بعض خصوصی احوال کے ذکر سے حق تعالیٰ شانہ کی عظمت وکبریائی اور اس کی وحدانیت کا ذکر تھا اب ان آیات میں اس کے بالمقابل ابطال شرک اور شرک اور مشرکین کے معبودوں کی حقارت وبے بسی اور ایسے معبودوں کی پرستش کا خلاف عقل و فطرت ہونا بیان کیا جارہا ہے ارشاد فرمایا۔ تو پھر کیا اے لوگو ! تم نے حق تعالیٰ شانہ کے لامحدود عظمت و جلال اور اس کی عظیم نشانیوں کو سمجھ کر ان کے بالمقابل ان مشرکین کے معبودوں لات وعزی کو دیکھا اور ایک اور تیسرے معبود منات کو جن کی حقارت وذلت روز روشن کی طرح عیاں ہے ان حقیر معبودوں کا تو خدائے برتر کے ساتھ نام لینے میں بھی شرم کرنی چاہئے پھر ظلم یہ کہ یہ مشرکین ان کو خدا کی بیٹیاں تجویز کرتے ہیں (العیاذ باللہ) تو ایسے لوگوں سے پوچھو کیا تمہارے واسطے بیٹے ہوں اور اس کے واسطے بیٹیاں یہ تو اس صورت میں بہت ہی بھونڈی تقسیم ہے یہ تو بس صرف چند نام ہی ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں اور تمہارے باپ دادوں نے کہ اللہ نے جس کی کوئی دلیل نہیں اتاری حالانکہ خدا تو وہ ذات ہے جس کی وحدانیت وخالقیت کے لئے کائنات کا ایک ایک ذرہ دلیل ہوتا ہے یہ لوگ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ محض اپنے گمان اور من گھڑت تخیلات کی پیروی کرتے ہیں اور ہر اس چیز کو جو انکے نفس کی خواہش ہو، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے اور ایسا واضح اور سیدھا راستہ جس پر چل کر ہر انسان ہدایت وسعادت اور دین دنیا کی فلاح پاسکتا ہے نجات و کامیابی انسانی کے درست عقیدہ اور صحیح عمل پر موفوق ہے ایسا انسان جو عقائد ونظریات اور عمل کی گمراہیوں میں پڑا ہوا ہے اس کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ آخرت میں بھی اپنی کامیابی کے دعوے کرے جیسا کہ مشرکین مکہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بت ہماری شفاعت کریں گے تو ایسے عقل وفہم کے دشمنوں سے کہ دیا جائے کہ انسان کے ہر وہ چیز ہے جس کی وہ تمنا کرے کوئی بھی صاحب عقل اسکو قبول نہیں کرسکتا یقیناً کامیابی عقائد کی درستگی اور اعمال صالحہ پر موقوف ہے جو اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا دین ہے پس اللہ ہی کے لئے ہے آخرت اور اس کی کامیابی اور اس سے قبل والی پہلی زندگی یعنی عالم دنیا اور اسکی سعادت و کامیابی کا یہ آرزوؤں اور تمناؤں سے کچھ ملتا ہے اور نہ اس قسم کے من گھڑت خیالات سے کہ یہ ہمارے بت ہمارے کام آئیں گے کوئی فائدہ نہ ہوگا بلکہ سوائے ہلاکت اور خسران کے کچھ حاصل نہ ہوگا لات وعزت اور مناۃ یہ مشرکین مکہ کے معبود تھے، عام اہل عرب میں سب سے زیادہ معظم اور بڑا معبود لات سمجھا جاتا تھا، پھر اس کے بعد عزی اور تیسرے درجہ کا معبود مناۃ سمجھا جاتا تھا، لات یہ ایک بت منقش قسم کی سفید چٹان پر طائف میں بنا رکھا تھا اور اس کے اردگرد ایک بت خانہ کے طور پر گھر سا بنارکھا تھا اور یہ لوگ اس کی خوبصورتی اور زیب وزینت (جو خود ان کی اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی تھی) کے باعث دیگر قبائل عرب پر فخر کیا کرتے تھے ابن عباس ؓ سے منقول ہے یہ بت جاہلیت کے زمانہ کے ایک شخص کی طرف منسوب تھا جو حج کے موسم میں حاجیوں کے واسطے ستو گھولا کرتا تھا اوس اور خزرج کے لوگ اس کی زیادہ تعظیم و تکریم کرتے تھے مگر قریش اور بنوکنانہ عزی کو سب سے بڑا سمجھتے تھے جو کہ مکہ کے قریب ایک نخلستان میں تھا ابوسفیان ؓ نے یوم احد میں اسی کا نعرہ لگایا تھا، لنا العزی ولا عزی لکم، جس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ کہہ دو ” اللہ مولانا ولا مولی لکم “۔ تیسرا معبود مناۃ یہ مقام مشلل میں تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے دور جاہلیت میں قبیلہ خزاعہ اوس اور خزرج اسکی تعظیم کرتے تھے اور حج کے زمانہ میں یہاں سے احرام باندھ کر حج کا تلبیہ کہتے ہوئے کعبۃ اللہ کی طرف روانہ ہوا کرتے تھے معجم البلدان میں ذکر کیا ہے کہ مشرکین عرب بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان بتوں کا نام پکارا کرتے تھے اور یہی الفاظ کہا کرتے تھے ’۔ اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری “۔ اور ان الفاظ کے ساتھ مزید یہ کہا کرتے۔ ھؤلاء الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی ‘۔ بعض کتب تفسیر میں اس موقعہ پر ایک قصہ نقل کیا ہے کہ سورة والنجم کی جب آپ ﷺ نے یہ آیت (آیت ) ” افرء یتم اللات والعزی “۔ تلاوت کی تو کسی جنی نے آپ ﷺ کی آواز میں اپنی آواز ملا کر یہ کہہ دیا۔ تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی “۔ اور اس پر سب مشرکین سجدہ میں گرگئے، یہ واقعہ اصول حدیث اور اصول دین کے لحاظ سے کسی طرح صحیح نہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پیغمبر کا ہر لفظ اور اس کا ہر نطق وحی الہی ہے اور اللہ نے اس کو نمونہ ہدایت بنا کر ہر خطا وگمراہی سے محفوظ کردیا اس کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات میں کوئی شیطان اپنی آواز ملا کر کلمات شرک جاری کردے اور سننے والے یہ گمان کریں کہ یہ کلمات آپ ﷺ نے بولے ہیں بہرکیف یہ واقعہ از روئے اسناد اور بحیثیت اصول دین ناقابل اعتبار ہے پھر یہ بات بھی ہے کہ ایک حدیث میں ہے۔ من رانی فی المنام فقد رانی فان الشیطان لا یتمثل بی ‘۔ کہ جس کسی شخص مومن نے مجھے خواب میں دیکھا تو بیشک اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے کیونکہ شیطان کو یہ قدرت نہیں کہ وہ میرا ہم شکل بن کر کسی کے سامنے آسکے تو جب بحالت نوم (خواب) میں کسی مسلمان کے سامنے شیطان متمثل نہیں ہوسکتا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ بحالت بیداری خود پیغمبر کے سامنے وہ اپنی آواز (صوت) پیغمبر کی آواز سے ملتبس کردے تو صورت کے التباس پر جس طرح اس کو قدرت نہیں دی گئی تو اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ صوت کے التباس پر قدرت نہ ہوگی۔ البتہ اتنا بیشک ثابت ہے صحیحین کی روایت سے کہ آنحضرت ﷺ نے سورة والنجم کی تلاوت فرمائی اور اس مجمع میں مسلمان ومشرکین موجود تھے تو ہر ایک خواہ مسلمان ہو یا مشرک سجدہ میں گر پڑا سوائے قریش کے ایک بوڑھے کے کہ اس نے سجدہ نہ کیا اور ایک مٹھی بھر مٹی لے کر اپنی پیشانی سے لگالی اور کہا کہ بس مجھے یہی کافی ہے اور یہ بوڑھا امیہ بن خلف تھا جس کو ابن سعود ؓ فرماتے ہیں ، فرأیتہ بعد قتل کافرا “۔ چناچہ یہ بوڑھا غزوہ بدر میں قتل کیا گیا، تو یہ بات تو احادیث سے ثابت ہوئی اور اس قصہ میں مشرکین کے سجدہ کا منشایا تو یہ ہوگا کہ انہوں نے جب آیت قرآنیہ میں اپنے بتوں کے نام سنے تو سجدہ میں گرپڑے قطع نظر اس کے کہ آئندہ کیا مضمون آرہا ہے یا حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرہ کی تحقیق کی رو سے یہ وجہ ہو کہ اس وقت اس مجلس میں غیبی تجلیات کا نزول ہوا ہو تو مسلمانوں کا سجدہ تو ایمان وطاعت کا سجدہ تھا، لیکن مشرکین کا سجدہ ایک طرح کی مبہوتی اور بدحواسی کے عالم میں ہوا اگرچہ مشرکین کا یہ سجدہ صرف ظاہری تھا لیکن کیا تعجب ہے کہ اس ظاہری سجدہ کی برکت سے ان کو بعد میں ایمان لانے کی توفیق ہوگئی ہو برخلاف اس خبیث بوڑھے کے جو ظاہری سجود سے محروم رہا تو اس کو کبھی بھی سجدہ نصیب نہ ہوا ہو برخلاف اس خبیث بوڑھے کے جو ظاہری سجود سے محروم رہا تو اس کو کبھی بھی سجدہ نصیب نہ ہوا اور بحالت کفر قتل کردیا گیا تو اس توجیہ کے پیش نظر عبداللہ بن مسعود ؓ کے لفظ۔ فقد رایتہ بعد قتل کافرا، کی وجہ اور حکمت بھی کچھ ظاہر ہورہی ہے کہ اسی کو خاص طور پر کفر کی حالت میں مقتول ہونے کو بیان کرنا اس کے علاوہ دوسروں کے حق میں توفیق ایمان کی گنجائش ظاہر کرتا ہے۔
Top