Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 101
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ١ؕ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
بَدِيْعُ : نئی طرح بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین اَنّٰى : کیونکر يَكُوْنُ : ہوسکتا ہے لَهٗ : اس کا وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ تَكُنْ : اور جبکہ نہیں لَّهٗ : اس کی صَاحِبَةٌ : بیوی وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کی كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز وَهُوَ : اور وہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنیوالا (ہے) اس کے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
ابطال عقیدہ ابنیت قال اللہ تعالیٰ بدیع السموات والارض انی یکون لہ ولد۔۔۔ الی۔۔۔ وھو اللطیف الخبیر (ربط) گذشتہ آیات میں جب توحید کی پانچ دلیلیں بیان کیں اور مشرکین کے عقائد شرکیہ کی تردید کی تو اب آئندہ آیات میں خاص طور پر نصاریٰ کے عقیدہ ابنیت کا ابطال فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اولاد سے پاک اور منزہ ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں وہ بغیر مادہ اور بغیر نمونہ کے آسمانوں اور زمین کا موجد ہے یعنی محض نیست سے ہست کرنے والا ہے یعنی یہ آسمان و زمین جو تمام عالم کو احاطہ کیے ہوئے ہیں سب اسی کا پیدا کیا ہوا اور بنایا ہوا ہے جس میں اھرمن بھی داخل ہے اور حضرت عزیر اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کی والدہ مریم صدیقہ اور آسمان و زمین کے تمام فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اس کے لیے اولاد کیسے ہوسکتی ہے حالانکہ اس کے کوئی بیوی نہیں اور اولاد کے لیے بیوی کا ہونا ضروری ہے اور نصاری اگرچہ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں لیکن یہ جرات اور جسارت وہ بھی نہیں کرسکے کہ معاذ اللہ حضرت مریم کو خدا تعالیٰ کی بیوی قرار دے سکیں اور خدا تعالیٰ کے لیے بیٹے اور بیوی کا ہونا اس لیے محال ہے کہ بیٹا باپ کے اور بیوی شوہر کے ہم جنس ہوتی ہے اور خدا کا ہم جنس کوئی نہیں اور اللہ ہی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے پس اگر کسی ایک مخلوق کا خدا کا بیٹا ہونا جائز اور ممکن ہو تو پھر ایک کی خصوصیت کیا ہر مخلوق کا بیٹا بننا ممکن ہوگا اور جس طرح وہ ہر شیء کا پیدا کرنے والا ہے اسی طرح وہ ہر شیء کا جاننے والا ہے کسی شیء کی حقیقت اور اس کی صفت اور حالت اس سے ذرہ برابر پوشیدہ نہیں جس طرح اس کی تخلیق اور ایجاد تمام کائنات کو محیط ہے اسی طرح اس کا علم بھی سب کو ہر طرح سے محیط ہے کیونکہ بغیر علم کے پیدا کرنا ناممکن ہے۔ الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر۔ پس معبود وہی ہوسکتا ہے کہ جس کی قدرت اور جس کا علم تمام ممکنات کو محیط ہو یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار یعنی جس کی صفات اوپر مذکور ہوئیں وہی اللہ ہے اور ہی قابل عبادت ہے اور جو ایسا نہیں وہ نہ اللہ ہے اور نہ قابل عبادت ہے پس مشرک جو بتوں کو پوجتے ہیں اور نصاری جو خدا کے لیے بیٹا ٹھہراتے ہیں وہ دونوں غلطی پر ہیں جس کے بیٹا ہو وہ خدا ہی کیا ہوا ہم ہی جیسا آدمی ہوا اور بت جو کسی چیز کے خالق نہیں اور نہ ان کو کسی چیز کی کوئی خبر ان کے پوجنے سے کیا حاصل۔ پس خوب سمجھ لو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی ہر شئے کا پیدا کرنے والا ہے پس اسی کی بندگی کرو اور وہی ہر چیز کا کارساز اور محافظ اور نگہبان ہے مطلب یہ ہے کہ خدا وہ ہے جو کہ بےنظیر اور بےمثال ہو کوئی اس کا ہم جنس نہ ہو اور ہر چیز کا خالق اور محافظ اور نگہبان اور کارساز ہو اور اس کی تخلیق اور تکوین اور اس کا علم تمام ممکنات کو محیط ہو اور جسمیں یہ صفت نہ ہو وہ لائق عبادت نہیں اور معبود برحق کی علو شان کا یہ حال ہے کہ نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے یعنی سب نگاہیں اس کے ادراک اور احاطہ سے عاجز اور درماندہ ہیں آنکھوں میں یہ طاقت اور قوت نہیں کہ وہ اس کو دیکھ سکیں اور وہ سب آنکھوں اور نگاہوں اور بینائیوں کا محیط ہے اور وہ نہایت لطیف اور باریک بین خبردار ہے۔ وہ ان چیزوں کا بھی ادراک کرتا ہے جن کے ادراک سے تمام نگاہیں قاصر ہیں باریک بین سے مراد یہ ہے کہ وہ اشیاء کے اندرونی حالات سے بخوبی واقف ہے کوئی شیء خواہ کیسی ہی دقیق کیوں نہ ہو وہ اس سے مخفی نہیں اس بیان سے یہ ظاہر ہوگیا کہ لطیف کا تعلق لا تدرکہ الابصار سے خبیر کا تعلق ھو یدرک الابصار سے ہے بلا تشبیہ اور بلا تمثیل کے ایسا سمجھو کہ جیسے روح ہے کہ نگاہیں اس کے ادراک سے قاصر ہیں اور روح نگاہوں کا اور تمام چیزوں کا ادراک کرسکتی ہے اسی وجہ سے افعال انسانی کو روح کی طرف نسبت کیا جاتا ہے کسی اور شئی کی طرف نسبت نہیں کی جاتی اس سے کافروں کے اس شبہ کا بھی جواب ہوگیا کہ خدا ہم سے غائب کیوں ہے اور وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا۔ جواب اس طرح ہوگیا کہ وہ معبود برحق لطیف وخبیر ہے کمال لطافت کی وجہ سے نظر نہیں آتا جیسے روح کمال لطافت کی وجہ سے نظر نہیں آنی اسی طرح وہ لطیف وخبیر بھی نظر نہیں آتا اور اس عالم اجسام میں ہوا بھی ایک جسم لطیف ہے اپنی لطافت کی وجہ سے نظر نہیں آتی۔ خلاصۂ کلام یہ کہ معبود برحق وہ ہے کہ جو علیم وقدیر اور لطیف وخبیر ہو اور یہ صفت سوائے اللہ کے کسی کے لیے ثابت نہیں پھر کیسے کوئی اس کا شریک اور سہیم ہوسکتا ہے۔ اس آیت یعنی لا تدرکہ الابصار سے معتزلہ اور خوارج اور شیعہ اور مرجۂ وغیرہ بدعتی فرقوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بہشت میں حق تعالیٰ شانہ کا دیدار نہ ہوگا معتزلہ نے اس آیت سے یہ سمجھا کہ دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کا دیدار ناممکن ہے۔ اہل سنت والجماعت کا اعتقاد اس بارے میں یہ ہے کہ بہشت میں خدا تعالیٰ کا دیدار افضل ترین نعمت ہے اور اگر سچ پوچھا جائے تو اصل بہشت اس کے دیدار کی لذت ہی کا نام ہے وہ بہشت ہی کیا ہوئی جس میں محبوب حقیقی کا دیدار نصیب نہ ہو علاوہ ازیں جنت میں رؤیت باری آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے جن کا انکار در پردہ شریعت کا انکار ہے۔ آیات قرآنیہ 1۔ وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ 2۔ للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ۔ 3۔ فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا۔ 4۔ واذا رایت ثم رایت نعیما وملکا کبیرا۔ (ای الحق سبحانہ) 5۔ کلا انھم عن ربھم یومئز لمحجوبون امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے کفار کو عار دلائی ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے محجوب ہوں گے یعنی ان کے اور خدا کے درمیان حجاب یعنی پردہ ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان اس کو بےحجاب دیکھیں گے کیونکہ وہ بھی اگر کافروں کی طرح حجاب میں رہے تو ان میں اور کافروں میں کیا فرق رہا اور محجوب ہونے میں کافروں کی کیا تخصیص ہوئی۔ ان آیات کے علاوہ اور بھی آیتیں ہیں جو رؤیت باری تعالیٰ کے امکان اور وقوع پر دلالت کرتی ہیں ان آیات کی تفسیر کے موقع پر اس مقصد کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے۔ احادیث نبویہ رہی سنت نبوی ﷺ ۔ سو احادیث متواترہ جو صحابہ ؓ کی ایک کثیر جماعت سے مروی ہیں ان سے بطریق تواتر یہ ثابت ہے کہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دار آخرت میں بلا اشتباہ اور بلا مزاحمت کے اس طرح دیکھیں گے جیسے چودھویں رات کے چاند کو بلا مزاحمت دیکھتے ہیں۔ کتب احادیث میں رویت باری تعالیٰ کا ایک مستقل باب ہے اور حافظ ابن قیم نے حادی الارواح میں اور جلال الدین سیوطی نے البدور السافرہ میں دیدار خداوندی کی احادیث کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے حضرات اہل علم اس کی مراجعت کریں۔ اب رہی آیت زیر تفسیر سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت اہل سنت کے مسلک کے منافی نہیں اس آیت میں حق تعالیٰ نے رویت کی نفی نہیں کی بلکہ ادراک ابصار کی نفی ہے اور ادراک اور رویت میں بڑا فرق ہے ادراک کے معنی لغت میں کسی چیز کو اپنے احاطہ میں لے لینے کے ہیں خدا تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں فرماتے ہیں قال اصحاب موسیٰ انا لمدرکون یعنی جب فرعون کے لشکر نے بنی اسرائیل کا تعاقب اور پیچھا کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب نے کہا کہ اے موسیٰ اب تو ہم پکڑ لیے گئے اور گھیر لیے گئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کلا وہ ہرگز نہیں پکڑ سکتے معلوم ہوا کہ ادراک کے معنی رویت کے نہیں بلکہ احاطۂ تام کرلینے اور قبضہ میں لے لینے کے ہیں کیونکہ فرعونیوں نے بنی اسرائیل کو دیکھ تو لیا تھا مگر ادراک یعنی پکڑنے سے قاصر اور عاجز رہے معلوم ہوا کہ ادراک اور شیء ہے اور رویت اور شئی ہے ادراک کی نفی سے رویت کی نفی لازم نہیں آتی پس آیت لا تدرکہ الابصار الخ کے معنی یہ ہوں گے کہ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتی البتہ وہ لطیف وخبیر تمام ابصار اور مبصرات کا احاطہ کیے ہوئے ہے لہذا آخرت میں حق تعالیٰ کی رویت ہوگی مگر احاطہ نہ ہوگا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ولا یحیطون بہ علما بندے اللہ تعالیٰ کا باعتبار علم کے احاطہ نہیں کرسکتے مگر اللہ تعالیٰ کو جانتے اور پہچانتے سب ہیں احاطہ کی نفی سے مطلق علم کی نفی لازم نہیں آتی اور حدیث میں ہے لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔ کوئی بندہ اللہ کی ثناء اور توصیف کا احصاء اور احاطہ نہیں کرسکتا مگر اس سے مطلق ثناء کی نفی لازم نہیں آتی امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں کہ ابن عباس ؓ سے بھی یہی منقول ہے کہ لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار کے معنی یہ ہیں کہ نگاہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکتی ہیں مگر اللہ کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور اللہ تعالیٰ تمام ابصار کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور زجاج امام نحویہ کہتے ہیں کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اللہ کی کنہ اور حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا سو آنکھیں اس کو دیکھیں گی مگر احاطہ نہیں کرسکیں گی جس طرح دل اللہ کو جانتے اور پہچانتے ہیں مگر محیط نہیں اسی طرح آنکھیں اللہ کو دیکھ سکتی ہیں مگر احاطہ نہیں کرسکتیں خلاصۂ کلام یہ کہ آیت میں ادراک بمعنی احاطہ اور تحدید کی نفی ہے مطلق رؤیت کی نفی نہیں۔ مطلق رؤیت باری آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے آنکھیں شمس وقمر کو دیکھتی ہیں مگر اس کی حقیقت اور کنہ کا ادراک نہیں کرتیں تو اسی طرح خداوند قدوس کے دیدار پر انوار کو سمجھو کہ نگاہیں نور السموات والارض کو دیکھیں گی مگر اس کی کنہ اور حقیقت کے ادراک سے عاجز اور درماندہ ہوں گی (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 161 ج 2 و تفسیر قرطبی ص 54 ج 7 و تفسیر کبیر ص 120 ج 4) اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں پس اس سے آخرت کے نہ دیکھنے پر استدلال کرنا صحیح نہیں کیونکہ دنیا کی آنکھیں ضعیف ہیں اور آخرت کی آنکھیں قوی ہیں اس میں کیا استبعاد ہے کہ جو بات دنیا میں ناممکن ہو وہ آخرت میں ممکن ہوجائے۔ اور شاہ عبدالقادر (رح) یہ فرماتے ہیں کہ مطلب آیت کا یہ ہے کہ آنکھ میں یہ قوت نہیں کہ اس کو دیکھ سکے ہاں اگر وہ خود ازراہ لطف وکرم اپنے کو دکھانا چاہے گا تو آنکھوں میں ویسی قوت پیدا کردے گا کہ جس سے اہل ایمان حسب مراتب خدا تعالیٰ کو دیکھ سکیں گے انتہی۔
Top