Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 151
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ١ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں تَعَالَوْا : آؤ اَتْلُ : میں پڑھ کر سناؤں مَا حَرَّمَ : جو حرام کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب عَلَيْكُمْ : تم پر اَلَّا تُشْرِكُوْا : کہ نہ شریک ٹھہراؤ بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کوئی وَّبِالْوَالِدَيْنِ : اور والدین کے ساتھ اِحْسَانًا : نیک سلوک وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد مِّنْ : سے اِمْلَاقٍ : مفلس نَحْنُ : ہم نَرْزُقُكُمْ : تمہیں رزق دیتے ہیں وَاِيَّاهُمْ : اور ان کو وَلَا تَقْرَبُوا : اور قریب نہ جاؤ تم الْفَوَاحِشَ : بےحیائی (جمع) مَا ظَهَرَ : جو ظاہر ہو مِنْهَا : اس سے (ان میں) وَمَا : اور جو بَطَنَ : چھپی ہو وَلَا تَقْتُلُوا : اور نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : جو۔ جس حَرَّمَ : حرمت دی اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر حق پر ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ : تمہیں حکم دیا ہے بِهٖ : اس کا لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لو (سمجھو)
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں ( ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے (بد سلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا (کیونکہ) تم کو اور ان کو ہمیں رزق دیتے ہیں۔ اور بےحیائی کا کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا۔ اور کسی جان (والے کو) جس کے قتل کو خدا نے حرام کردیا ہے قتل نہ کرنا۔ مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں تاکید فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
بیان اصول محرمات دربارۂ اقوال وافعال وتلقین مکارم اخلاق و محاسن اعمال قال اللہ تعالیٰ قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم۔۔۔ الی۔۔۔ قل انتظروا انا منتظرون (ربط) گذشتہ آیات میں جب حق تعالیٰ کافروں کی حرام کردہ چیزوں کو باطل کرچکے اور کھانے اور پینے کے متعلق جو چیزیں من جانب اللہ حرام تھیں ان کا ذکر ہوچکا تو اب ان آیات میں ان حرام چیزوں کو بیان کرتے ہیں جو اقوال اور افعال سے متعلق رہیں ان آیتوں میں بالترتیب دس چیزوں کو ذکر فرمایا جن میں اللہ نے معاش اور معاد کی صدہا حکمتیں رکھی ہیں۔ 1 ۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ 2 ۔ ماں باپ کے ساتھ سلوک اور احسان کرو اور ان کے ساتھ برائی نہ کرو 3 ۔ اپنی اولاد کو فقر اور تنگ دستی کے خیال سے قتل نہ کرو۔ 4 ۔ بےحیائیوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ 5 ۔ کسی کا ناحق خون نہ کرو۔ 6 ۔ یتیموں کے مال میں ناحق تصرف نہ کرو۔ 7 ۔ ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ 8 ۔ ناانصافی کی بات نہ کہو۔ 9 ۔ اللہ کے عہد کو پورا کرو خلاف عہد کوئی کام نہ کرو۔ 10 ۔ صراط مستقیم کا اتباع کرو سیدھے راستہ سے ہرگز نہ ہٹو۔ اس کے بعد اجمالاً یہ ارشاد فرمایا کہ آپ ﷺ ان مشرکین سے یہ کہدیجئے کہ یہ میرا طریقہ ہے اور میرا راستہ ہے جو بالکل سیدھا ہے اس کا اتباع کرو یہی خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے پھر اخیر میں توریت کا ذکر فرمایا کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تفصیل کردی ہے اشارہ اس طرف ہے کہ جن چیزوں کی حرمت اوپر بیان ہوئی کچھ شریعت محمدیہ کے ساتھ مخصوص نہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں بھی یہ چیزیں حرام تھیں بلکہ تمام انبیاء کی شریعتوں میں یہ چیزیں حرام رہی ہیں اور جو اس طریق مستقیم سے اعراض اور انحراف کرے وہ بڑی ہی ظالم ہے چناچہ فرماتے ہیں آپ ﷺ ان مشرکین سے کہدیجئے کہ تم ناحق خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے ہو کہ خدا نے فلاں فلاں چیز حرام کی ہے آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے واقعی تم پر حرام فرمایا ہے وہ چیزیں یہ ہیں (اول) یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤپس شریک ٹھہرانا حرام ہوا اور (دوسرے) یہ کہ ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو پس ان سے بری طرح پیش آنا حرام ہوا اور (تیسرے) یہ کہ اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کیا کرو زمانۂ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو زندہ درگور کردیتے تھے کیونکہ ہم تم کو اور ان کو رزق مقدر دیں گے وہ تمہارے رزق مقدر میں شریک نہیں پس اولاد کا قتل کرنا حرام ہوا اللہ سب کو روزی دیتا ہے لہٰذا ا تم اللہ پر بھروسہ رکھو اور (چوتھے) یہ کہ بےحیائی یعنی بدکاری کی باتوں کے پاس بھی نہ کجاؤ خواہ وہ بےحیائی علانیہ ہو یا پوشیدہ ہر بےحیائی حرام ہے خواہ لوگوں کو اس کا علم ہو یا نہ ہو اور (پانچویں) یہ کہ جس کا خون کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل مت کرو مگر حق شرعی کی بنا پر اس کا قتل جائز ہے مثلا قصاص یا رجم میں یا ارتداد میں بس قتل ناحق حرام ہوا اور سب کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم ان کو سمجھو اور سمجھ کر عمل کرو اور (چھٹے) یہ کہ یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ یعنی اس میں بیجا تصرف نہ کرو مگر ایسے طریقہ سے تصرف کی اجازت ہے جو شرعاً بہت اچھا ہو۔ یعنی اس کی اصلاح اور اس کے بڑھانے کی نیت سے اس میں تصرف کرو یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے اس کے بعد اس کا مال اس کو دے دیا جائے۔ بشرطیکہ سفیہ یعنی بیوقوف نہ ہو پس تصرف غیر مشروع مال یتیم میں حرام ہوا اور (ساتویں) یہ کہ ناپ اور تول پوری پوری کیا کرو انصاف کے ساتھ نہ کسی کو کم کردو اور نہ کسی سے زیادہ لو نہ کسی کا حق اپنے پاس رہے نہ آئے۔ پس آپس میں دغا کرنا حرام ہوا اور آگے بتلاتے ہیں کہ یہ احکام کچھ دشوار نہیں کیونکہ ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے پھر ان احکام مذکور میں کوتاہی کی کیا وجہ ہے اور (آٹھویں) یہ کہ جب تم فیصلہ یا شہادت وغیرہ کے متعلق کوئی بات کہو تو اس میں انصاف کا خیال رکھو گو وہ شخص جس کے مقابلہ میں وہ بات کہہ رہے ہو قرابت دار ہی کیوں نہ ہو مطلب یہ ہے کہ حق کے مقابلہ میں رشتہ داروں کی رعایت نہ کرو سچ سچ بیان کرو خواہ کسی کا نفع ہو یا نقصان پس خلاف عدل حرام ہوا اور (نویں) یہ کہ اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا کرو جیسے قسم اور نذر اس کو پورا کیا کرو بشرطیکہ وہ نذر اور قسم خلاف شرع نہ ہو پس اس کا عدم یافاء یعنی نقض عہد حرام ہوا ان سب باتوں کی اللہ نے تم کو وصیت کی ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور اس پر عمل کرو اور (دسویں) یہ کہ تحقیق یہ دین اسلام میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس پر چلو مجھ تک پہنچ جاؤ گے لفظ ہذا کا اشارہ پورے دین اسلام کی طرف ہے جو احکام مذکورہ کے ضمن میں اجمالا مفہوم ہوچکا ہے اس لیے کہ یہ احکام مذکورہ گو ظاہر میں چند احکام ہیں مگر حقیقت میں سارے اسلام کا خلاصہ ہیں کیونکہ ان میں عقائد اور معاملات اور معاشرات اور عبادات کے لیے مہتم بالشان امور سب مذکور ہیں اور اہتمام کی وجہ یہ ہے کہ یہ احکام کسی شریعت میں کبھی منسوخ نہیں ہوئے اس طرح یہ چند احکام گویا تمام شریعت کا خلاصہ ہیں ان عقائد اور اعمال کا ذکر بطور تخصیص نہیں بلکہ بطور تمثیل ہے اور مقصود صراط اسلام کا اتباع ہے جو تمام اصول و فروع کو حاوی ہے۔ نکتہ 1 ۔ اس آیت وان ھذی صراطی میں لفظ صراط کو نبی اکرم ﷺ کی طرف مضاف فرمایا اور حضور کو حکم ہوا کہ لوگوں سے کہ دیں کہ یہ میرا راستہ ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ راستہ تو حقیقت میں اللہ کا ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے وانک لتھدی الی صراط مستقیم۔ صراط اللہ الذی لہ ما فی السموات وما فی الارض مگر خدا تعالیٰ کے راستہ کے داعی اور ہادی حضور پر نور ﷺ ہی ہیں آپ ﷺ ہی کی ہدایت اور رہنمائی سے یہ راستہ طے ہوتا ہے اس لیے اس آیت میں صراط کو حضور پر نور ﷺ کی طرف مضاف کردیا گیا جیسا کہ دوسری آیت میں دین اسلام کو حضور پرنور ﷺ کا راستہ کہا گیا ہے قل ہذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی اور اسلام کو حضور پرنور ﷺ کا راستہ کہنا بطوردعوت اور ہدایت کے ہے کہ آپ اس راستہ کے داعی اور ہادی ہیں ورنہ حقیقت میں وہ صراط اللہ کا ہے دوسرا فائدہ اس اضافت میں یہ ہے کہ سالکان راہ آخرت کو تسلی دینا مقصود ہے کہ تم گھبرانا نہیں میں بھی اسی راستہ پر چل رہا ہوں اور اسی راستہ پر چل کر ہم سب خدا تعالیٰ تک پہنچیں گے مگر شرط یہ ہے کہ تم سب میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ میرے بغیر خدا کا راستہ قطع نہیں ہوسکتا۔ بےرفیقے ہر کہ شد در راہ عشق عمر بگذشت ونشد آگاہ عشق گر ہوائے ایں سفر داری ولا دامن رہبر بگیر وپس برآ نکتہ 2: اور مستقیما کے معنی یہ ہیں کہ یہ راستہ سیدھا ہے لفظ مستقیم کے معنی ایک لغوی ہیں یعنی اقصر الخطوط الواصلۃ بین النقطتین (دو نقطوں کے درمیان جو خطوط واصل ہوسکیں ان میں جو سب سے چھوٹا خط ہو وہ معنی لغوی کے اعتبار سے خط مستقیم ہے) اور ایک معنی عرفی ہیں یعنی بےخوف وخطر راستہ۔ عرف میں راہ راست اس راستہ کو کہتے ہیں جس میں کوئی خطرہ نہ ہو جیسے کہا کرتے ہیں کہ فلاں گاؤں کا سیدھا راستہ یہ ہے اس راستہ سے چلے جاؤ حالانکہ اس میں موڑ بھی آتے ہیں مگر مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ راستہ بےخطر ہے اس میں تم کو غلطی پیش نہ آئے گی صاف سرک پڑی ہوئی ہے اور یہی عرفی معنی اس شعر میں مراد ہیں ع راہ راست کبرو گرچہ دور است اگر راہ راست کے عرفی معنی نہ لیے جائیں تو پھر لفظ اگرچہ " دور است " صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ جو راستہ لغۃ مستقیم ہوگا وہ اوروں سے دور نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے اقصر الطرق ہونا لازم ہے جن لوگوں کو مستقیم کے لغوی اور عرفی معنی میں فرق معلوم نہیں وہ اس شعر کو حل نہیں کرسکتے۔ اب آیت کا مطلب سنئے کہ دین اسلام کے متعلق مستقیما کے دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں کیونکہ دین اسلام بےخطر بھی ہے اور وصول الی اللہ میں تمام طرق سے اقصر اوراقرب بھی ہے آپ کو اختیار ہے کہ مستقیما کو معنی لغوی پر محمول کریں یا معنی عرفی پر دونوں معنی کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ صرف اس سیدھے راستہ (دین اسلام) کا اتباع کرو اور دوسرے مختلف راستوں کا اتباع نہ کرو ورنہ وہ تم کو خدا کے راستہ سے دور اور جدا کردیں گے یعنی دین اسلام کے سوا جتنے راستے ہیں سب ٹیڑھے ہیں ان کا رخ دوسرا ہے دین اسلام کو چھوڑ کر جو راستہ بھی اختیار کرو گے تو خدا تک نہیں پہنچ سکو گے اسی کی یعنی اسی راستہ پر چلنے کی خدا تعالیٰ نے تم کو وصیت کی ہے یعنی تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم تقوی حاصل کرسکو اس لیے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری کو چھوڑ دینا یہ حرام ہے اس اعتبار سے یہ دواں حکم ہوا یا یوں کہو کہ دسواں حکم استقامت ہے یعنی احکام شریعت پر مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہنا اور وان ھذا صراطی مستقیما میں اسی حکم استقامت کی طرف اشارہ ہے۔ : جاننا چاہیے کہ ہذ صراطی مستقیما میں صراط سے وہ تمام اعمال مراد ہیں جو معین آخرت اور مفید مقصود ہوں اور لاتتبعوا السبل میں وہ تمام اعمال مراد ہیں جو مانع عن الاخرت یا مضر آخرت ہوں گویا کہ یہ آیت تمام شریعت کا خلاصہ ہے نکتہ : : اس جگہ قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم سے لے کر وان ھذا صراطی مستقیما تک تین آیتیں ہیں اور ہر آیت کے ختم پر حق تعالیٰ نے ذلکم وصکم بہ فرمایا لیکن پہلی آیت کے اخیر میں تو ذلکم وصکم بہ لعلکم تعقلون فرمایا اور دوسری آیت کے ختم پر ذلکم وصکم بہ لعلکم تذکرون اور اس تیسری آیت کے اخیر میں ذلکم وصکم بہ لعلکم تتقون فرمایا اب سوال یہ ہے کہ ان عنوانات کے اختلاف میں نکتہ کیا ہے (جواب) یہ ہے کہ پہلی آیت میں جن پانچ امور کا ذکر ہے ان میں بجز احسان والدین اعتقادی امور کا ذکر ہے اس لیے اعتقادی امور کی غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے لعلکم تعقلون فرمایا کیونکہ اعتقادیات کا تعلق زیادہ تر عقل سے ہے اور دوسری آیت میں مخاطبین کی کسی اعتقادی غلطی کا ذکر نہ تھا بلکہ وہ احکام عمل کے متعلق ہیں جنہیں وہ سہو اور تغافل کرتے تھے اس لیے وہاں تذکرون کا لفظ مناسب ہوا اور تیسری آیت میں کسی خاص حکم کا بیان نہیں بلکہ حکم عام ہے یعنی صراط مستقیم کی اتباع کا حکم ہے اس لیے وہاں تتقون کا لفظ مناسب ہوا کیونکہ تقوی بھی شرعاً عام ہے جس کا تعلق عقائد اور اعمال سب سے یکساں ہے۔ تاکید وصایا مذکورہ گذشتہ آیات میں جن احکام اور وصیتوں کا ذکر فرمایا اب آیندہ آیت میں اس کی مزید تاکید کے لیے فرماتے ہیں کہ یہ وصیتیں اور یہ احکام موسیٰ (علیہ السلام) کے توریت میں بھی تھے چناچہ فرماتے ہیں کہ یہ وصیتیں اور یہ احکام موسیٰ (علیہ السلام) کے توریت میں بھی تھے چناچہ فرماتے ہیں پھر ہم نے موسیٰ کو ایک کتاب دی تاکہ اپنی نعمت کو اس شخص پر پورا کریں جو نیکی کرے اور اس میں ہر ضروری امر کی تفصیل ہو اور لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہو تاکہ وہ لوگ یعنی بنی اسرائیل اپنے پروردگار کی ملاقات کا تعین کریں اور اس اعتقاد اور یقین کی بناء پر احکام خداوندی کو بجا لائیں مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے توریت نازل فرما کر اس زمانہ کے نیک کام کرنے والوں پر اپنی نعمت پوری کردی اور ہر ضروری امر کو شرح وبسط سے بیان کردیا اور ہدایت اور رحمت کے دروازے ان پر کھول دئیے تاکہ لقاء خداوندی کا یقین حاصل کریں اور شوق لقاء میں جس قدر طاعت میں جدوجہد کرسکیں اس میں دریغ نہ کریں اور توریت کا تتمہ انجیل تھیں اس میں بھی یہ ہدایتیں اور وصیتیں تھیں اور اب توریت اور انجیل کے بعد یہ قرآن مجید ایک کتاب ہے جس کو ہم نے آپ ﷺ پر نازل کیا ہے بڑی خیر و برکت والی ہے خیر و برکت میں توریت اور تمام صحف سماویہ سے بڑھ کر ہے پس تم اس کا اتباع کرو اور کسی اور کتاب کے اتباع سے پرہیز کرو کیونکہ قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے اور تمام کتب سابقہ کے لیے ناسخ ہے پس تم اسی کتاب کا اتباع کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے خدا کی رحمت اور تقویٰ کا حصول ناسخ پر عمل کرنے پر موقوف ہے منسوخ پر عمل کرنے سے نہ خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور نہ تقویٰ حاصل ہوتا ہے اور توریت وانجیل کے بعد ہم نے اس مبارک کتاب (قرآن کریم) کو اس لیے بھی نازل کیا کہ مبادا قیامت کے دن تم یہ کہنے لگو کہ آسمانی کتاب تو ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے۔ یہود اور نصاری ان پر اتاری گئی تھی اور بیشک ہم ان کے پڑھنے سے بیخبر تھے اس لیے ہم کو احکام خداوندی کا علم نہ ہوا پس ہم کیسے اطاعت کرسکتے تھے پس ہم معذور ہیں یعنی قرآن کریم کے نازل کرنے سے علاوہ برکت اور رحمت کے ایک غرض اتمام حجت ہے تاکہ تم قیامت کے دن یہ عذر نہ کرسکو کہ توریت وانجیل ہماری زبان میں نہ تھی اور ہماری زبان میں نہ تھی اور ہم ان کے مطالب کو سمجھ نہیں سکتے تھے یا قیامت کے دن یہ کہنے لگو کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی جاتی تو ہم یہود ونصاری سے زیادہ ہدایت پر ہوتے سو اب تمہارے دونوں عذر کتم کرنے کے لیے تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن حقیقت اور ہدایت اور رحمت آچکی ہے جو تمام کتب الٰہیہ سے بہتر اور برتر ہے اب تمہارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو ہم نے تمہاری زبان میں اس لیے بھی نازل کیا کہ تمہیں کسی عذر کا موقعہ ہی باقی نہ رہے کہ اگر ہماری زبان میں خدا کی کتاب اترتی تو ہم اس کا خوب اتباع کرتے اگرچہ ان کا یہ عذر کہ ہم توریت اور انجیل کی لغت سے واقف نہیں عذر لنگ ہے لیکن اللہ نے یہ عذر بھی باقی نہیں چھوڑا اور حجت پوری کردی پس ایسی شافی اور کافی کتاب ہدایت و رحمت کے آجانے کے بعد اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے منہ موڑا عنقریب ہم ان لوگوں کو بہت برے عذاب کی سزا دیں گے جو ہماری آیتوں سے روگردانی کرتے ہیں اس سبب سے کہ وہ اعراض کرتے ہیں خدا کی آیتوں سے اعراض اور روگردانی بڑا ہی ظلم ہے کیا یہ لوگ جو کتاب مبارک کے نازل ہوجانے اور آیات بینات کے آجانے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے صرف اس بات کے منتظر معلوم ہوتے ہیں کہ ان کے پاس قبض روح یا عذاب کے فرشتے آئیں اور مار مار کر ان کی روحیں قبض کریں کما قال تعالیٰ ولو تری اذ یتوفی الذین کفروا الملئکۃ یضربون وجوھھم وادبارھم وذوقوا عذاب الحریق یا یہ معنی ہیں فرشتے ان کے روبرو آکر آپ کی نبوت و رسالت کی گواہی دیں یا ان کی لاکت اور بربادی کے لیے خدا کا کوئی حکم آجائے کما قال تعالیٰ ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملئکۃ او یأتی امر ربک کذلک فعل الذین من قبلھم وما ظلمھم اللہ ولکن کانوا انفسھم یظلمون وقال تعالیٰ فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا آنا مراد ہے جو ان کے قہر اور ہلاکت سے متعلق ہو یا یہ مطلب کہ اللہ تعالیٰ خود ان کے سامنے آجائے اور ان سے بالمشافہ یہ کہے کہ واقعی یہ ہمارے رسول ہیں اور یہ ہماری کتاب ہے کما قال تعالیٰ لولا انزل علینا الملئکۃ او نری ربنا او تأتی باللہ والملئکۃ قبیلا یا یہ مطلب ہے کہ کفار قیامت کے دن کے منتظر ہیں جس دن خدا تعالیٰ کا جلوۂ جلال ابر کے سائبانوں میں ظاہر ہوگا جیسا کہ سورة بقرہ میں ھل ینظرون الا ان یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام کی تفسیر میں گذرا یا تیرے پروردگار کی بعض نشانیاں آئیں جمہور مفسرین کے نزدیک بعض ایات ربک سے سورج کا مغرب سے طلوع کرنا مراد ہے اور یہی تفسیر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ھل ینظرون سے لے کر یہاں تک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی حجت پوری ہوچکی ہے اور کافروں کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا شاید اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ خود ان کے سامنے آئے یا اس کا قہر اور اس کا کوئی عذاب ان کے سامنے آئے یا عذاب کے فرشتے ان کے پاس آئیں یا قیامت کی کوئی بڑی شنانی ظاہر ہو جیسے طلوع الشمس من المغرب شاید جب ان تین باتوں میں سے کوئی بات ظاہر ہوجائے گی اس وقت یہ مجبور ہو کر ایمان لائیں گے مگر اس وقت کا ایمان مفید نہ ہوگا جیسا کہ آیندہ آیت میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جس دن تیرے پروردگار کی بعض نشانیاں آجائیں گی اس دن کسی ایسے شخص کو ایمان لانا نفع نہیں دے گا جو اس نشانی سے پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا جس شخص نے اپنے ایمان کی حالت میں نیکی نہ کمائی ہوگی اس کو اس دن اپنے ایمان میں نیکی کا کمانا مفید نہ ہوگا مطلب یہ ہے کہ جو شخص پہلے سے ایمان نہیں رکھتا ہوگا اس کا اس نشانی کو دیکھ کر اب ایمان لانا نافع نہ ہوگا اور جو شخص اس نشانی کے ظہور سے پہلے ایمان تو رکھتا تھا مگر اس نے پہلے سے کسب خیر اور عمل صالح نہ کیا تھا تو اس نشانی کو دیکھ کر اس کا توبہ کرنا اور کسب خیر کرنا قبول نہ ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ اس نشانی کے ظہور کے بعد نہ کسی کا جدید ایمان قوبل ہوگا اور نہ اس کی توبہ قبول ہوگی البتہ جو لوگ اس نشانی کے ظہور سے پہلے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کرتے تھے ان کے اعمال مقبول ہوں گے اس لیے کہ ان نشانیوں کے ظاہر ہوجانے کے بعد ایمان ایمان بالغیب نہیں رہے گا ایمان بالمشاہدہ ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ ایمان بالغیب چاہتا ہے اے نبی آپ ﷺ ان سے کہدیجئے کہ اچھا اگر تمہیں انہی باتوں کا انتظار ہے تو یہی سہی انہی باتوں کا انتظار کرو اور ایمان نہ لاؤ ہم بھی تمہارے بارے میں حکم خداوندی کے منتظر ہیں اس انتظار میں ہمارا کوئی نقصان نہیں تمہارا ہی نقصان ہے۔ فائدہ : اشراط ساعت یعنی علامات قیامت میں سے ایک بڑی شرط یعنی بڑی علامت آفتاب کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا ہے آیت مذکورہ ھل ینظرون الا ان تأتیھم الملئکۃ او یاتی ربک او یاتی بعض آیت ربک میں بعض آیات سے آفتاب کا مغرب کی جانب سے نکلنا مراد ہے اور یہ امر احادیث صحیحہ سے معلوم اور ثابت ہے آیات سماوی میں پہلی آیت مغرب سے آفتاب کا نکلنا ہے یعنی پہلی آیت (نشانی) جو اختلال نظام افلاک وستارگاں سے مشاہدہ ہوگی وہ یہ آیت (نشانی) ہے کہ آفتاب بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع کرے گا اس وقت ایمان لانا مفید نہ ہوگا قیامت کی آسمانی علامتوں میں سے پہلی علامت مغرب سے افتاب کا طلوع ہونا ہے اور یہ علامت خروج دجال اور نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ظاہر ہوگی اور اس کے بعد دابۃ الارض کا زمین سے پیدا ہونا یہ زمینی علامتوں میں سے پہلی علامت ہوگی اور دابۃ الارض کا زمین سے نکلنا اور آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا قریب قریب ہوگا۔ تنبیہ : آفتاب کا مغرب سے طلوع کرنا عقلاً محال نہیں جو خدا آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے وہ اس کو مغرب سے بھی نکالنے پر قادر ہے جس طرح آفتاب کا نفس وجود اس کے ارادہ سے ہے اسی طرح اس کی حرکت بھی اس کے ارادہ سے ہے۔
Top