Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو۔ جس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قرار فرمایا عَلَي : پر الْعَرْشِ : عرش يُغْشِي : ڈھانکتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن يَطْلُبُهٗ : اس کے پیچھے آتا ہے حَثِيْثًا : دوڑتا ہوا وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند وَالنُّجُوْمَ : اور ستارے مُسَخَّرٰتٍ : مسخر بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم سے اَلَا : یاد رکھو لَهُ : اس کے لیے الْخَلْقُ : پیدا کرنا وَالْاَمْرُ : اور حکم دینا تَبٰرَكَ : برکت والا ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر ٹھہرا۔ وہی دن کو رات کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔ سب اسی کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے یہ خدائے رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔
ذکر تخلیق عالم برائے اثبات ربوبیت والوہیت برائے اثبات قیامت قال اللہ تعالیٰ ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض۔۔۔ الی۔۔۔ کذلک نصرف الایت لقوم یشکرون (ربط) گزشتہ آیات میں معاد اور جزاء وسزا کا بیان تھا جسکا مشرکین انکار کرتے تھے اب ان آیات میں تخلیق عالم کا ذکر فرماتے ہیں جو حق جل شانہ کی ربوبیت اور الوہیت اور کمال قدرت کے دلائل پر مشتمل ہے جس کو سماوات اور ارضین کی تخلیق سے شروع فرمایا اور بارش اور ارض میتتہ کی حیات یعنی مردہ زمین کی زندگی پر کلام کو ختم فرمایا کہ بارش سے کس طرح زمین زندہ ہوجاتی ہے جس سے مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر استدلال فرمایا اور یہ فرمایا۔ کذلک نخرج الموتی لعلکم تزکرون۔ تاکہ منکرین حشر کا استبعاد رفع ہوجائے اور اس کے بعد بعض مشہور پیغمبروں کے حالات اور واقعات ذکر فرمائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ انبیاء کرام کی تصدیق اور تکذیب کا قیامت کے آنے سے پہلے ہی دنیا میں کیا انجام ہوا تقریبا پارہ نہم کے نصف تک یہی مضمون چلا گیا ہے غرض یہ کہ ان آیات میں اولاً مبداء اور معاد کے دلائل کو بیان کیا اور بعد ازاں حضرات انبیاء کے واقعات سے دلائل نبوت اور براہین رسالت کو بیان فرمایا اور اسی طرح توحید اور رسالت اور قیامت کا بیان یکے بعد دیگرے اخیر سورت تک چلا گیا تاکہ ان خاسرین پر جنہوں نے اپنے دین کو لہو ولعب بنا رکھا ہے ( جیسا کہ ان اللہ حرمھما علی الکافرین الذین اتخذوا دینھم لھوا ولعبا۔ میں گزرا) سعادت اور شقاوت فلاح اور خسران کی حقیقت واضح ہوجائے چناچہ فرماتے ہیں تحقیق اے لوگو حقیقت میں تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ان مشرکین نے جو شرکاء اور ارباب تراش رکھے ہیں ان میں کوئی بھی تمہارا رب نہیں انہوں نے آسمان اور زمین کا کوئی ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ یہ چھ دن یہ ہیں یکشنبہ دو شنبہ سہ شنبہ چہار شنبہ پنجشنبہ، جمعہ اور جمعہ کے دن حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ہفتہ کے دن کوئی چیز پیدا نہیں کی یہ دن پیدائش سے خالی رہا اسی وجہ سے اس دن کو یوم سبت کہتے ہیں سبت کے معنی قطع کے ہیں یعنی اس دن آفرینش منقطع ہوچکی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اتنی مدت اور اتنے وقت میں پیدا کیا جو دنیا کے چھ دنوں کے برابر تھا کیونکہ زمین اور آسمان کی پیدائش سے پہلے یہ متعارف دن اور رات ہی نہ تھے کہ جو طلوع آفتاب سے غروب تک اور غروب سے طلوع آفتاب تک ہے اور بعضوں نے کہا کہ اس سے آخرت کے دن مراد ہیں کہ ہر دن ہزار سال کا ہے۔ کما قال تعالیٰ وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون اور پہلا ہی قول صحیح ہے (ماخوذ از موضح القرآن للشاہ عبدالقادر الدہلوی (رح) تعالیٰ ) اس پر زمانہ حال کے بعض فلاسفہ اعتراض کرتے ہیں کیونکہ ان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ کائنات آہستہ آہستہ اور بتدریج لاکھوں اور کروڑوں برس میں پیداہوئی ہے لیکن یہ تحقیق خود مشکوک ہے جس پر کوئی دلیل نہیں مگر جو لوگ یورپ کی تقلید پر مٹے ہوئے ہیں وہ تو اس کو وحی آسمانی سے بھی زیادہ سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی خبر کہ ا آسمان اور زمین چھ دن میں پیدا ہوئے اس کو غلط سمجھتے ہیں حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو خبر دی ہے وہ حق اور صدق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کے بعد بیشمار مخلوق اور اس کے ارادہ اور قدرت سے پیدا ہوئی اور جب تک چاہے گا پیدا ہوتی رہے گی اور یہ خیال کہ کائنات عالم آہستہ آہستہ اور بتدریج لاکھوں اور کروڑوں برس میں پیدا ہوئی۔ یہ خیال خام ان دھریوں کا ہے کہ جو خدا کے منکر ہیں اور سلسلۂ عالم عالم کو قدیم اور ازلی مانتے ہیں اور یہ بالکل غلط ہے تمام انبیاء ومرسلین کا اس پر اجماع ہے کہ تمام عالم حادث ہے خدا تعالیٰ کے ارادہ اور قدرت سے عدم کے پردہ سے نکل کر وجود میں آیا ہے پھر بعد ازاں اللہ تعالیٰ بلا کسی نقل و حرکت کے عرش پر بلا کسی حلول اور بلا تمکن اور بلا استقرار کے قائم ہوا جیسا قیام اس کی شان کے لائق اور مناسب تھا اور حکمرانی شروع کی اور علویات اور سفلیات میں اپنی تدبیر اور تصرف اور احکام کو جاری فرمایا جیسا کہ دوسری جگہ ثم استوی علی اعرش کے بعد یدبر الامر وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں جو استواء علی العرش کی تفسیر ہیں۔ اور یہود بےبہبود یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین پیدا کرنے کے بعد تھک گیا اور درماندگی کی وجہ سے عرش پر لیٹ گیا تمام اہل اسلام کا اجتماعی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی نہایت ہے اور نہ اس کے لیے کوئی مکان اور سمت اور جہت ہے اس کی ہستی، سمت اور جہت اور مکان اور زمان کے قیود اور حدود سے پاک اور منزہ ہے اس کی ہستی کسی زمان یا مکان کی ہستی پر موقوف نہیں بلکہ مکان اور زمان کی ہستی اس کی ایجاد اور تکوین پر موقوف ہے کیونکہ جب مکان وزمان موجود نہ تھے وہ اس وقت بھی تھا اور اب جبکہ زمان اور مکان موجود ہیں تب بھی موجود ہے وہ خداوند ذوالجلال زمین اور آسمان اور عرش اور کرسی کے پیدا کرنے سے پہلے جس صفت اور شان پر تھا اب بھی اسی صفت اور شان پر ہے۔ معاذ اللہ عرش عظیم خداوند کریم کا حامل نہیں کہ خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے یا تھامے ہوئے ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور رحمت عرش کو اٹھائے ہوئے اور تھامے ہوئے ہے وہ ذرہ برابر کسی عرش اور فرش کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں معلوم ہوا کہ استواء علی العرش سے عرش پر بیٹھنا اور متمکن اور مستقر ہونا مراد نہیں بلکہ کائنات عالم کے تدبیر اور تصرف کی طرف متوجہ ہونامراد ہے اور یہ جملہ (یعنی استواء علی العرش) قرآن کریم میں سات جگہ آیا ہے ایک تو یہ جگہ کہ آپ کے سامنے ہے دوم سورة یونس میں سوم سورة رعد میں چہارم سورة طہ میں پنجم سورة فرقان میں ششم سورة سجدہ میں ہفتم سورة حدید میں اور سب جگہ اس کی شان شہنشاہی اور تدبیر اور تصرف کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہی سارے عالم کا خالق ہے اور وہی تمام کائنات کا مدبر اور ان میں متصرف ہے یہی فی الحقیقت تمہارا رب ہے جس کا حکم آسمانوں اور زمینوں میں جاری ہوتا ہے۔ متشابہات : اور اس قسم کی تمام آیتیں اور حدیثیں جن سے بظاہر یہ وہم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی مکان یا جہت میں ہے جیسے آیات استواء علی العرش اور احادیث نزول باری تعالیٰ اس قسم کی آیات اور احادیث کو متشابہات کہتے ہیں ان کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے۔ فرقۂ مجسمیہ اور مشبہہ اور کر امیہ : اس قسم کی آیات اور احادیث کو ظاہری اور حسی معنی پر محمول کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ استواء علی العرش کے معنی تخت پر بیٹھنے کے ہیں اور جس طرح دنیا کا بادشاہ تخت پر بیٹھتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہے اس گروہ کے نزدیک استواء کے معنی تمکن اور استقرار اور قعود کے ہیں ظاہر پرست اس قسم کے الفاظ کو ظاہری اور عرفی معنی میں لیکر خدا تعالیٰ کے لیے عرش (تخت) پر بیٹھنا ثابت کرتے ہیں۔ اہل حق : اہل حق یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک اور منزہ ہے کہ وہ کسی عرش اور تخت پر یا کسی جسم پر متمکن اور مستقر ہو یعنی جس طرح کسی بادشاہ کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ تخت پر بیٹھا ہوا ہے یا ایک چارپائی پر بیٹھا ہوا ہے مگر خدا تعالیٰ کو ایسا کہنا ہرگز جائز نہیں۔ کیونکہ اگر (ا) خدا تعالیٰ کسی جسم اور محل پر متمکن اور مستقر ہو تو اس کا مقداری ہونا لازم آئے گا کیونکہ جو چیز کسی جسم پر متمکن ہوتی ہے وہ یا تو اس سے بڑی ہوتی ہے یا چھوٹی ہوتی ہے یا برابر ہوتی ہے اور کمی اور بیشی اور مساوات کے ساتھ وہی شئے موصوف ہوسکتی ہے جو مقداری ہو اور اللہ تعالیٰ کمیت اور کیفیت اور مقدار سے پاک اور منزہ ہے (2) نیز جو چیز کسی مکان یا جہت میں ہوگی وہ محدود اور متناہی ہوگی اور اطراف اور جوانب میں محصور ہوگی اور جو محدود اور محصور ہے وہ مخلوق اور حادث ہے (3) نیز خدا تعالیٰ فرماتے ہیں وھو اللہ فی السموات وفی الارض وھو معکم اینما کنتم سو ان آیات کو اگر ظاہری معنی پر محمول کیا جائے کہ خدا کی ذات ہر مکان میں موجود ہے اور تمام آسمانوں اور زمینوں میں موجود ہے تو یہ آیتیں استواء علی العرش کی آیت کے معارض پڑیں گی اس لیے کہ جب خدا کی ذات آسمان اور زمینوں میں موجود ہے تو یہ آیتیں استواء علی العرش کی آیت کے معارض پڑیں گی اس لیے کہ جب خدا کی ذات آسمان اور زمین میں ہر جگہ موجود ہے تو عرش کی خصوصیت باطل ہوئی (4) نیز حدیث میں آیا ہے ینزل اللہ کل لیلۃ الی سماء الدنیا۔ خدا تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اگر اس حدیث کو اپنے ظاہر پر محمول کیا جائے تو لازم آئیگا کہ معاذ اللہ خدا تعالیٰ کبھی عرش پر بیٹھتا ہے اور کبھی نیچے اترتا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ حق تعالیٰ نقل و حرکت سے پاک اور منزہ ہے (5) اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین پر نمازی کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے کیا کوئی موحد اس بات کی جرأکر سکتا ہے کہ اس حدیث کو ظاہری معنی پر محمول کرے۔ معاذ اللہ کیا خدا تعالیٰ کبھی عرش پر بیٹھتا ہے اور کبھی آسمان دنیا پر اترتا ہے اور کبھی نمازی کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے جسکا اہل اسلام میں سے کوئی بھی قائل نہیں (6) بیشمار آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے حق تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس صراحۃ ً ثابت ہے اور تمام انبیاء ومرسلین اپنی اپنی امتوں کو ایمان تنزیہی ہی کی دعوت دیتے چلے گئے ایمان تشبیہی وتمثیلی اور اسلام تجسیمی ومقداری کی کسی نبی نے دعوت نہیں دی (8) اور اسی پر تمام صحابہ وتابعین اور سلف اور خلف کا اجماع ہے (9) اور خدا تعالیٰ کا مکان اور جہت سے پاک اور منزہ ہونا دلائل عقلیہ اور قطعیہ سے ثاب ہے (10) اور شریعت کے مسلمات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے نہ کوئی مکان ہے اور نہ کوئی زمان ہے اور نہ کوئی حد اور نہایت ہے اس خداوند قدوس کی ذات والا صفات مکان اور جہت اور سمت سے مبرا ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ مکان اور جہت کو اسی نے پیدا کیا ہے وہ مکان کے پیدا کرنے سے پہلے بغیر مکان کے تھا۔ بعد میں اس نے اپنی قدرت سے مکان اور جہت کو پیدا کیا۔ پس جس صفت اور شان پر وہ مکان اور جہت کے پیدا کرنے سے پہلے تھا پیدا کرنے کے بعد بھی وہ اسی صفت اور شان پر ہے ہو الاول والاخر۔ متشابہات میں سلف اور خلف کے مسلک کی تشریح لہذا اس قسم کی آیات متشابہات جن سے مکان یا جہت یا تشبیہ اور تمثیل کا شبہ ہوتا ہو سلف اور خلف کے نزدیک بالاجماع ان سے ظاہری اور حسی معنی مراد نہیں اور کلام کو اپنے ظاہر سے ہٹانا اور پھیرنا اسی کا نام تاویل ہے کیونکہ تمام آیتیں اور حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ مکان اور جہت اور سمت سے پاک ہے اور یہ تمام کی تمام نصوص صریحہ اور قطعیہ ہیں اور محکمات ہیں اور شریعت کے مسلمات ہیں جن میں تاویل کی ذرہ برابر گنجائش نہیں اور آیات متشابہات جن سے مکان اور جہت کا شبہ ہوتا ہے وہ ظنی الدلالت ہے لہذا ان میں تاویل کی جائے گی تاکہ قطعیات اور محکمات اور مسلمات کے مخالف نہ رہیں اور محکمات اور متشابہات میں جب بظاہر تعارض نظر آئے تو محکمات کا اتباع واجب ہے اور متشابہ کا اتباع زیغ ہے۔ تاویل اجمالی وتاویل تفصیلی اب اس تاویل کے دو طور ہیں ایک اجمالی اور ایک تفصیلی اب اس کی تفصیل سنئے ! تاویل اجمالی : تاویل اجمالی تو یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ ان آیات سے ظاہری اور حسی معنی مراد نہیں اور استواء علی العرش کا یہ مطلب نہیں کہ خدائے قدوس کی ذات مقدس عرش سے متصل اور اس سے ملاتی ہے اور اس پر متمکن اور جاگزیں ہے جس سے جسمیت لازم آئے۔ رہا یہ امر کہ پھر ان سے کیا مراد ہے سو اس کو حق تعالیٰ کے سپرد کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان سے مراد لیا ہے وہ حق ہے اور ہم بلا تشبیہ اور بلا تمثیل اور بلا کیفیت اللہ کی مراد پر ایمان لاتے ہیں یہ مذہب سلف صالحین اور فقہاء اور محدثین اور اصولیین محققین کا ہے جیسا کہ امام مالک (رح) تعالیٰ سے منقول ہے کہ ان سے کسی شخص نے استواء علی العرش کے معنی پوچھے اور سوال کیا کہ حق تعالیٰ عرش پر کیسے مستوی ہے اور اس کا استواء کیسا ہے تو امام مالک (رح) تعالیٰ نے (حق تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کی بناء پر) سر نیچے جھکا لیا اور خوف سے پسینہ پسینہ ہوگئے پھر سر اٹھایا اور فرمایا کہ استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول اور غیر معقول ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سے سوال کرنا بدعت ہے اور اسے سائل تو بلاشبہ ایک برا آدمی اور بدعتی شخص ہے پھر اپنے اصحاب سے فرمایا کہ اس کو یہاں سے نکال دو اس پر آپ کے اصحاب نے اس کو نکال دیا۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے جیسا کہ شرح فقہ اکبر اور شرح قصیدہ بدء الامالی میں ملا علی قاری (رح) تعالیٰ نے نقل کیا ہے اور امام مالک کا مطلب یہ تھا کہ استواء کے معنی لغت میں معلوم ہیں عربی زبان میں لفظ استواء متعدد معنی کے لیے مستعمل ہوتا ہے مثلا کبھی استقرار اور تمکن اور قعود کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اور کبھی قصد اور ارادہ اوراقبال اور توجہ اور اکمال اور اتمام اور اعتذال اور استیلاء اور قہر اور غلبہ کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے جس میں سے بعض معنی شان خداوندی کے مناسب ہیں اور بعض غیر مناسب اور حق تعالیٰ نے ہمیں اپنے معنی مرادی کی تعیین سے مطلع نہیں کیا پس ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ معنی مراد ہیں اور وہ معنی مراد نہیں اس لیے مذہب اسلم تفویض و تسلیم ہے کہ ان کی مراد کو اللہ کے سپرد کیا جائے پس استواء علی العرش جو قرآن سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے جو خدا کی شان تنزیہ و تقدیس کے شایان ہوں ایسے معنی کے اعتبار سے استواء ثابت کرنا جس میں اجسام کی طرح خدا تعالیٰ کے لیے مکان اور محل لازم آئے یہ جائز نہیں اور خدا تعالیٰ کے لیے جس معنی کر استواء ثابت ہوگا اس میں کیفیت اور کمیت کا شائبہ بھی نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کمیت اور کیفیت سے پاک اور منزہ ہے۔ قرآن کریم میں نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں آیا ہے فاذا استویت انت ومن معک علی الفلک سو اس آیت میں استواء سے نوح (علیہ السلام) کا اور ان کے اصحاب کا کشتی میں سوار ہونا اور بیٹھنا مراد ہے تو کیا معاذ اللہ حق تعالیٰ شانہ کے حق میں استواء علی العرش سے عرش پر سوار ہونے اور بیٹھنے کے معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ عما یصفون۔ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کا یہ لفظ والکیف غیر معقول اس امر کی واضح دلیل ہے کہ بارگاہ خداوندی میں استواء سے ظاہری اور عرفی معنی مراد نہیں جو لوگوں کی عقل میں آسکیں بلکہ ایسے معنی مراد ہیں کہ جو عقل اور ادراک سے بالا تر ہیں اور ظاہر ہے کہ استواء کے معنی جلوس اور قعود اور استقرار اور تمکن کے ایسے معنی ہیں کہ عامۃ الناس کی عقلیں بھی اس کو جانتی اور سمجھتی ہیں اس معنی کر استواء کو کیسے غیر معقول کہا جاسکتا ہے اور امام مالک (رح) تعالیٰ نے بیٹھنے اور سوار ہونے کے معنی کے لحاظ سے استواء علیہ العرش پر ایمان لانے کو واجب قرار نہیں دیا بلکہ اس معنی کر ایمان لانا واجب قرار دیا جو خداوند قدوس کی شان تنزیہ اور تقدیس کے لائق اور مناسب ہو اور آنحضرت ﷺ نے صحابہ کے سامنے ان آیات متشابھات کی تلاوت فرمائی صحابہ سن کر ان پر ایمان لائے اور بلا تشبیہ و تمثیل کے ان امور کو خدا تعالیٰ کے لیے ثابت کیا اور سن کر خاموش ہوگئے اور کیفیت دریافت کرنے کے درپے نہ ہوئے اس لیے ان کے بارے میں سوال کرنا اور درپئے حقیقت وکیفیت ہونا یہ بدعت ہے۔ تاویل تفصیلی : اور تاویل تفصیلی یہ ہے کہ جب ان متشابہات کو بوجہ آیات تنزیہ و تقدیس ظاہری اور حسی معنی پر محمول کرنا ناممکن ہو اتو ضرورت اس کی ہوئی کہ معنی مجازی کی تعیین کی جائے کہ جو اس آیت سے قواعد شریعت اور قواعد عربیت کے تحت رہ کر مراد لیے جاسکتے ہیں مثلاً استواء علی العرش سے علو اور ارتفاع کے معنی مراد لینا یا استیلاء وقہر اور غلبہ کے معنی مراد لینا اور مثلا وجہ اور نفس سے ذات مراد لینا وغیرہ یہ تاویل تفصیلی ہوئی یہ مذہب جمہور متکلمین کا ہے اور راسخین فی العلم وہ لوگ ہیں جو محکمات کو اصل قرار دیکر متشابہات میں تاویل کرتے ہیں اور جو شخص محکمات کو نظر انداز کر کے متشابہات کو ظاہری اور حسی اور عرفی معنی پر محمول کرے اور اسی کو حقیقت سمجھے تو یہ شخص زائغین میں سے ہے یعنی کج فہم اور جاہل ہے جس کو اپنی جہالت کی بھی خبر نہیں سلف اور حلف کا حق تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس پر ایمان ہے اور سب اس پر متفق ہیں کہ استواء اور نزول سے ظاہری اور حسی طور پر اترنا اور چڑھنا اور بیٹھنا مراد نہیں رہا یہ امر کہ پھر کیا مراد ہے۔ سو سلف نے معنی مرادی کو اللہ کے سپرد کیا اور خلف نے عوام کو تشبیہ اور تمثیل کے فتنہ سے بچانے کے لیے قواعد عربیت اور قواعد شریعت کے تحت ان متشابہات کے معنی بیان کیے اور محاورات عرب میں جو مجازات کثیر الاستعمال تھے ان پر متشابہات کو محمول کیا اب ہم اس بارے میں حضرات متکلمین سے جو مختلف تاویلیں منقول ہیں وہ ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ تاویل اول : استواء کے معنی علو اور ارتفاع کے ہیں اور استواء علی العرش سے علو مرتبت اور رفعت شان خداوندی کو بیان کرنا مقصود ہے امام بخاری (رح) تعالیٰ نے اپنی جامع صحیح میں اسی تاویل کو اختیار فرمایا۔ امام ابوبکر بن فورک (رح) فرماتے ہیں کہ استواء کے معنی علو اور ارتفاع کے ہیں مگر یہ علو، حاشاباعتبار سمت کے اور مسافت کے نہیں بلکہ باعتبار شان اور مرتبہ کے ہے اور جس شخص نے استواء کو تمکن اور استقراء کے معنی پر محمول کیا اس نے خطاء کی۔ دیکھو مشکل الحدیث صفحہ 146 تاویل دوم قفال مروزی (رح) فرماتے ہیں کہ استواء علی العرش کے معنی یہ ہیں کہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ تمام کائنات کی تدبیر اور تصرف کی طرف متوجہ ہوا جیسا کہ سورة یونس میں ہے ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش یدبر الامر ما من شفیع الا من بعد اذنہ الایۃ۔ سو اس آیت میں استواء علی العرش کے بعد تدبیر عالم کا ذکر فرمایا اور بتلایا کہ تمام عالم میں مدبر اور متصرف وہی خالق سموات وارضین ہے اور وہی فی الحقیقت تمہارا رب ہے لہذا تم اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کی ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ اور کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ کائنات عالم میں عرش سے بڑی کوئی مخلوق نہیں۔ عرش عظیم اس قدر عظیم ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو محیط ہے اور خداوند ذوالجلال کی اول مخلوقات سے ہے اور اس کی شان شہنشاہی کا مظہر اور تجلی گاہ ہے۔ تمام احکام اور تدابیر کا نزول عرش ہی سے ہاتا ہے استواء علی العرش سے دنیاوی بادشاہوں کی طرح ظاہری اور حسی طور پر تخت نشینی مراد نہیں بلکہ بطور کنایہ اپنی شاہنشاہی اور احکم الحاکمینی کو بیان کرنا ہے کہ آسمان و زمین پیدا کرنے کے بعد تمام کائنات میں اس کے مالکانہ اور شاہنشاہانہ تصرفات اور تدبیرات اور احکام جاری ہورہے ہیں جیسا کہ سورة رعد میں استوی علی العرش کے بعد یدبر الامر کا لفظ آیا ہے سو یہ جملہ استواء علی العرش کی تفسیر ہے اور اس آیت میں استوی علی العرش کے بعد یغشی اللیل النہار کا لفظ آیا ہے۔ یہ بھی تدبیر اور تصرف اور اقتدار کامل بیان کرنے کے لیے ذکر کیا گیا ہے کہ آفتاب اور ماہتاب اور تمام ستارے سب ہی اس کے حکم کے سامنے مسخر ہیں اور اس کے علاوہ جہاں کہیں بھی استوی علی العرش کا ذکر آیا ہے سب جگہ اس کے بعد تدبیر اور تصرف ہی کا ذکر ہے گویا کہ بعد کی تمام آیتیں استوی علی العرش کی تفسیر ہیں۔ قفال مروزی (رح) کے کلام کی مزید تفصیل درکار ہو تو امام رازی کی تفسیر کبیر صفحہ 224 جلد 3 دیکھیں نیز تفسیر روح المعانی ص 118 ج 8 دیکھیں۔ تاویل سوم : امام ابو الحسن اشعری (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ بعد ازاں عرش میں کوئی فعل اور تصرف فرمایا جس کا نام استواء رکھا اور قرینہ اس کا یہ ہے کہ خلق السموات والارض کے بعد ثم استوی علی العرش کو بصیغۂ ماضی اور بلفظ ثم ذکر فرمایا ہے جو کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے پس استواء کو فعل ماضی یعنی بلفظ استوی لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق السموات والرض کی طرح یہ کوئی فعل خداوندی تھا اور لفظ ثم کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے پس استواء کو فعل ماضی یعنی بلفظ استوی لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق السموات والرض کی طرح یہ کوئی فعل خداوندی تھا اور لفظ ثم کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ تراخی افعال ہی میں ہوتی ہے صفات خداوندی میں تراخی ممکن نہیں حق تعالیٰ کا ایک فعل دوسرے فعل سے متراخی اور مؤخر ہوسکتا ہے مگر یہ ناممکن ہے کہ ایک صفت دوسری صفت سے متراخی اور مؤخر ہو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ازلی ہیں۔ تاویل سوم : امام ابو الحسن اشعری (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ بعد ازاں عرش میں کوئی فعل اور تصرف فرمایا جس کا نام استواء رکھا اور قرینہ اس کا یہ ہے کہ خلق السموات والرض کے بعد ثم استوی علی العرش کو بصیغۂ ماضی اور بلفظ ثم ذکر فرمایا ہے جو کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے پس استواء کو فعل ماضی یعنی بلفظ استوی لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق السموات والارض کی طرح یہ کوئی فعل خداوندی تھا اور لفظ ثم کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ تارخی افعال ہی میں ہوتی ہے صفات خداوندی میں تراخی ممکن نہیں حق تعالیٰ کا ایک فعل دوسرے فعل سے متراخی اور مؤخر ہوسکتا ہے مگر یہ ناممکن ہے کہ ایک صفت دوسری صفت سے متراخی اور مؤخر ہو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ازلی ہیں۔ غرض یہ کہ استواء علی العرش سے حق جل شانہٗ کا کوئی فعل اور تصرف مراد ہے جو اس نے عرش میں کیا اور اس کا نام استواء رکھا جیسے اللہ تعالیٰ ہر شب میں آسمان دنیا میں کوئی فعل اور تصرف فرماتے ہیں جس کا اللہ نے نزول نام رکھا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ینزل ربنا تبارک وتعالیٰ کل لیلۃ سماء الدنیا (ہر رات میں اللہ تعالیٰ سبحانہ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتے ہیں) سو یہ نزول جس کا حدیث میں ذکر ہے معاذ اللہ یہ نزول جسمانی اور حسی نہیں کہ جس طرح ایک جسم بلندی سے پستی کی طرف اترتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح عرش سے آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اللہ تعالیٰ حرکت اور انتقال سے پاک اور منزہ ہے بلکہ نزول سے حق تعالیٰ کا کوئی فعل مراد ہے جس کا ظہور اور صدور بوقت شب ہوتا ہے مثلاً نزول رحمت مراد ہے یا نزول ملائکہ وغیرہ مراد ہے (روح المعانی 118 ج 8) اور حضرت صوفیہ فرماتے ہیں کہ استواء علی العرش سے اللہ کی کوئی خاص تجلی مراد ہے یغشی الیل النھار رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے یعنی ظلمت شب، دن پر مثل پردے کے پڑجاتی ہے اور دن اس سے چھپ جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ دن کے بعد جب رات آتی ہے تو دن اس سے چھپ جاتا ہے گویا کہ دن نے اپنے اوپر ظلمت شب کا لباس پہن لیا ہے اور اسی طرح جب رات کے بعد دن آتا ہے تو رات غائب ہوجاتی ہے۔ حق جل شانہ نے اس آیت میں رات کے بعد دن کے آنے کا ذکر دوسری آیتوں میں فرمادیا ہے جیسے یکور الیل علی النھار ویکور النھار علی الیل۔ لیکن اس آیت میں صرف رات کے دن کو ڈھانک لینے کے ذکر پر اکتفا فرمایا کہ اس کا عکس اور ضد خود بخود سمجھ میں آجائے گی نیز اسی آیت میں حمید بن قیس کی قراءت میں اس طرح آیا ہے یغشی الیل النھار۔ امام قرطبی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں۔ معناہ ان النھار یغشی الیل (صفحہ 221 جلد 7) یعنی دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یطلبہ حثیثا۔ طلب کرتی رہے رات دن کو نہایت سرعت اور تیزی کے ساتھ یعنی رات دن کے پیچھے دوڑی چلی آتی ہے دن ختم ہوا تو فوراً رات آپہنچی اور رات ختم ہوئی تو فوراً دن آپہنچا درمیان میں ایک منٹ کا بھی وقفہ نہیں گویا کہ ایک، دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے چلا آرہا ہے۔ والشمس والقمر والنجوم مسخراب بامرہ الا لہ الخلق والامر تابرک اللہ رب العلمین۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا جو اس کے حکم کے تابع ہیں۔ جب وہ چاہتا ہے طلوع اور جب وہ چاہتا ہے غروب ہوجاتے ہیں۔ ان کی سیر اور ان کا رجوع اور ان کی حرکت کی مقدار اور کیفیت سب اس کے حکم کے تابع ہے آگاہ ہوجاؤ یعنی اچھی طرح سن لو کہ پیدا کرنا اور بنانا اسی کا کام ہے اور اسی کا حکم اور فرمانروائی ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی پیدا کرسکتا ہے اور نہ کسی کا حکم جاری اور نافذ ہے۔ یہ جو کچھ ہورہا ہے سب قادر مطلق کے حکم سے ہورہا ہے اور یہ اتفاقی اور طبعی امور نہیں، جیسا کہ ملاحدہ اور دہریہ کا گمان ہے۔ انتہائی بزرگی والا اللہ جو پروردگار ہے سب جہانوں کا اس کی عظمت اور جلال کی کوئی انتہاء نہیں اور اس کے خزانے میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں۔ پس اے لوگو جب تم کو معلوم ہوگیا کہ فی الحقیقت تمہارا رب وہ ہے جو تمام کائنات کا خالق اور ان میں مدبر اور متصرف ہے اور تمام کارخانہ اسی کے حکم سے چل رہا ہے لہٰذا تم ہر حالت اور ہر حاجت میں اپنے ایسے ہی پروردگار سے دعا کیا کرو عاجزی سے اور چپکے چپکے۔ یعنی دعا کا ادب یہ ہے کہ عاجزی اور فروتنی کے ساتھ ہو اور آہستہ آہستہ ہو معلوم ہوا کہ دعا میں اخفاء بہ نسبت جہر کے اولی ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت زکریا کے اوصاف میں بیان فرمایا ہے۔ اذ نادی ربہ نداء خفیا۔ کہ اس نے اپنے پروردگار کو آہستہ اور چپکے سے پکارا۔ عطاء کہتے ہیں کہ آمین ایک دعا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ دعا کا آہستہ اور خفیہ کرنا بہتر ہے اس لیے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ نماز میں آمین آہستہ کہنا بہتر ہے اور جمہور صحابہ وتابعین کا یہی مذہب کیونکہ دعا میں اخفاء اقرب الی الادب ہے تحقیق اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو دعا میں حد ادب سے نکل جاتے ہیں مثلاً چلا چلا کر دعا مانگنا۔ یا مثلاً یہ دعا مانگنا کہ اے اللہ مجھ کو جنت الفردوس کے دائیں جانب سفید محل عطاء کر اس قسم کی دعائیں خلاف ادب ہیں اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم وتلقین سے ملک کا حال درست ہوگیا تو اب ان کی نافرمانی کر کے ملک میں فساد نہ کرو اور نہ خرابی مچاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کا اتباع اصلاح ہے اور اس کی مخالفت فساد اور خرابی ہے اور سب سے بڑا فساد کفر اور شرک کا ہے باقی ہر معصیت اپنے درجہ کے مطابق فساد اور خرابی ہے اور پکارو اس کو امید و بیم کے ساتھ یعنی قبول ہونے کی امید رکھو اور نہ قبول ہونے سے ڈرتے رہو۔ خلاصہ یہ کہ دعا اور عبادت خوف اور رجاء کے ساتھ ہونی چاہئے بیشک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے یعنی ثواب آخرت کے مستحق نیک ہی لوگ ہیں۔ بدکار اس سے دور رہیں گے۔ زکر تصرفات خداوندی در عالم سفلی وارضی گزشتہ آیات میں حق تعالیٰ نے فلکیات اور علویات میں اپنی تدبیر اور تصرف کو بیان کی اب ان آیات میں سفلیات اور ارضیات اور کائنات الجو میں اپنی تدابیر اور تصرفات کا ذکر کرتے ہیں کہ تمام علویات اور سفلیات میں وہی مدبر اور متصرف ہے اور سب کچھ اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے لہذا جو کچھ مانگنا ہے اسی سے مانگو۔ چناچہ فرماتے ہیں اور وہ (اللہ) وہ ہے جو اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے۔ باران رحمت کے نزول سے پہلے نرم نرم ہوائیں چلتی ہیں جو بارش کی آمد کی خوشخبری سناتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں پانی کے بوجھ سے بھاری بادلوں کو اٹھاتی ہیں جو بارش کی آمد کی بادل کو ایک مردہ شہر یعنی مردہ اور خشک زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں جو ایک عرصہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے بےجان پڑی تھی۔ پھر ہم اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر ہم اس پانی سے ہر قسم کے پھل زمین سے نکالتے ہیں یوں ہی ہم مردوں کو قبروں سے نکالیں گے شاید تم اس مشاہدہ سے نصیحت پکڑو کہ جو اللہ خشک اور بےجان زمین سے اس کو زندہ کر کے اس سے تروتازہ پھل نکالتا ہے تو وہ مردوں کو جلانے پر قادر ہے جس طرح ہم اپنی قدرت کاملہ سے مردہ زمین کو زندہ اور سرسبز کرسکتے ہیں اسی طرح ہم قیامت کے دن تم کو بھی زمین سے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں۔ اس کی قدرت کے اعتبار سے مردہ انسان اور مردہ زمین کا زندہ کرنا سب یکساں ہے اور ہمارا یہ کلام ہدایت التیام اگرچہ مثل باران رحمت کے فیض رسانی میں یکساں ہے اس کی ذات میں کوئی فرق نہیں مگر جن قلوب کی زمینوں پر یہ بارش نازل ہوتی ہے وہ اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے اعتبار سے مختلف ہیں جس طرح ہر زمین اپنی صلاحیت اور استعداد کے موافق بارش کا اثر قبول کرتی ہے اسی طرح ہرز میں قلب اپنے استعداد اور صلاحیت کے مطابق باران ہدایت کا اثر قبول کرتی ہے عمدہ اور پاکیزہ زمین جب اس پر مینہ برستا ہے تو خدا کے حکم سے اس کا سبزہ خوب نکلتا ہے اور جو زمین خراب ہے یعنی شور اور بنجر ہے سو اول تو اس میں سے کچھ نکلتا نہیں اور اگر نکلتا ہے تو سوائے ناقص اور خراب کے کچھ نہیں نکلتا۔ عمدہ اور پاکیزہ زمین سے مومن کا دل مراد ہے اور ناکارہ اور خراب زمین سے کافر مراد ہے اور قرآن کریم بمنزلہ باران رحمت اور آب حیات ہے یہ بارش جو مومن کی زمین دل پر برسی تو اس سے طرح طرح کے ثمرات و برکات کا ظہور ہوا اس نے قرآن کریم کے مواعظ سے خوب فائدہ اٹھایا اور کافر کی زمین دل شور تھی اس نے باران ہدایت کا کوئی اثر قبول نہیں کیا بلکہ اس میں سے کفر اور الحاد کے کانٹے اور جھاڑ جھنکاڑی نکلے باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ ملالہ روید ودر شورہ بوم خس
Top