Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكُمُ
: تمہارا رب
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ
: چھ
اَيَّامٍ
: دن
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰى
: قرار فرمایا
عَلَي
: پر
الْعَرْشِ
: عرش
يُغْشِي
: ڈھانکتا ہے
الَّيْلَ
: رات
النَّهَارَ
: دن
يَطْلُبُهٗ
: اس کے پیچھے آتا ہے
حَثِيْثًا
: دوڑتا ہوا
وَّالشَّمْسَ
: اور سورج
وَالْقَمَرَ
: اور چاند
وَالنُّجُوْمَ
: اور ستارے
مُسَخَّرٰتٍ
: مسخر
بِاَمْرِهٖ
: اس کے حکم سے
اَلَا
: یاد رکھو
لَهُ
: اس کے لیے
الْخَلْقُ
: پیدا کرنا
وَالْاَمْرُ
: اور حکم دینا
تَبٰرَكَ
: برکت والا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
رَبُّ
: رب
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر ٹھہرا۔ وہی دن کو رات کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔ سب اسی کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے یہ خدائے رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔
ذکر تخلیق عالم برائے اثبات ربوبیت والوہیت برائے اثبات قیامت قال اللہ تعالیٰ ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض۔۔۔ الی۔۔۔ کذلک نصرف الایت لقوم یشکرون (ربط) گزشتہ آیات میں معاد اور جزاء وسزا کا بیان تھا جسکا مشرکین انکار کرتے تھے اب ان آیات میں تخلیق عالم کا ذکر فرماتے ہیں جو حق جل شانہ کی ربوبیت اور الوہیت اور کمال قدرت کے دلائل پر مشتمل ہے جس کو سماوات اور ارضین کی تخلیق سے شروع فرمایا اور بارش اور ارض میتتہ کی حیات یعنی مردہ زمین کی زندگی پر کلام کو ختم فرمایا کہ بارش سے کس طرح زمین زندہ ہوجاتی ہے جس سے مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر استدلال فرمایا اور یہ فرمایا۔ کذلک نخرج الموتی لعلکم تزکرون۔ تاکہ منکرین حشر کا استبعاد رفع ہوجائے اور اس کے بعد بعض مشہور پیغمبروں کے حالات اور واقعات ذکر فرمائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ انبیاء کرام کی تصدیق اور تکذیب کا قیامت کے آنے سے پہلے ہی دنیا میں کیا انجام ہوا تقریبا پارہ نہم کے نصف تک یہی مضمون چلا گیا ہے غرض یہ کہ ان آیات میں اولاً مبداء اور معاد کے دلائل کو بیان کیا اور بعد ازاں حضرات انبیاء کے واقعات سے دلائل نبوت اور براہین رسالت کو بیان فرمایا اور اسی طرح توحید اور رسالت اور قیامت کا بیان یکے بعد دیگرے اخیر سورت تک چلا گیا تاکہ ان خاسرین پر جنہوں نے اپنے دین کو لہو ولعب بنا رکھا ہے ( جیسا کہ ان اللہ حرمھما علی الکافرین الذین اتخذوا دینھم لھوا ولعبا۔ میں گزرا) سعادت اور شقاوت فلاح اور خسران کی حقیقت واضح ہوجائے چناچہ فرماتے ہیں تحقیق اے لوگو حقیقت میں تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ان مشرکین نے جو شرکاء اور ارباب تراش رکھے ہیں ان میں کوئی بھی تمہارا رب نہیں انہوں نے آسمان اور زمین کا کوئی ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ یہ چھ دن یہ ہیں یکشنبہ دو شنبہ سہ شنبہ چہار شنبہ پنجشنبہ، جمعہ اور جمعہ کے دن حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ہفتہ کے دن کوئی چیز پیدا نہیں کی یہ دن پیدائش سے خالی رہا اسی وجہ سے اس دن کو یوم سبت کہتے ہیں سبت کے معنی قطع کے ہیں یعنی اس دن آفرینش منقطع ہوچکی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اتنی مدت اور اتنے وقت میں پیدا کیا جو دنیا کے چھ دنوں کے برابر تھا کیونکہ زمین اور آسمان کی پیدائش سے پہلے یہ متعارف دن اور رات ہی نہ تھے کہ جو طلوع آفتاب سے غروب تک اور غروب سے طلوع آفتاب تک ہے اور بعضوں نے کہا کہ اس سے آخرت کے دن مراد ہیں کہ ہر دن ہزار سال کا ہے۔ کما قال تعالیٰ وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون اور پہلا ہی قول صحیح ہے (ماخوذ از موضح القرآن للشاہ عبدالقادر الدہلوی (رح) تعالیٰ ) اس پر زمانہ حال کے بعض فلاسفہ اعتراض کرتے ہیں کیونکہ ان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ کائنات آہستہ آہستہ اور بتدریج لاکھوں اور کروڑوں برس میں پیداہوئی ہے لیکن یہ تحقیق خود مشکوک ہے جس پر کوئی دلیل نہیں مگر جو لوگ یورپ کی تقلید پر مٹے ہوئے ہیں وہ تو اس کو وحی آسمانی سے بھی زیادہ سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی خبر کہ ا آسمان اور زمین چھ دن میں پیدا ہوئے اس کو غلط سمجھتے ہیں حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو خبر دی ہے وہ حق اور صدق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کے بعد بیشمار مخلوق اور اس کے ارادہ اور قدرت سے پیدا ہوئی اور جب تک چاہے گا پیدا ہوتی رہے گی اور یہ خیال کہ کائنات عالم آہستہ آہستہ اور بتدریج لاکھوں اور کروڑوں برس میں پیدا ہوئی۔ یہ خیال خام ان دھریوں کا ہے کہ جو خدا کے منکر ہیں اور سلسلۂ عالم عالم کو قدیم اور ازلی مانتے ہیں اور یہ بالکل غلط ہے تمام انبیاء ومرسلین کا اس پر اجماع ہے کہ تمام عالم حادث ہے خدا تعالیٰ کے ارادہ اور قدرت سے عدم کے پردہ سے نکل کر وجود میں آیا ہے پھر بعد ازاں اللہ تعالیٰ بلا کسی نقل و حرکت کے عرش پر بلا کسی حلول اور بلا تمکن اور بلا استقرار کے قائم ہوا جیسا قیام اس کی شان کے لائق اور مناسب تھا اور حکمرانی شروع کی اور علویات اور سفلیات میں اپنی تدبیر اور تصرف اور احکام کو جاری فرمایا جیسا کہ دوسری جگہ ثم استوی علی اعرش کے بعد یدبر الامر وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں جو استواء علی العرش کی تفسیر ہیں۔ اور یہود بےبہبود یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین پیدا کرنے کے بعد تھک گیا اور درماندگی کی وجہ سے عرش پر لیٹ گیا تمام اہل اسلام کا اجتماعی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی نہایت ہے اور نہ اس کے لیے کوئی مکان اور سمت اور جہت ہے اس کی ہستی، سمت اور جہت اور مکان اور زمان کے قیود اور حدود سے پاک اور منزہ ہے اس کی ہستی کسی زمان یا مکان کی ہستی پر موقوف نہیں بلکہ مکان اور زمان کی ہستی اس کی ایجاد اور تکوین پر موقوف ہے کیونکہ جب مکان وزمان موجود نہ تھے وہ اس وقت بھی تھا اور اب جبکہ زمان اور مکان موجود ہیں تب بھی موجود ہے وہ خداوند ذوالجلال زمین اور آسمان اور عرش اور کرسی کے پیدا کرنے سے پہلے جس صفت اور شان پر تھا اب بھی اسی صفت اور شان پر ہے۔ معاذ اللہ عرش عظیم خداوند کریم کا حامل نہیں کہ خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے یا تھامے ہوئے ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور رحمت عرش کو اٹھائے ہوئے اور تھامے ہوئے ہے وہ ذرہ برابر کسی عرش اور فرش کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں معلوم ہوا کہ استواء علی العرش سے عرش پر بیٹھنا اور متمکن اور مستقر ہونا مراد نہیں بلکہ کائنات عالم کے تدبیر اور تصرف کی طرف متوجہ ہونامراد ہے اور یہ جملہ (یعنی استواء علی العرش) قرآن کریم میں سات جگہ آیا ہے ایک تو یہ جگہ کہ آپ کے سامنے ہے دوم سورة یونس میں سوم سورة رعد میں چہارم سورة طہ میں پنجم سورة فرقان میں ششم سورة سجدہ میں ہفتم سورة حدید میں اور سب جگہ اس کی شان شہنشاہی اور تدبیر اور تصرف کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہی سارے عالم کا خالق ہے اور وہی تمام کائنات کا مدبر اور ان میں متصرف ہے یہی فی الحقیقت تمہارا رب ہے جس کا حکم آسمانوں اور زمینوں میں جاری ہوتا ہے۔ متشابہات : اور اس قسم کی تمام آیتیں اور حدیثیں جن سے بظاہر یہ وہم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی مکان یا جہت میں ہے جیسے آیات استواء علی العرش اور احادیث نزول باری تعالیٰ اس قسم کی آیات اور احادیث کو متشابہات کہتے ہیں ان کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے۔ فرقۂ مجسمیہ اور مشبہہ اور کر امیہ : اس قسم کی آیات اور احادیث کو ظاہری اور حسی معنی پر محمول کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ استواء علی العرش کے معنی تخت پر بیٹھنے کے ہیں اور جس طرح دنیا کا بادشاہ تخت پر بیٹھتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہے اس گروہ کے نزدیک استواء کے معنی تمکن اور استقرار اور قعود کے ہیں ظاہر پرست اس قسم کے الفاظ کو ظاہری اور عرفی معنی میں لیکر خدا تعالیٰ کے لیے عرش (تخت) پر بیٹھنا ثابت کرتے ہیں۔ اہل حق : اہل حق یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک اور منزہ ہے کہ وہ کسی عرش اور تخت پر یا کسی جسم پر متمکن اور مستقر ہو یعنی جس طرح کسی بادشاہ کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ تخت پر بیٹھا ہوا ہے یا ایک چارپائی پر بیٹھا ہوا ہے مگر خدا تعالیٰ کو ایسا کہنا ہرگز جائز نہیں۔ کیونکہ اگر (ا) خدا تعالیٰ کسی جسم اور محل پر متمکن اور مستقر ہو تو اس کا مقداری ہونا لازم آئے گا کیونکہ جو چیز کسی جسم پر متمکن ہوتی ہے وہ یا تو اس سے بڑی ہوتی ہے یا چھوٹی ہوتی ہے یا برابر ہوتی ہے اور کمی اور بیشی اور مساوات کے ساتھ وہی شئے موصوف ہوسکتی ہے جو مقداری ہو اور اللہ تعالیٰ کمیت اور کیفیت اور مقدار سے پاک اور منزہ ہے (2) نیز جو چیز کسی مکان یا جہت میں ہوگی وہ محدود اور متناہی ہوگی اور اطراف اور جوانب میں محصور ہوگی اور جو محدود اور محصور ہے وہ مخلوق اور حادث ہے (3) نیز خدا تعالیٰ فرماتے ہیں وھو اللہ فی السموات وفی الارض وھو معکم اینما کنتم سو ان آیات کو اگر ظاہری معنی پر محمول کیا جائے کہ خدا کی ذات ہر مکان میں موجود ہے اور تمام آسمانوں اور زمینوں میں موجود ہے تو یہ آیتیں استواء علی العرش کی آیت کے معارض پڑیں گی اس لیے کہ جب خدا کی ذات آسمان اور زمینوں میں موجود ہے تو یہ آیتیں استواء علی العرش کی آیت کے معارض پڑیں گی اس لیے کہ جب خدا کی ذات آسمان اور زمین میں ہر جگہ موجود ہے تو عرش کی خصوصیت باطل ہوئی (4) نیز حدیث میں آیا ہے ینزل اللہ کل لیلۃ الی سماء الدنیا۔ خدا تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اگر اس حدیث کو اپنے ظاہر پر محمول کیا جائے تو لازم آئیگا کہ معاذ اللہ خدا تعالیٰ کبھی عرش پر بیٹھتا ہے اور کبھی نیچے اترتا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ حق تعالیٰ نقل و حرکت سے پاک اور منزہ ہے (5) اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین پر نمازی کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے کیا کوئی موحد اس بات کی جرأکر سکتا ہے کہ اس حدیث کو ظاہری معنی پر محمول کرے۔ معاذ اللہ کیا خدا تعالیٰ کبھی عرش پر بیٹھتا ہے اور کبھی آسمان دنیا پر اترتا ہے اور کبھی نمازی کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے جسکا اہل اسلام میں سے کوئی بھی قائل نہیں (6) بیشمار آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے حق تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس صراحۃ ً ثابت ہے اور تمام انبیاء ومرسلین اپنی اپنی امتوں کو ایمان تنزیہی ہی کی دعوت دیتے چلے گئے ایمان تشبیہی وتمثیلی اور اسلام تجسیمی ومقداری کی کسی نبی نے دعوت نہیں دی (8) اور اسی پر تمام صحابہ وتابعین اور سلف اور خلف کا اجماع ہے (9) اور خدا تعالیٰ کا مکان اور جہت سے پاک اور منزہ ہونا دلائل عقلیہ اور قطعیہ سے ثاب ہے (10) اور شریعت کے مسلمات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے نہ کوئی مکان ہے اور نہ کوئی زمان ہے اور نہ کوئی حد اور نہایت ہے اس خداوند قدوس کی ذات والا صفات مکان اور جہت اور سمت سے مبرا ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ مکان اور جہت کو اسی نے پیدا کیا ہے وہ مکان کے پیدا کرنے سے پہلے بغیر مکان کے تھا۔ بعد میں اس نے اپنی قدرت سے مکان اور جہت کو پیدا کیا۔ پس جس صفت اور شان پر وہ مکان اور جہت کے پیدا کرنے سے پہلے تھا پیدا کرنے کے بعد بھی وہ اسی صفت اور شان پر ہے ہو الاول والاخر۔ متشابہات میں سلف اور خلف کے مسلک کی تشریح لہذا اس قسم کی آیات متشابہات جن سے مکان یا جہت یا تشبیہ اور تمثیل کا شبہ ہوتا ہو سلف اور خلف کے نزدیک بالاجماع ان سے ظاہری اور حسی معنی مراد نہیں اور کلام کو اپنے ظاہر سے ہٹانا اور پھیرنا اسی کا نام تاویل ہے کیونکہ تمام آیتیں اور حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ مکان اور جہت اور سمت سے پاک ہے اور یہ تمام کی تمام نصوص صریحہ اور قطعیہ ہیں اور محکمات ہیں اور شریعت کے مسلمات ہیں جن میں تاویل کی ذرہ برابر گنجائش نہیں اور آیات متشابہات جن سے مکان اور جہت کا شبہ ہوتا ہے وہ ظنی الدلالت ہے لہذا ان میں تاویل کی جائے گی تاکہ قطعیات اور محکمات اور مسلمات کے مخالف نہ رہیں اور محکمات اور متشابہات میں جب بظاہر تعارض نظر آئے تو محکمات کا اتباع واجب ہے اور متشابہ کا اتباع زیغ ہے۔ تاویل اجمالی وتاویل تفصیلی اب اس تاویل کے دو طور ہیں ایک اجمالی اور ایک تفصیلی اب اس کی تفصیل سنئے ! تاویل اجمالی : تاویل اجمالی تو یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ ان آیات سے ظاہری اور حسی معنی مراد نہیں اور استواء علی العرش کا یہ مطلب نہیں کہ خدائے قدوس کی ذات مقدس عرش سے متصل اور اس سے ملاتی ہے اور اس پر متمکن اور جاگزیں ہے جس سے جسمیت لازم آئے۔ رہا یہ امر کہ پھر ان سے کیا مراد ہے سو اس کو حق تعالیٰ کے سپرد کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان سے مراد لیا ہے وہ حق ہے اور ہم بلا تشبیہ اور بلا تمثیل اور بلا کیفیت اللہ کی مراد پر ایمان لاتے ہیں یہ مذہب سلف صالحین اور فقہاء اور محدثین اور اصولیین محققین کا ہے جیسا کہ امام مالک (رح) تعالیٰ سے منقول ہے کہ ان سے کسی شخص نے استواء علی العرش کے معنی پوچھے اور سوال کیا کہ حق تعالیٰ عرش پر کیسے مستوی ہے اور اس کا استواء کیسا ہے تو امام مالک (رح) تعالیٰ نے (حق تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کی بناء پر) سر نیچے جھکا لیا اور خوف سے پسینہ پسینہ ہوگئے پھر سر اٹھایا اور فرمایا کہ استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول اور غیر معقول ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سے سوال کرنا بدعت ہے اور اسے سائل تو بلاشبہ ایک برا آدمی اور بدعتی شخص ہے پھر اپنے اصحاب سے فرمایا کہ اس کو یہاں سے نکال دو اس پر آپ کے اصحاب نے اس کو نکال دیا۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے جیسا کہ شرح فقہ اکبر اور شرح قصیدہ بدء الامالی میں ملا علی قاری (رح) تعالیٰ نے نقل کیا ہے اور امام مالک کا مطلب یہ تھا کہ استواء کے معنی لغت میں معلوم ہیں عربی زبان میں لفظ استواء متعدد معنی کے لیے مستعمل ہوتا ہے مثلا کبھی استقرار اور تمکن اور قعود کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اور کبھی قصد اور ارادہ اوراقبال اور توجہ اور اکمال اور اتمام اور اعتذال اور استیلاء اور قہر اور غلبہ کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے جس میں سے بعض معنی شان خداوندی کے مناسب ہیں اور بعض غیر مناسب اور حق تعالیٰ نے ہمیں اپنے معنی مرادی کی تعیین سے مطلع نہیں کیا پس ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ معنی مراد ہیں اور وہ معنی مراد نہیں اس لیے مذہب اسلم تفویض و تسلیم ہے کہ ان کی مراد کو اللہ کے سپرد کیا جائے پس استواء علی العرش جو قرآن سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے جو خدا کی شان تنزیہ و تقدیس کے شایان ہوں ایسے معنی کے اعتبار سے استواء ثابت کرنا جس میں اجسام کی طرح خدا تعالیٰ کے لیے مکان اور محل لازم آئے یہ جائز نہیں اور خدا تعالیٰ کے لیے جس معنی کر استواء ثابت ہوگا اس میں کیفیت اور کمیت کا شائبہ بھی نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کمیت اور کیفیت سے پاک اور منزہ ہے۔ قرآن کریم میں نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں آیا ہے فاذا استویت انت ومن معک علی الفلک سو اس آیت میں استواء سے نوح (علیہ السلام) کا اور ان کے اصحاب کا کشتی میں سوار ہونا اور بیٹھنا مراد ہے تو کیا معاذ اللہ حق تعالیٰ شانہ کے حق میں استواء علی العرش سے عرش پر سوار ہونے اور بیٹھنے کے معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ عما یصفون۔ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کا یہ لفظ والکیف غیر معقول اس امر کی واضح دلیل ہے کہ بارگاہ خداوندی میں استواء سے ظاہری اور عرفی معنی مراد نہیں جو لوگوں کی عقل میں آسکیں بلکہ ایسے معنی مراد ہیں کہ جو عقل اور ادراک سے بالا تر ہیں اور ظاہر ہے کہ استواء کے معنی جلوس اور قعود اور استقرار اور تمکن کے ایسے معنی ہیں کہ عامۃ الناس کی عقلیں بھی اس کو جانتی اور سمجھتی ہیں اس معنی کر استواء کو کیسے غیر معقول کہا جاسکتا ہے اور امام مالک (رح) تعالیٰ نے بیٹھنے اور سوار ہونے کے معنی کے لحاظ سے استواء علیہ العرش پر ایمان لانے کو واجب قرار نہیں دیا بلکہ اس معنی کر ایمان لانا واجب قرار دیا جو خداوند قدوس کی شان تنزیہ اور تقدیس کے لائق اور مناسب ہو اور آنحضرت ﷺ نے صحابہ کے سامنے ان آیات متشابھات کی تلاوت فرمائی صحابہ سن کر ان پر ایمان لائے اور بلا تشبیہ و تمثیل کے ان امور کو خدا تعالیٰ کے لیے ثابت کیا اور سن کر خاموش ہوگئے اور کیفیت دریافت کرنے کے درپے نہ ہوئے اس لیے ان کے بارے میں سوال کرنا اور درپئے حقیقت وکیفیت ہونا یہ بدعت ہے۔ تاویل تفصیلی : اور تاویل تفصیلی یہ ہے کہ جب ان متشابہات کو بوجہ آیات تنزیہ و تقدیس ظاہری اور حسی معنی پر محمول کرنا ناممکن ہو اتو ضرورت اس کی ہوئی کہ معنی مجازی کی تعیین کی جائے کہ جو اس آیت سے قواعد شریعت اور قواعد عربیت کے تحت رہ کر مراد لیے جاسکتے ہیں مثلاً استواء علی العرش سے علو اور ارتفاع کے معنی مراد لینا یا استیلاء وقہر اور غلبہ کے معنی مراد لینا اور مثلا وجہ اور نفس سے ذات مراد لینا وغیرہ یہ تاویل تفصیلی ہوئی یہ مذہب جمہور متکلمین کا ہے اور راسخین فی العلم وہ لوگ ہیں جو محکمات کو اصل قرار دیکر متشابہات میں تاویل کرتے ہیں اور جو شخص محکمات کو نظر انداز کر کے متشابہات کو ظاہری اور حسی اور عرفی معنی پر محمول کرے اور اسی کو حقیقت سمجھے تو یہ شخص زائغین میں سے ہے یعنی کج فہم اور جاہل ہے جس کو اپنی جہالت کی بھی خبر نہیں سلف اور حلف کا حق تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس پر ایمان ہے اور سب اس پر متفق ہیں کہ استواء اور نزول سے ظاہری اور حسی طور پر اترنا اور چڑھنا اور بیٹھنا مراد نہیں رہا یہ امر کہ پھر کیا مراد ہے۔ سو سلف نے معنی مرادی کو اللہ کے سپرد کیا اور خلف نے عوام کو تشبیہ اور تمثیل کے فتنہ سے بچانے کے لیے قواعد عربیت اور قواعد شریعت کے تحت ان متشابہات کے معنی بیان کیے اور محاورات عرب میں جو مجازات کثیر الاستعمال تھے ان پر متشابہات کو محمول کیا اب ہم اس بارے میں حضرات متکلمین سے جو مختلف تاویلیں منقول ہیں وہ ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ تاویل اول : استواء کے معنی علو اور ارتفاع کے ہیں اور استواء علی العرش سے علو مرتبت اور رفعت شان خداوندی کو بیان کرنا مقصود ہے امام بخاری (رح) تعالیٰ نے اپنی جامع صحیح میں اسی تاویل کو اختیار فرمایا۔ امام ابوبکر بن فورک (رح) فرماتے ہیں کہ استواء کے معنی علو اور ارتفاع کے ہیں مگر یہ علو، حاشاباعتبار سمت کے اور مسافت کے نہیں بلکہ باعتبار شان اور مرتبہ کے ہے اور جس شخص نے استواء کو تمکن اور استقراء کے معنی پر محمول کیا اس نے خطاء کی۔ دیکھو مشکل الحدیث صفحہ 146 تاویل دوم قفال مروزی (رح) فرماتے ہیں کہ استواء علی العرش کے معنی یہ ہیں کہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ تمام کائنات کی تدبیر اور تصرف کی طرف متوجہ ہوا جیسا کہ سورة یونس میں ہے ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش یدبر الامر ما من شفیع الا من بعد اذنہ الایۃ۔ سو اس آیت میں استواء علی العرش کے بعد تدبیر عالم کا ذکر فرمایا اور بتلایا کہ تمام عالم میں مدبر اور متصرف وہی خالق سموات وارضین ہے اور وہی فی الحقیقت تمہارا رب ہے لہذا تم اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کی ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ اور کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ کائنات عالم میں عرش سے بڑی کوئی مخلوق نہیں۔ عرش عظیم اس قدر عظیم ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو محیط ہے اور خداوند ذوالجلال کی اول مخلوقات سے ہے اور اس کی شان شہنشاہی کا مظہر اور تجلی گاہ ہے۔ تمام احکام اور تدابیر کا نزول عرش ہی سے ہاتا ہے استواء علی العرش سے دنیاوی بادشاہوں کی طرح ظاہری اور حسی طور پر تخت نشینی مراد نہیں بلکہ بطور کنایہ اپنی شاہنشاہی اور احکم الحاکمینی کو بیان کرنا ہے کہ آسمان و زمین پیدا کرنے کے بعد تمام کائنات میں اس کے مالکانہ اور شاہنشاہانہ تصرفات اور تدبیرات اور احکام جاری ہورہے ہیں جیسا کہ سورة رعد میں استوی علی العرش کے بعد یدبر الامر کا لفظ آیا ہے سو یہ جملہ استواء علی العرش کی تفسیر ہے اور اس آیت میں استوی علی العرش کے بعد یغشی اللیل النہار کا لفظ آیا ہے۔ یہ بھی تدبیر اور تصرف اور اقتدار کامل بیان کرنے کے لیے ذکر کیا گیا ہے کہ آفتاب اور ماہتاب اور تمام ستارے سب ہی اس کے حکم کے سامنے مسخر ہیں اور اس کے علاوہ جہاں کہیں بھی استوی علی العرش کا ذکر آیا ہے سب جگہ اس کے بعد تدبیر اور تصرف ہی کا ذکر ہے گویا کہ بعد کی تمام آیتیں استوی علی العرش کی تفسیر ہیں۔ قفال مروزی (رح) کے کلام کی مزید تفصیل درکار ہو تو امام رازی کی تفسیر کبیر صفحہ 224 جلد 3 دیکھیں نیز تفسیر روح المعانی ص 118 ج 8 دیکھیں۔ تاویل سوم : امام ابو الحسن اشعری (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ بعد ازاں عرش میں کوئی فعل اور تصرف فرمایا جس کا نام استواء رکھا اور قرینہ اس کا یہ ہے کہ خلق السموات والارض کے بعد ثم استوی علی العرش کو بصیغۂ ماضی اور بلفظ ثم ذکر فرمایا ہے جو کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے پس استواء کو فعل ماضی یعنی بلفظ استوی لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق السموات والرض کی طرح یہ کوئی فعل خداوندی تھا اور لفظ ثم کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے پس استواء کو فعل ماضی یعنی بلفظ استوی لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق السموات والرض کی طرح یہ کوئی فعل خداوندی تھا اور لفظ ثم کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ تراخی افعال ہی میں ہوتی ہے صفات خداوندی میں تراخی ممکن نہیں حق تعالیٰ کا ایک فعل دوسرے فعل سے متراخی اور مؤخر ہوسکتا ہے مگر یہ ناممکن ہے کہ ایک صفت دوسری صفت سے متراخی اور مؤخر ہو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ازلی ہیں۔ تاویل سوم : امام ابو الحسن اشعری (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ بعد ازاں عرش میں کوئی فعل اور تصرف فرمایا جس کا نام استواء رکھا اور قرینہ اس کا یہ ہے کہ خلق السموات والرض کے بعد ثم استوی علی العرش کو بصیغۂ ماضی اور بلفظ ثم ذکر فرمایا ہے جو کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے پس استواء کو فعل ماضی یعنی بلفظ استوی لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق السموات والارض کی طرح یہ کوئی فعل خداوندی تھا اور لفظ ثم کلام عرب میں تراخی کے بیان کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ تارخی افعال ہی میں ہوتی ہے صفات خداوندی میں تراخی ممکن نہیں حق تعالیٰ کا ایک فعل دوسرے فعل سے متراخی اور مؤخر ہوسکتا ہے مگر یہ ناممکن ہے کہ ایک صفت دوسری صفت سے متراخی اور مؤخر ہو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ازلی ہیں۔ غرض یہ کہ استواء علی العرش سے حق جل شانہٗ کا کوئی فعل اور تصرف مراد ہے جو اس نے عرش میں کیا اور اس کا نام استواء رکھا جیسے اللہ تعالیٰ ہر شب میں آسمان دنیا میں کوئی فعل اور تصرف فرماتے ہیں جس کا اللہ نے نزول نام رکھا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ینزل ربنا تبارک وتعالیٰ کل لیلۃ سماء الدنیا (ہر رات میں اللہ تعالیٰ سبحانہ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتے ہیں) سو یہ نزول جس کا حدیث میں ذکر ہے معاذ اللہ یہ نزول جسمانی اور حسی نہیں کہ جس طرح ایک جسم بلندی سے پستی کی طرف اترتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح عرش سے آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اللہ تعالیٰ حرکت اور انتقال سے پاک اور منزہ ہے بلکہ نزول سے حق تعالیٰ کا کوئی فعل مراد ہے جس کا ظہور اور صدور بوقت شب ہوتا ہے مثلاً نزول رحمت مراد ہے یا نزول ملائکہ وغیرہ مراد ہے (روح المعانی 118 ج 8) اور حضرت صوفیہ فرماتے ہیں کہ استواء علی العرش سے اللہ کی کوئی خاص تجلی مراد ہے یغشی الیل النھار رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے یعنی ظلمت شب، دن پر مثل پردے کے پڑجاتی ہے اور دن اس سے چھپ جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ دن کے بعد جب رات آتی ہے تو دن اس سے چھپ جاتا ہے گویا کہ دن نے اپنے اوپر ظلمت شب کا لباس پہن لیا ہے اور اسی طرح جب رات کے بعد دن آتا ہے تو رات غائب ہوجاتی ہے۔ حق جل شانہ نے اس آیت میں رات کے بعد دن کے آنے کا ذکر دوسری آیتوں میں فرمادیا ہے جیسے یکور الیل علی النھار ویکور النھار علی الیل۔ لیکن اس آیت میں صرف رات کے دن کو ڈھانک لینے کے ذکر پر اکتفا فرمایا کہ اس کا عکس اور ضد خود بخود سمجھ میں آجائے گی نیز اسی آیت میں حمید بن قیس کی قراءت میں اس طرح آیا ہے یغشی الیل النھار۔ امام قرطبی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں۔ معناہ ان النھار یغشی الیل (صفحہ 221 جلد 7) یعنی دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یطلبہ حثیثا۔ طلب کرتی رہے رات دن کو نہایت سرعت اور تیزی کے ساتھ یعنی رات دن کے پیچھے دوڑی چلی آتی ہے دن ختم ہوا تو فوراً رات آپہنچی اور رات ختم ہوئی تو فوراً دن آپہنچا درمیان میں ایک منٹ کا بھی وقفہ نہیں گویا کہ ایک، دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے چلا آرہا ہے۔ والشمس والقمر والنجوم مسخراب بامرہ الا لہ الخلق والامر تابرک اللہ رب العلمین۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا جو اس کے حکم کے تابع ہیں۔ جب وہ چاہتا ہے طلوع اور جب وہ چاہتا ہے غروب ہوجاتے ہیں۔ ان کی سیر اور ان کا رجوع اور ان کی حرکت کی مقدار اور کیفیت سب اس کے حکم کے تابع ہے آگاہ ہوجاؤ یعنی اچھی طرح سن لو کہ پیدا کرنا اور بنانا اسی کا کام ہے اور اسی کا حکم اور فرمانروائی ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی پیدا کرسکتا ہے اور نہ کسی کا حکم جاری اور نافذ ہے۔ یہ جو کچھ ہورہا ہے سب قادر مطلق کے حکم سے ہورہا ہے اور یہ اتفاقی اور طبعی امور نہیں، جیسا کہ ملاحدہ اور دہریہ کا گمان ہے۔ انتہائی بزرگی والا اللہ جو پروردگار ہے سب جہانوں کا اس کی عظمت اور جلال کی کوئی انتہاء نہیں اور اس کے خزانے میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں۔ پس اے لوگو جب تم کو معلوم ہوگیا کہ فی الحقیقت تمہارا رب وہ ہے جو تمام کائنات کا خالق اور ان میں مدبر اور متصرف ہے اور تمام کارخانہ اسی کے حکم سے چل رہا ہے لہٰذا تم ہر حالت اور ہر حاجت میں اپنے ایسے ہی پروردگار سے دعا کیا کرو عاجزی سے اور چپکے چپکے۔ یعنی دعا کا ادب یہ ہے کہ عاجزی اور فروتنی کے ساتھ ہو اور آہستہ آہستہ ہو معلوم ہوا کہ دعا میں اخفاء بہ نسبت جہر کے اولی ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت زکریا کے اوصاف میں بیان فرمایا ہے۔ اذ نادی ربہ نداء خفیا۔ کہ اس نے اپنے پروردگار کو آہستہ اور چپکے سے پکارا۔ عطاء کہتے ہیں کہ آمین ایک دعا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ دعا کا آہستہ اور خفیہ کرنا بہتر ہے اس لیے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ نماز میں آمین آہستہ کہنا بہتر ہے اور جمہور صحابہ وتابعین کا یہی مذہب کیونکہ دعا میں اخفاء اقرب الی الادب ہے تحقیق اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو دعا میں حد ادب سے نکل جاتے ہیں مثلاً چلا چلا کر دعا مانگنا۔ یا مثلاً یہ دعا مانگنا کہ اے اللہ مجھ کو جنت الفردوس کے دائیں جانب سفید محل عطاء کر اس قسم کی دعائیں خلاف ادب ہیں اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم وتلقین سے ملک کا حال درست ہوگیا تو اب ان کی نافرمانی کر کے ملک میں فساد نہ کرو اور نہ خرابی مچاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کا اتباع اصلاح ہے اور اس کی مخالفت فساد اور خرابی ہے اور سب سے بڑا فساد کفر اور شرک کا ہے باقی ہر معصیت اپنے درجہ کے مطابق فساد اور خرابی ہے اور پکارو اس کو امید و بیم کے ساتھ یعنی قبول ہونے کی امید رکھو اور نہ قبول ہونے سے ڈرتے رہو۔ خلاصہ یہ کہ دعا اور عبادت خوف اور رجاء کے ساتھ ہونی چاہئے بیشک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے یعنی ثواب آخرت کے مستحق نیک ہی لوگ ہیں۔ بدکار اس سے دور رہیں گے۔ زکر تصرفات خداوندی در عالم سفلی وارضی گزشتہ آیات میں حق تعالیٰ نے فلکیات اور علویات میں اپنی تدبیر اور تصرف کو بیان کی اب ان آیات میں سفلیات اور ارضیات اور کائنات الجو میں اپنی تدابیر اور تصرفات کا ذکر کرتے ہیں کہ تمام علویات اور سفلیات میں وہی مدبر اور متصرف ہے اور سب کچھ اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے لہذا جو کچھ مانگنا ہے اسی سے مانگو۔ چناچہ فرماتے ہیں اور وہ (اللہ) وہ ہے جو اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے۔ باران رحمت کے نزول سے پہلے نرم نرم ہوائیں چلتی ہیں جو بارش کی آمد کی خوشخبری سناتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں پانی کے بوجھ سے بھاری بادلوں کو اٹھاتی ہیں جو بارش کی آمد کی بادل کو ایک مردہ شہر یعنی مردہ اور خشک زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں جو ایک عرصہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے بےجان پڑی تھی۔ پھر ہم اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر ہم اس پانی سے ہر قسم کے پھل زمین سے نکالتے ہیں یوں ہی ہم مردوں کو قبروں سے نکالیں گے شاید تم اس مشاہدہ سے نصیحت پکڑو کہ جو اللہ خشک اور بےجان زمین سے اس کو زندہ کر کے اس سے تروتازہ پھل نکالتا ہے تو وہ مردوں کو جلانے پر قادر ہے جس طرح ہم اپنی قدرت کاملہ سے مردہ زمین کو زندہ اور سرسبز کرسکتے ہیں اسی طرح ہم قیامت کے دن تم کو بھی زمین سے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں۔ اس کی قدرت کے اعتبار سے مردہ انسان اور مردہ زمین کا زندہ کرنا سب یکساں ہے اور ہمارا یہ کلام ہدایت التیام اگرچہ مثل باران رحمت کے فیض رسانی میں یکساں ہے اس کی ذات میں کوئی فرق نہیں مگر جن قلوب کی زمینوں پر یہ بارش نازل ہوتی ہے وہ اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے اعتبار سے مختلف ہیں جس طرح ہر زمین اپنی صلاحیت اور استعداد کے موافق بارش کا اثر قبول کرتی ہے اسی طرح ہرز میں قلب اپنے استعداد اور صلاحیت کے مطابق باران ہدایت کا اثر قبول کرتی ہے عمدہ اور پاکیزہ زمین جب اس پر مینہ برستا ہے تو خدا کے حکم سے اس کا سبزہ خوب نکلتا ہے اور جو زمین خراب ہے یعنی شور اور بنجر ہے سو اول تو اس میں سے کچھ نکلتا نہیں اور اگر نکلتا ہے تو سوائے ناقص اور خراب کے کچھ نہیں نکلتا۔ عمدہ اور پاکیزہ زمین سے مومن کا دل مراد ہے اور ناکارہ اور خراب زمین سے کافر مراد ہے اور قرآن کریم بمنزلہ باران رحمت اور آب حیات ہے یہ بارش جو مومن کی زمین دل پر برسی تو اس سے طرح طرح کے ثمرات و برکات کا ظہور ہوا اس نے قرآن کریم کے مواعظ سے خوب فائدہ اٹھایا اور کافر کی زمین دل شور تھی اس نے باران ہدایت کا کوئی اثر قبول نہیں کیا بلکہ اس میں سے کفر اور الحاد کے کانٹے اور جھاڑ جھنکاڑی نکلے باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ ملالہ روید ودر شورہ بوم خس
Top