Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 38
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : ان سے جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : اگر يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں يُغْفَرْ : معاف کردیا جائے لَهُمْ : انہیں جو مَّا : جو قَدْ سَلَفَ : گزر چکا وَاِنْ : اور اگر يَّعُوْدُوْا : پھر وہی کریں فَقَدْ : تو تحقیق مَضَتْ : گزر چکی ہے سُنَّةُ : سنت (روش) الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
(اے پیغمبر ﷺ کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائیگا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا۔
احکام متعلقہ بقبول اسلام وعدم قبول اسلام قال اللہ تعالیٰ قل للذین کفروا ان ینتھوا۔۔۔ الی۔۔۔۔ ونعم النصیر (ربط) گزشتہ آیت میں کفار کے خسران اور نقصان کا بیان تھا اب ان آیات میں یہ بتلاتے ہیں کہ خسارہ اور نقصان نکلنے کا راستہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انے کفر اور عناد اور عداوت سے باز آجائیں اور اسلام میں داخل ہوجائیں تو گزشتہ کے تمام کفریات بخش دئیے جائیں گے۔ (ربط دیگر) کہ گزشتہ آیات میں کفار کے اقوال کفریہ اور اعمال کفریہ کا بیان تھا اب ان آیات بینات کے سننے کے بعد کفار کی دو حالتیں ہیں یا تو اسلام قبول کریں گے یا اپنے کفر اور عناد پر قائم رہیں گے۔ آئندہ آیات میں ان دو حالتوں کے متعلق احکام بیان فرماتے ہیں اے نبی آپ ان کافروں سے جو اسلام کی عداوت پر تلے ہوئے ہیں یہ کہدیجئے کہ اگر یہ لوگ اپنے کفر وعداوت سے باز آجائیں سو جو پہلے ہوچکا ہے وہ معاف کردیا جائیگا یعنی اسلام قبول کرنے سکفر کی حالت میں خدا جو گناہ کیے ہیں وہ سب معاف ہوجائیں گے اللہ اپنے حقوق کو معاف کردے گا۔ حقوق العباد معاف نہ ہونگے۔ ان کا مسئلہ علیحدہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ الاسلام یھدم ما کان قبلہ۔ یعنی اسلام سے پہلے کیے ہوئے گناہ اسلام لانے سے مٹ جاتے ہیں اور اگر پھر وہی کریں جو پہلے کرتے تھے تو پہلے لوگوں کی رسم گزرچکی ہے۔ یعنی خدا کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کے دشمنوں کو ہلاک اور تباہ کرتا رہا ہے تو کیا یہ کافر بھی اسی انتظار اور امید میں ہیں اور اے مسلمانو ! اگر یہ لوگ اپنے کفر اور عناد پر قائم رہے تو تمہارے لیے حکم یہ ہے کہ تم ان سے جہاد و قتال کرو اور برابر ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ کافروں کے ہاتھ سے اسلام اور مسلمانوں پر کسی فتنہ اور فساد کا اندیشہ نہ رہے یعنی کفر کا غلبہ نہ رہے اور کافروں میں اتنا زور نہ رہے کہ وہ مسلمانوں کو اسلام سے روک سکیں یا کسی مسلمان کو مرتد بنا سکیں۔ فتنہ سے کفر کا غلبہ مراد ہے جب کفر کو غلبہ ہوتا ہے تو اسلام خطرہ میں پڑجاتا ہے اور یہاں تک جہاد و قتال کرو کہ ہوجائے سب حکم اللہ کا یعنی علی الاعلان اللہ کا حکم جاری اور نافذ ہو اور کفر اس میں مزاحمت نہ کرسکے یہ جہاد کا آخری مقصد ہے کہ کفر کی شوکت نہ رہے اور صرف خدا کا حکم چلے اور دین حق تمام ادیان پر غالب آجائے۔ کما قال تعالیٰ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ اور جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہو جہاد جاری رہے گا خواہ دفاعی ہو یا اقدامی پس اگر ظاہرا وہ اپنے کفر سے باز آجائیں اور کلہ اسلام کا پڑھیں تو تم ان کے ظاہری اسلام کو قبول کرو اور ان کے دل اور نیت کا حال اللہ کے سپرد کرو تحقیق اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو دیکھنے والا ہے ان کے عمل کے موافق ان کو جزا دے گا اور اگر وہ قبول حق سے روگردانی کریں اور مسلمانوں کے مقابلہ پر جمے رہیں تو تم بھی ان کے مقابلہ اور مقاتلے پر جمے رہو اور یقین رکھو کہ اللہ تعمہارا کارساز اور حافظ اور ناصر اور مددگار ہے اور کیا ہی خوب کارساز اور کیا ہی خوب مددگار ہے جس کا وہ کارساز اور مددگار ہو اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تم بےفکر ہو کر خدا کے دشمنوں سے جہاد و قتال کرتے رہو اور ہمت نہ ہارو۔ ہماری نصڑت اور حمایت تمہارے ساتھ ہے جسیے تم جنگ بدر میں دیکھ چکے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح تمہاری حمایت اور نصرت فمرائی لہذا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے کفار سے خوب جہاد کرو۔ اور ان کی کثرت شوکت سے مرعوب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ تم کو عزت اور غلبہ دیگا اور ان کو مغلوب کرے گا۔ اور ان کی دولت ومال کا تم کو مالک بنادے گا۔ جس کی تقسیم کا طریقہ آئندہ آیت میں آتا ہے۔
Top