Tafseer-e-Madani - At-Takaathur : 4
ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ
ثُمَّ كَلَّا : پھر ۔ ہرگز نہیں سَوْفَ : جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے
پھر (سن لو ! ) ہرگز نہیں عنقریب تم لوگوں کو خود معلوم ہوجائے گا
(3) غفلت کے ماروں کو سخت تنبیہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور غفلت کے ماروں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ ہرگز نہیں، یعنی ہرگز ایسا نہیں جیسا کہ تم نے سمجھ رکھا ہے کہ متاع دنیا کی یہ کثرت اور اس کے حطام فانی و زائل کی یہ بہتات ہی اصل ترقی اور کامیابی ہے، اور اس میں دوسروں سے آگے بڑھ جانا ہی اصل مقصود ہے، سو ایسا نہیں اور ہرگز نہیں، مگر آج چونکہ دنیا کے اس دار الامتحان میں تمہاری آنکھوں پر غفلت کی پٹی بندھی ہوتی ہے، اس لیے تمہیں اصل حقیقت نظر نہیں آتی، ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا دار الجزاء نہیں، دار العمل ہے اس میں انسان کو عمل اور کمائی کا موقع دیا گیا ہے اور فیصلہ آخرت کے اس ابدی اور حقیقی جہاں میں ہوگا جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، جہاں انسان اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا پورا پھل پائے گا، سو اگر تمہاری آنکھیں پھر بھی نہیں کھلتیں تو تم سن لو اور کان کھول کر سن لو کہ زندگی یہی دنیاوی زندگی نہیں جس پر تم لوگ ریجھے ہوئے ہو، اور کامیابی وہی کامیابی ہے جو اس دنیا میں حاصل ہو اور بس۔ جیسا کہ تم لوگوں نے سمجھ رکھا ہے، بلکہ اصل اور حقیقی زندگی وہی ہے جو اس دنیا کے بعد آئے گی اور اصل کامیابی وہی ہے جو اس حقیقی اور ابدی زندگی میں حاصل ہوگی، پس عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ اسی کو پیش نظر رکھا جائے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، آمین۔ سو ان کی تنبیہ مزید کے لیے ان کو ان کے انجام کی تزکیر و یاد دہانی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ عنقریب تم لوگوں کو خود معلوم ہوجائے گا، کہ اصل حقیقت کیا ہے، صحیح راستہ کیا تھا، اور تم نے کیا سمجھ رکھا تھا اور امر واقع کیا تھا، اور یہ کہ جس کو تم لوگوں نے اپنی تنگ نظر اور کوتاہ بینی سے ترقی سمجھ رکھا تھا اور اس کو مقصد حیات بنایا ہوا تھا، وہ سب محض دھوکے کا سامان تھا مگر اس وقت کے اس جاننے اور ماننے کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، سوائے آتش یاس و حسرت میں اضافہ و زیادتی کے، والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس وقت تمہیں اچھی طرح سے اور پورے طور پر معلوم ہوجائے گا کہ زندگی یہی دنیاوی زندگی نہیں تھی جس کے عشق میں تم لوگ اندھے ہو رہے تھے، بلکہ وہ دراصل ایک محدود فرصت اور عارضی منزل تھی جس کا اصل مقصد اور حقیقی مصرف آخرت کی اس اصل منزل اور حقیقی اور ابدی زندگی اور اس کی کامیابی کے لیے محنت کرنا تھا، تب تم لوگوں کو معلوم ہوجائے گا اور اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ کتنا احسان تھا تم لوگوں پر اس دین حنیف اور اس کے ان دعاۃ و مبلغین کا جو تم کو تمہارے اس انجام سے خبردار کرتے، اور تم کو اس جہان غیب اور اس کے تقاضوں سے آگاہ کرتے تھے، سو غافلوں کو تنبیہ و تذکیر مکرر کے طور پر خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ پھر سن لو عنقریب تم لوگوں خود معلوم ہوجائے گا، جب کہ دنیا کی حرص و ہوا میں لگی ہوئی یہ آنکھ بند ہوجائے گی اور حقیقت حال تمہاری سامنے آجائے گی مگر اس وقت کا وہ جاننا تمہارے کچھ کام نہ آئے گا کہ اس کا وقت بہرحال گزر چکا ہوگا، کیونکہ وہ دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کے بعد کا جاننا اور ماننا ہوگا، جب کہ اصل مقصود ایمان بالغیب ہے یعنی بندیکھے ماننا، جس کا وقت اور موقع یہ دنیاوی زندگی ہی ہے، بلکہ وہ اصل حقیقت جو آج تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہے، اس وقت وہ پوری طرح روشن ہو کر تمہارے سامنے آجائے گی، تب تم لوگوں کو سب معلوم ہوجائے گا، اور اس وقت تمہارے حسرت کی کوئی حد و انتہا نہیں ہوگی، والعیاذ باللہ جل وعلا، بکل حال من الاحوال فی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔
Top