Tafseer-e-Madani - Hud : 34
وَ لَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ١ؕ هُوَ رَبُّكُمْ١۫ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَؕ
وَلَا يَنْفَعُكُمْ : اور نہ نفع دے گی تمہیں نُصْحِيْٓ : میری نصیحت اِنْ : اگر اَرَدْتُّ : میں چاہوں اَنْ اَنْصَحَ : کہ میں نصیحت کردوں لَكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر (جبکہ) كَانَ : ہے اللّٰهُ يُرِيْدُ : اللہ چاہے اَنْ يُّغْوِيَكُمْ : کہ گمراہ کرے تمہیں هُوَ : وہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤ گے
اور (تمہارے اس تکبر وعناد کی وجہ سے اب) میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی، خواہ میں تم کو کتنی ہی نصیحت کرنا چاہوں، جب کہ اللہ کو تمہارا گمراہ کرنا ہی منظور ہو، وہی رب ہے تم سب کا، اور اسی کی طرف (بہرحال) لوٹ کر جانا ہے تم سب کو،2
85 ۔ سب کا رجوع اللہ تعالیٰ ہی کی طرف : سو حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ میری نصیحت سے تم لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکے گا خواہ میں کتنی ہی کوشش کروں اگر اللہ تم لوگوں کو گمراہ کرنا چاہے۔ وہی رب ہے تم سب کا اور اسی کی طرف بہرحال لوٹ کر جانا ہے تم سب نے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ ہدایت وغوایت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے کہ اس کا دارومدار انسان کے قلب و باطن پر ہے۔ پس بدباطنی اور سوء اختیار محرومیوں کی محرومی اور تمام مفاسد کی جڑ بنیاد ہے۔ والعیاذ باللہ۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی کیفیت کو پوری طرح جانتا ہے اور وہ نور ہدایت سے انہی لوگوں کو نوازتا ہے جو اس کے لیے اپنے اندر طلب صادق رکھتے ہیں۔ اور جب تم لوگ اس سے محروم ہو تو پھر تم کو ایمان و ہدایت کی دولت کس طرح مل سکتی ہے ؟ سو اپنی محرومی کے ذمہ دار تم لوگ خود ہو۔ پس بدنیتی اور سوء باطن محرومیوں کی محرومی اور تمام فساد و بگاڑ کی جڑ بنیاد ہے۔ والعیاذ باللہ۔ اور صدق و اخلاص اور طلب صادق دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی و بہرہ مندی کا ذریعہ و وسیلہ ہے اور (والیہ ترجعون) کے اس مختصر سے جملے سے کئی اہم حقائق کو واضح فرما دیا گیا ہے مثلا یہ کہ سب کا رجوع اسی وحدہ لاشریک کی طرف ہوگا۔ کسی اور کی طرف نہیں۔ پس جن لوگوں نے اور طرح طرح کے سہارے گھڑ رکھے ہیں کہ ہمارا معاملہ ان کے سپرد ہے سب کچھ وہی کریں گے وہ سب بےبنیاد اور محض وہم و گمان کی تخلیق ہے۔ اسی طرح جن لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم کیڑے مکوڑوں کی طرح مر مٹ کر یونہی ختم ہوجائیں گے ان کا اس طرح سمجھنا بھی غلط ہے نیز رجوع یعنی لوٹنے کے لفظ میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ تم لوگ آئے بھی اسی وحدہ لاشریک کی طرف سے ہو اور تم سب نے لوٹ کر جانا بھی اسی وحدہ لاشریک کی طرف ہے۔ نیز ترجعون کے صیغہ مجہول سے یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ تم چاہو یا نہ چاہو ایسا بہرحال ہو کر رہے گا۔ 86 ۔ انجام اخیر اور مصیر محتوم تذکیر و یاد دہانی : سو انجام اخیر اور مصیر محتوم کی تذکیر و یاد دہانی کے طور پر ارشاد فرمایا کہ وہی وحدہ لاشریک رب ہے تم سب کا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو۔ سو تم چاہو یا نہ چاہو، مانو یا نہ مانو، ایسا بہرحال ہو کر رہے گا۔ اور تم سب کو بہرحال اسی کی طرف لوٹنا اور اس کے یہاں حاضر ہونا ہے تاکہ تم اپنی زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھرپور صلہ و بدلہ پاسکو۔ سو ہر کوئی خود دیکھ لے کہ وہ کل کی اس پیشی کے لیے کیا لیکر جارہا ہے ؟ (وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ) سو پیغمبر کی دعوت و نصیحت اور تذکیر و موعظت کا آخری مرحلہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کرکے اپنی سبکدوشی کا اعلان کرتا ہے اور جھٹلانے والوں کو ان کے اس آخری انجام کے حوالے کردیتا ہے جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں مقدر ہوچکا ہوتا ہے۔ سو اسی کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ان منکروں سے فرمایا کہ تم لوگ خداوند قدوس کے اس قانون کی زد میں آچکے ہو۔ اور تم لوگ اپنے ارادہ و اختیار اور عمل و کردار کے نتیجے میں اسی کے لائق اور سزاوار ہو کہ وہ تم کو اسی گمراہی کی راہ پر چلنے کے لیے چھوڑ دے جس کو تم نے خود اختیار کیا ہے۔ اب تمہارا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ وہی تمہارا رب ہے۔ اسی کے حضور تم لوگوں نے حاضر ہونا ہے اور وہاں پہنچ کر اپنے کیے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top