Tafseer-e-Madani - Ar-Ra'd : 11
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ١ۚ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ
لَهٗ : اس کے مُعَقِّبٰتٌ : پہرے دار مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ : اس (انسان) کے آگے سے وَ : اور مِنْ خَلْفِهٖ : اس کے پیچھے سے يَحْفَظُوْنَهٗ : وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُغَيِّرُ : نہیں بدلتا مَا : جو بِقَوْمٍ : کسی قوم کے پاس (اچھی حالت) حَتّٰى : یہاں تک کہ يُغَيِّرُوْا : وہ بدل لیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں (اپنی حالت) وَاِذَآ : اور جب اَرَادَ : ارادہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِقَوْمٍ : کسی قوم سے سُوْٓءًا : برائی فَلَا مَرَدَّ : تو نہیں پھرنا لَهٗ : اس کے لیے وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مِنْ وَّالٍ : کوئی مددگار
ہر شخص کی حفاظت کے لئے اس کے آگے پیچھے ایسے فرشتے مقرر ہیں، جن کی بدلی ہوتی رہتی ہے، جو اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں (ہر موذی چیز سے) ، اللہ کے حکم سے، بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی (نعمت و عافیت) حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ (شکر نعمت اور اعمال کی صالحہ کی) اپنی حالت کو نہ بدل دے، اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی شامت لانے کا فیصلہ کرے تو پھر وہ کسی سے ٹالے ٹل نہیں سکتی، نہ ہی ایسے لوگوں کے لئے اللہ کے مقابلے میں کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے،1
32۔ نگران فرشتوں کی تذکیر و یاددہانی : سو اس سے واضح فرمادیا گیا کہ ہر کسی کے لئے بدلتے رہنے والے فرشتے مقرر ہیں " جو کہ رات کے الگ ہوتے ہیں اور دن کے الگ۔ اور وہ دونوں صحیح احادیث کی رو سے فجر اور عصر کی نمازوں میں باہم ملتے ہیں (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلوۃ) اور " معقبات "۔ ادلی بدلی ہونے والے " یہ وہ فرشتے ہیں جو انسانی خدمت و حفاظت کے کام پر مامور ہوتے ہیں۔ اور یہ ان دو فرشتوں کے علاوہ ہوتے ہیں جو کہ انسانی اعمال لکھنے پر مقرر ہیں۔ اور جن کو " کراما کا تیبن " کہا جاتا ہے۔ اور جو ادلتے بدلتے نہیں۔ اور ان " معقبات " کی تعداد میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں (روح، خازن، اور مدارک وغیرہ) سو اس سے اہل بدعت کے اس خیال کی بھی تردید ہوجاتی ہے جو وہ نوری مخلوق کو انسان پر ترجیح دینے کے سلسلے میں رکھتے ہیں۔ اور اسی بناء پر وہ انبیائے کرام کی بشریت کا انکار کرکے ان کے نور ہونے کا من گھڑت عقیدہ رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ نوری حضرات بحکم خداوندی اس خاکی انسان کے لئے محافظ اور اس کے باڈی گارڈ کے طور پر مقرر و مامور خدمت ہیں۔ جس سے بشر خاکی کی عظمت شان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بہرکیف ہر انسان کے ساتھ دن رات میں چار فرشتے رہتے ہیں۔ دو اعمال لکھنے والے اور دو حفاظت کرنے والے۔ اعمال لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں ہوتے ہیں۔ دائیں والا نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں والا اس کی برائیاں۔ العیاذ باللہ العظیم۔ جبکہ حفاظت کرنے والے دو فرشتے اس کے آگے اور پیچھے ہوتے ہیں۔ اور دن رات کے ان فرشتوں کا اجتماع صبح اور عصر کی نمازوں میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلوۃ۔ باب صلوہ العصر، مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب فضل صلوتی الصبح والعصر والمحافظۃ علیہما (محاسن التاویل، المراغی، ابن کثیر وغیرہ) والحمد للہ جل وعلا بکل حال من الا حوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ 33۔ نگران فرشتوں کی حفاظت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کی حفاظت کے لئے فرشتے مقرر ہیں جو انسان کی حفاظت کرتے ہیں اللہ کے حکم سے یعنی (من امر اللہ) میں " من " سییہ ہے۔ اور روایات کے مطابق جب لوگوں میں سے کسی کو اس کے مقدر کے مطابق کوئی گزند پہنچنا ہوتی ہے تو اس خاص وقت کے لیے اس کے یہ محافظ فرشتے اس سے الگ ہوجاتے ہیں۔ (طبری، ابن کثیر، معارف للکاندہلوی وغیرہ) چناچہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بناء پر اور اسی کے اذن سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اللہ کے حکم کے برعکس اور اس کی قصاوقدر کے مقابلے میں کسی مدد کرسکے۔ چناچہ جب اللہ کی طرف سے کسی کے نقصان یا تکلیف کا کوئی فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ تو یہ اس سے الگ ہوجاتے ہیں (المراغی وغیرہ) نیز من امر اللہ کے کلمات کریمہ کا دوسرا مطلب بعض حضرات اہل علم کی طرف سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرشتے اللہ کے امر میں سے ہیں جیسا کہ (قل الروح من امر ربی) وغیرہ بعض دوسری آیات کریمہ میں وارد ہے۔ بہرکیف اس سے اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ ہر انسان پر باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت و نگرانی کرتے ہیں۔ سو اس طرح اس آیت کریمہ سے اوپر والی آیت کریمہ کے مضمون کی توضیح و تائید فرما دی گئی۔ پس اللہ تعالیٰ ہر شخص کے ظاہر وباطن اور اس کے شب وروز سے پوری طرح واقف وآگاہ ہے اور اس نے ہر شخص پر اپنے فرشتے نگران اور پہرہ دار کے طور پر مقرر کر رکھے ہیں۔ تو پھر اس کے کسی حال کے مخفی رہ جانے کا کیا سوال ؟ سبحانہ وتعالیٰ پس ہمیشہ اسی کے رضا و خوشنودی کو اپنا مقصود بنانا چاہئے۔ وباللہ التوفیق۔ 34۔ عذاب کے بارے میں دستور خداوندی کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت یعنی اس کی نعمت و عنایت۔ کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت خود نہ بدل دے۔ کہ کریم کرم کرنے کے بعد اپنے کرم کو چھینتا نہیں کہ یہ اس کی شان کرم کے خلاف ہوتا ہے۔ تو پھر جس کی شان کرم کی کوئی حد وانتہاء ہی نہیں اس سے یہ کس طرح متصور ہوسکتا ہے کہ وہ کسی قوم کو کوئی نعمت عطاء فرمانے کے بعد اس سے اس کو یونہی چھین لے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو یہاں پر (مابقوم) سے مراد اس قوم کی وہ اچھی حالت اور عافیت ونعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کسی قوم کو نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے " ای من العافیۃ والنعمۃ " (محاسن التاویل للقاسمی) سو اس کا وہ مطلب جو بعض لیڈر ٹائپ لوگ لیتے رہتے ہیں کہ اللہ کسی قوم کو نعمت سے اس وقت تک نہیں نوازتاجب تک کہ وہ اپنی حالت کو خود نہ بدلے وہ صحیح نہیں۔ کیونکہ اللہ پاک اپنی نعمتوں سے از خود نوازتا ہے نہ کہ ہماری محنت پر۔ آخر ہمارا وجود ہمارے کس عمل کا نتیجہ ہے ؟ اور وجود کے اندر اور اس کے باہر جو بیشمار نعمتیں ہیں آخروہ ہماری کس محنت ومشقت یالیاقت و قابلیت پر ہمیں ملیں ؟ سو اس ارشاد ربانی میں نعمت سے نوازنے کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے چھیننے کے بارے میں اس سنت الہی اور دستور خداوندی کا ذکر وبیان ہے جو قوموں کے عذاب سے متعلق قدرت کی طرف سے مقرر ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ اپنی رحمت و عنایت کا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کرلے۔ سو جب وہ اپنی روش بدل دیتی ہے اور تنبیہ و انذار کے باوجود وہ نہ سنبھلے اور اپنی روش کی اصلاح نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر وہ عذاب بھیج دیتا ہے جس کو کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی۔ العیاذ باللہ العظیم۔ 35۔ کسی قوم کی بدعملی اس کی محرومی کا باعث۔ العیاذ باللہ : سو جب وہ اپنی حالت بدل دے اور شکر نعمت کی بجائے کفران نعمت پر اتر آئے۔ العیاذ باللہ۔ کہ اس طرح وہ لوگ اپنے آپ کو نعمت کے استحقاق اور اس کی اہلیت سے خود محروم کردیتے ہیں۔ یہی مفہوم ہے اس آیت کریمہ کا جو کہ تمام معتبر تفاسیر میں موجود ہے۔ پس اس کا وہ مطلب جو عام طورپ لیڈر ان قوم اور اس طرح کے دوسرے لوگ بیان کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی بری حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو خود نہ بدلے، غلط ہے یہ مطلب اپنے طور پر کسی حدتک اگرچہ صحیح بھی ہو، تاہم اس آیت کریمہ کا مطلب و مصداق بہرحال نہیں ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی عطاء وبخشش ہمارے کسی عمل کی محتاج یا اس پر موقوف نہیں۔ آخر ہمارا یہ وجود اور اس کے اندروباہر کی یہ بیشمار نعمتیں جو قدرت نے ہمیں عطاء فرمائی ہیں اور ہمارے کسی مطالبہ وسوال کے بغیر ہمیں ان سے نوازا گیا ہے، آخر یہ سب ہمارے کس عمل کا ثمرہ وبدلہ قرار دی جاسکتی ہیں ؟ یہ سب کچھ تو محض کرم وعطاء ہے اس اکرم الاکرمین، وحدہ لاشریک کی طرف سے، جس کی شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے سو یہ اس کا کرم ہے نہ کہ ہماری کسی جدوجہد کا نتیجہ وثمرہ۔ سو آیت کریمہ کا مفہوم وہ نہیں جو ایسے لوگ بیان کرتے ہیں۔ 36۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا : سو اللہ جب کسی قوم کے عذاب کا ارادہ فرما لیتا ہے تو پھر کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا۔ العیاذ باللہ۔ کہ مالک و مختار اور متصرف وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اس لیے وہ جب کسی قوم کے عذاب کا ارادہ فرما لے تو اس کے ٹالنے، بدلنے اور روکنے کا یارا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس اہل بدعت اور دوسرے اہل زیغ وضلال کا اس کی مخلوق میں سے بعض ہستیوں کو حاجت رورا ومشکل کشا سمجھنا اور ان کو دافع البلاء قرار دینا سراسر باطل ہے۔ یہاں تک کہ ان غالیوں نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رح) کے بارے میں اس حد تک غلو کیا اور یہاں تک کہا کہ۔ ذی تصرف بھی ہے، مختار بھی ہے ماذون بھی ہے، کار عالم کا مدبر بھی ہے غوث الاعظم دستگیر۔ سو اس سے بڑھ کر ظلم، کھلا شرک اور آیت کریمہ کا صریح معارضہ اور کیا ہوگا ؟ اور پھر بھی دعوی ہے توحید کا۔ العیاذ باللہ الذین لآالہ الا ھو۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ جب کوئی قوم انذار و تنبیہ کے باوجود اپنی روش نہیں بدلتی اور اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں ہوتی تو پھر وہ اللہ کے عذاب کا مورد بن کر رہتی ہے۔ اور جب اللہ پاک اپنے عذاب کا فیصلہ فرما دیتا ہے تو پھر وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتا۔ اور کسی کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکے۔ العیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین۔
Top