Tafseer-e-Madani - Ar-Ra'd : 16
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلِ اللّٰهُ١ؕ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ۙ۬ اَمْ هَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُ١ۚ۬ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَیْهِمْ١ؕ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
قُلْ : پوچھیں آپ مَنْ : کون رَّبُّ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کا رب وَالْاَرْضِ : اور زمین قُلِ : کہ دیں اللّٰهُ : اللہ قُلْ : کہ دیں اَفَاتَّخَذْتُمْ : تو کیا تم بناتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اَوْلِيَآءَ : حمایتی لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ بس نہیں رکھتے لِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں کے لیے نَفْعًا : کچھ نفع وَّلَا ضَرًّا : اور نہ نقصان قُلْ : کہ دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہوتا ہے الْاَعْمٰى : نابینا (اندھا) وَالْبَصِيْرُ : اور بینا (دیکھنے والا) اَمْ : یا هَلْ : کیا تَسْتَوِي : برابر ہوجائے گا الظُّلُمٰتُ : اندھیرے (جمع) وَالنُّوْرُ : اور اجالا اَمْ : کیا جَعَلُوْا : وہ بناتے ہیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے شُرَكَآءَ : شریک خَلَقُوْا : انہوں نے پیدا کیا ہے كَخَلْقِهٖ : اس کے پیدا کرنے کی طرح فَتَشَابَهَ : تو مشتبہ ہوگئی الْخَلْقُ : پیدائش عَلَيْهِمْ : ان پر قُلِ : کہ دیں اللّٰهُ : اللہ خَالِقُ : پیدا کرنیوالا كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّهُوَ : اور وہ الْوَاحِدُ : یکتا الْقَهَّارُ : زبردست (غالب)
کہو کون ہے، رب آسمانوں اور زمین (کی اس حکمتوں بھری کائنات) کا ؟ (جواب چونکہ متعین ہے اس لئے خودہی) کہو کہ وہ اللہ ہی ہے، کہو کیا پھر بھی تم لوگوں نے اس کے سوا ایسوں کو اپنا کار ساز ٹھہرا رکھا ہے، جو خود اپنے لئے بھی نہ کسی نفع کا اختیار رکھتے ہیں نہ نقصان کا،1 کہو، کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا اور آنکھوں والا ؟ یا کہیں اندھیرے اور روشنی بھی باہم یکساں ہوسکتے ہیں ؟2 کیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے کچھ ایسے شریک ٹھہرا رکھے ہیں، جنہوں نے اللہ کی تخلیق کی طرح کچھ پیدا کیا ہو ؟ کہو اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کا، اور وہی ہے یکتا سب پر غالب
48۔ مخلوق کے سائے بھی اللہ تعالیٰ کے لیے سجدہ ریز ہیں : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا اور ان سب کے سائے بھی صبح وشام، سو مخلوق ساری کے سائے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی سجدہ ریز ہیں اور اپنی زبان حال سے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی سجدہ ریز ہونے کا درس دیتے ہیں۔ اور وہ بھی اس طرح کہ سورج کے بالمقابل دوسری جانب جھک کر۔ چناچہ صبح کو جب کہ سورج مشرق میں ہوتا ہے سائے مغرب کی طرف جھکتے ہیں۔ اور شام کو جب کہ سورج مغرب میں ہوتا ہے یہ مشرق کی جانب دراز ہوتے ہیں تاکہ سورج کی طرف جھک کر اس کے لیے پجاریوں سے مشابہت بھی لازم نہ آنے پائے۔ فسبحان اللہ وتعالیٰ عما یصفون۔ اور صبح وشام کے دو وقتوں کو خاص اس لیے فرمایا گیا کہ ان دونوں وقتوں میں سایوں کا یہ طول وپھیلاؤخوب ظاہر وباہر ہوتا ہے اور ان کے سائے اللہ کے حکم کے مطابق گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ اور یہ اپنی زبان حال سے اس حقیقت کا اظہار وبیان کرتے اور دنیا کو اپنے خالق ومالک کے لیے عاجزی کرنے اور اس کے آگے جھکنے کا درس دیتے ہیں۔ اور اس کے لیے یہ ان کی آنکھوں کے سامنے زمین پر پڑے رہتے ہیں۔ اور زجاج کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ کافر اور مشرک تو خود غیر اللہ کے آگے جھکنے سے اکڑتا اور انکار کرتا ہے تو یہ درحقیقت اس کی اپنی فطرت وجبلت سے بغاوت ہے۔ العیاذ باللہ العظیم۔ سو ہر چیز کا سایہ اپنے خالق ومالک کے آگے بچھا رہتا ہے۔ اور وہ رات بھر اپنے اس تکوینی سجدے سے سر نہیں اٹھاتا۔ صبح کو وہ آہستہ آہستہ سراٹھاتا ہے اور پھر سورج کے زوال کے ساتھ اس پر رکوع وسجود کی وہی حالت دوبارہ طاری ہوجاتی ہے۔ اس طرح وہ ایک طرف تو دن رات کے اس پورے دورانیے میں لگاتار مصروف سجدہ رہتا ہے۔ اور دوسری طرف اپنی زبان حال سے لگاتار دنیا کو درس و بصیرت دیتا ہے۔ مگر غفلت کی ماری دنیا اس سے کوئی سبق نہیں لیتی۔ الا ماشاء اللہ۔ 49۔ معبودان باطلہ نہ کسی کے نفع کا اختیار رکھتے ہیں نہ نقصان کا : چنانچہ مشرکین کے دلوں پر دستک دیتے ہوئے ان سے سوال کیا گیا کہ تم لوگ اس سب کے باوجود اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ ایسوں کو اپنا سرپرست اور کارساز مانتے ہوجوخوداپنے لیے بھی نہ کسی نفع کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ نقصان کا ؟ یعنی ایسے میں ان کو اپنا سرپرست اور کارساز بنانا عقل ونقل سب کے تقاضوں کے خلاف ہے، کیوں کہ جب وہ خود اپنے لئے بھی کسی نفع و نقصان کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تو پھر وہ دوسروں کے لیے کیا کرسکتے ہیں ؟ اور جو اتنے عاجز اور اس قدر بےبس ہوں ان کو معبود ماننا اور ان کے آگے جھکنا اور سجدہ ریز ہونا کتنی بڑی حماقت اور کس قدر ظلم ہے۔ العیاذ باللہ العظیم۔ اور جب تم لوگ خود اس بات کو جانتے مانتے اور اس کا اعتراف و اقرار کرتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کی اس ساری کائنات کا خالق ومالک اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے تو پھر اوروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں مانتے ہو ؟ 50۔ اندھا اور آنکھوں والا کبھی باہم برا بر نہیں ہوسکتے : چنانچہ ان کے دلوں پر دستک کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے پوچھو کہ کیا اندھا اور آنکھوں والا باہم برابر ہوسکتے ہیں ؟ جب نہیں اور یقینا وہرگز نہیں تو پھر ایمان کی روشنی اور کفر کی ظلمت والے لوگ آپس میں کس طرح برابر ہوسکتے ہیں ؟ سو کافرو مشرک اندھا ہے جس کو نہ کچھ نظر آتا ہے نہ سوجھتا ہے۔ اور مومن آنکھوں والا اور بینا ہے جو نور ایمان کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ اور راہ حق و ہدایت پر گامزن رہتا ہے۔ سو یہ دونوں آپس میں کبھی اور کسی طور برابر نہیں ہوسکتے۔ نہ حال کے اعتبار سے اور نہ انجام ومآل کے اعتبار سے۔ مومن وموحد اپنے ایمان و یقین کی روشنی میں حق و ہدایت کی راہ پر اور اس صراط مستقیم پر گامزن ہے جو سعادت دارین سے سرفراز کرنے والی اور جنت تک پہنچانے والی راہ ہے۔ سو مومن صادق اپنے خالق ومالک کے فضل وکرم سے حق و ہدایت کی اس راہ پر چلتا ہے جو دوزخ کو جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں آخرکار وہ دوزخ کے ہاویے میں جاگرے گا اور وہاں کے عذاب مقیم میں مبتلا ہوگا۔ 51۔ روشنی اور اندھیرا کبھی باہم برابر نہیں ہوسکتے : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کیا روشنی اور اندھیرے باہم برابر ہوسکتے ہیں ؟ اور جب نہیں اور ہرگز ویقینا نہیں تو پھر ایمان کی روشنی اور کفر کا اندھیرا کس طرح ایک برابرہوسکتے ہیں ؟ سو ان دونوں میں بھی اسی طرح تضاد اور منافات ہے۔ اور دونوں کا نتیجہ وانجام ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور دگرگوں ہے۔ ایمان کی روشنی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی ہے۔ اور کفر کا اندھیرا دارین کی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے۔ العیاذ باللہ العظیم۔ سو پہلی مثال مومن و کافر کی تھی کہ کافر و مشرک اندھا اور اس کے مقابلے میں مومن وموحد بصیر اور آنکھوں والا ہے۔ اور اب یہ مثال ایمان وکفر کی ہے کہ ایمان اور توحید نور ہے اور اس کے مقابلے میں کفر و شرک ظلمات اور اندھیرا ہے۔ 52۔ معبودان باطلہ کی نفی و تردید صفت خلق کے اعتبار سے : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ ایسے شریک ٹھہرا رکھے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے طرح کچھ پیدا کیا ہو جس سے ان کو شبہ ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ بھی خالق ہے اور فلاں ہستی بھی خالق ہے ؟ پھر اس اشتباہ کی بناء پر انہوں نے اس کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرالیا ہو ؟ اور اس طرح یہ کسی حد تک معذورقرار پاتے ہوں ؟ اور جب ایسا نہیں اور یقینا اور ہرگز نہیں۔ تو پھر ان کیلئے کسی طرح کے اس اشتباہ یا عذر کا کیا سوال پیدا ہوسکتا ہے ؟ سو اللہ کے سوا اور کسی معبود کے لیے کوئی دلیل وبرہان ممکن ہی نہیں (ومن یدع مع اللہ الہا آخرلابرھان لہ بہ فانما حسابہ عندربہ انہ لایفلح الکافرون) (المومنون : 117) یعنی جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارا جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو یقینا اس کا حساب اس کے رب کے یہاں ہی ہے بلاشبہ کافر کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ 53۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کا : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا اور حصر وقصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہے یکتا اور سب پر غالب سو جب خلق و ایجاد میں اس کا کوئی شریک نہیں تو پھر اس طرح کے کسی اشتباہ اور عذرومعذوری کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ تو پھر یہ لوگ اس وحدہ لاشریک کے لیے طرح طرح کے شریک اور ساجھی آخر کیوں اور کیسے ٹھہراتے ہیں ؟ فسبحان اللہ الخالق المالک الذی لاشریک لہ۔ تبارک اسمہ وتعالیٰ جدہ ولا الہ غیرہ۔ سو معبود برحق بہرحال اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ اس کے سوا اور کسی بھی معبود کے لیے کوئی دلیل ممکن ہی نہیں کہ ایسا کوئی معبود ہے ہی نہیں سو اللہ ہی معبود برحق ہے جو ہر چیز کا خالق، سب پر غالب اور ان پر کنڑول رکھنے والا ہے۔ ساری مخلوق اسی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے اور سب نے آخر کار اسی کے حضور حاضر ہو کر اپنی زندگی کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا صلہ وبدلہ پانا۔
Top