Tafseer-e-Madani - Ar-Ra'd : 22
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور جو صبر (و ضبط) سے کام لیتے ہیں اپنے رب کی رضا جوئی کے لئے اور وہ قائم رکھتے ہیں نماز کو، اور خرچ کرتے ہیں (راہِ حق و صواب میں) ان چیزوں میں سے جو ہم نے ان کو بخشی دی ہیں، پوشیدہ طور پر بھی اور اعلانیہ بھی، اور وہ ٹالتے ہیں برائی کو اچھائی کے ساتھ، ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے آخرت کا گھر،
67۔ اولوالالباب کی پانچویں صفت صبرواستقامت : سووہ ہمیشہ صبر واستقامت سے کام لیتے ہیں راہ حق وصواب پر جم کر۔ اور مصائب وآلام پر ثابت قدم رہ کر۔ سو یہ اولوالالباب " کی پانچویں بڑی صفت ہے کہ وہ راہ حق وصبر واستقامت سے کام لیتے ہیں اور ان کے سامنے اپنے رب کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ کہ رب کی رضا کا حصول دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ سو وہ راہ حق میں پیش آنے والے مصائب ومشاکل پر جزع وفزع کی بجائے صبر وضبط اور استقلال واستقامت سے کام لیتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔ 68۔ اولوالالباب کی چھٹی صفت اقامت صلوۃ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ نماز کو قائم رکھتے ہیں پس نماز کے سلسلے میں صرف پڑھنا اور ادا کرنا ہی مقصود نہیں بلکہ اس کی اقامت مطلوب ہے یعنی نماز کو علی وجہ المطلوب قائم کرنا، جس میں سب سے اہم اور اصل مقصد پڑھنا اس کے لئے قصد و ارادہ کو درست رکھنا ہے، کیونکہ اقامت کا اصل معنی و مفہوم کسی چیز کو اس کے اصل مقصد کے اعتبار سے سیدھا رکھنا ہوتا ہے اور کسی چیز سے اس مطلوبہ نتائج وثمرات کے حصول کے اعتبار سے اصل مدارو انحصار اسی چیز پر ہوتا ہے، پس نماز کی اقامت کے سلسلے میں اصل چیز یہی ہے کہ اس کی ادائیگی کے سلسلے میں انسان کی نیت اور اس کا ارادہ درست ہو اس میں کوئی شائبہ شرک نہ پایا جاتا ہوں کیوں کہ نماز دین حنیف کا ستون ہے اور ستون کے لیے ضروری ہے کہ وہ بالکل سیدھا ہو، ورنہ اس کے سہارے پر قائم ہونے والی چھت برقرار نہیں رہ سکتی، اور یہ مضمون اس حدیث نبوی ﷺ سے مستفاد ہوتا ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا الصلوۃ عماد الدین فمن اقامھا اقام الدین ومن ھدمھا فقد ھدم الدین۔ یعنی نماز دین کا ستون ہے، پس جس نے اس کو قائم رکھا، اس نے پورے دین کو قائم رکھا اور جس نے اس کو گرادیا، اس نے پورے دین کو گرا دیا، اور نیت و ارادہ کی صحت و درستگی کے بعد اقامت صلوۃ میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کو اس کے آداب وشروط اور احکام کی رعایت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ بہرکیف اس کے اولو الالباب کی پانچویں صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ نماز کو قائم رکھتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ 69۔ اولوالالباب کی ساتویں صفت انفاق فی سبیل اللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ خرچ کرتے ہیں ان چیزوں میں سے جو ہم نے ان کو دی اور بخشی ہوئی ہیں۔ پوشیدہ طور پر بھی اور اعلانیہ طور پر بھی، سو انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایک اہم مطلب اور اولوالالباب کی ایک خاص صفت ہے خواہ پوشیدہ طور پر ہو یا اعلانیہ طور پر، ان دونوں میں سے ہر صورت کی اپنے طور پر خاص اہمیت ہے، پوشیدہ اور خفیہ طور پر خرچ کرنے میں خیریت اور بہتری کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس سے دوسروں کو بھی انفاق کی ترغیب ہوتی ہے اور وہ بھی خیر میں شریک ہونے کے لیے آمادہ اور تیار ہوتے ہیں۔ اور دوسراپہلو اس میں خیریت کا یہ ہے کہ اس میں دوسروں کے لیے بدظنی اور بدگمانی کا سد باب ہوتا ہے سو اس طرح پوشیدہ اور اعلانیہ طور پر خرچ کرنے کے دونوں درست اور جائز ہیں۔ انفاق بہرحال اللہ ہی کے لئے اور اسی کی رضا کے لیے ہونا چاہئے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ 70۔ اولوالالباب کی آٹھویں صفت برائی کا بدلہ اچھائی سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے ہیں، یعنی ان کا طریقہ یہ نہیں ہوتا ہے کہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوں یا اینٹ کا جواب پتھر سے دیں، بلکہ وہ صبر و برداشت سے کام لیتے ہیں اور حسن معاملہ کے اعلی پیمانے پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور برائی کے بدلے میں اچھائی کا معاملہ کرتے ہیں اور وہ برائی کو برائی سے نہیں بلکہ اچھائی سے دفع کرتے ہیں۔ سو برائی کے بدلے میں اچھائی سے کام لینا ایک عظیم الشان اور انقلاب آفرین تعلیم ہے۔ جس سے معاشرے سے برائی کا قلع قمع ہوتا ہے اور نیکی اور حسن اخلاق کو فروغ ملتا ہے۔ اسی لیے دوسرے مقام پر ارشاد ہے فرمایا فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم، یعنی اس سلوک کے نتیجے میں تمہارے دشمن بھی تمہارے گہرے دوست بن جائینگے ،۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوذر ؓ سے فرمایا کہ غلطی اور خطا کو نیکی سے مٹاؤ یعنی غلطی اور خطا کے بعد نیکی کرو کہ اس سے برائی خود بخود مٹ جائے گی، پس اگر کوئی تمہارے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتا ہے اور گالم گلوچ سے کام لیتا ہے یا کسی طرح کی اذیت پہنچاتا ہے تو تم اس کے جواب میں اسی طرح کا برتاؤکرنے کی بجائے صبر و برداشت اور حسن سلوک کا معاملہ کرو اس سے برائی خود بخود مٹ جائے گی اور خوبی اور اچھائی فروغ پائے گی، لیکن اس کے برعکس اگر کوئی برائی کے بدلے میں برائی سے کام لے گا اور ایک کے بدلے میں دو گالیاں دے۔ گا پھر برائی مٹنے کے بجائے بڑھے گی اور پھیلے گی۔ سو اولوالالباب یعنی عقل خالص رکھنے والوں کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی بجائے اچھائی سے دیتے ہیں، جس سے ایک طرف تو نیکی کو فروغ ملتا اور صالح معاشرہ نشوونما پاتا ہے اور دوسری طرف ان کے باطن کو جلا ملتی ہے اور اس میں نکھارپیدا ہوتا ہے۔ اور وہ پاکیزہ سے پاکیزہ تر انسان بنتے جاتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔
Top