Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 124
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں جُعِلَ : مقرر کیا گیا السَّبْتُ : ہفتہ کا دن عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَيَحْكُمُ : البتہ فیصلہ کریگا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
سوائے اس کے نہیں کہ ہفتے کا دن تو انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا، جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا، اور یقیناً تمہارا رب (عملی اور آخری طور پر) ، فیصلہ فرما دے گا ان لوگوں کے درمیان ان تمام باتوں کا جن کے بارے میں یہ اختلاف میں پڑے ہوئے تھے،
265۔ حکم سبت ملت ابراہیمی کا جزء نہیں تھا :۔ بلکہ یہ یہودیوں کی اپنی اختراع تھی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” سوائے اس کے نہیں کہ ہفتے کا دن تو انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا “ یعنی یہود پر۔ جنہوں نے جمعہ کی بجائے ہفتہ کے دن کی تعظیم و تقدیس کا مطالبہ کیا۔ تو ان پر تغلیظ وتشدید کے طور پر اسی دن کی تعظیم لازم کردی گئی۔ ورنہ ملت ابراہیمی میں تعظیم جمعہ کے دن ہی کی تھی۔ (روح، قرطبی، ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، فتح القدیر وغیرہ) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان پر اپنی امت کو جمعہ کے دن ہی کی تعظیم کا حکم دیا مگر یہود نے نہ مانا اور ہفتے کے دن کی تعظیم ہی پر اصرار کیا۔ تو ان پر ہفتے کے دن کی تعظیم کو مقرر اور لازم کردیا گیا۔ اور مزید یہ کہ اس دن ان پر مچھلی کا شکار بھی منع کردیا گیا۔ مگر ان لوگوں نے اس حکم وارشاد کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں ان پر لعنت و پھٹکار کردی گئی اور ان کی شکلوں کو مسخ کردیا گیا۔ (معارف والمراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف اس سے یہود بےبہبود کے اس اعتراض کا جواب دیا کہ مسلمان یوم سبت کا احترام کیوں نہیں کرتے۔ جیسا کہ ہم کرتے ہیں وغیرہ۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ” سبت “ یعنی ہفتے کے دن کی تعظیم کا حکم ملت ابراہیمی میں تھا ہی نہیں۔ بلکہ اس میں بھی جمعہ کی تعظیم ہی کا حکم تھا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو جمعہ کے دن کے بارے میں ہی فرمایا تھا۔ مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ ہفتے کے دن ہی اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے فارغ ہوا تھا اس لیے ہم اسی دن کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ کریں گے۔ سو ان پر اسی دن کی تعظیم فرض کردی گئی۔ اور اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو جمعہ کے ہی دن کی تعلیم دی۔ مگر انہوں نے کہا کہ نہیں ہم تو اتوار کے دن کی کریں گے کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے کائنات کی خلقت کا آغاز فرمایا تھا۔ تو ان کیلئے اتوار کے دن ہی کو مقرر فرما دیا گیا۔ پھر امت محمدیہ کیلئے بھی جمعہ کے دن کو پیش فرمایا گیا تو انہوں نے بغیر کسی اختلاف کے اس کو قبول کرلیا اور اسی کو صیحیں وغیرہ کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ اور اس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہم لوگ سب سے آخر میں آئے لیکن قیامت کے روز سب سے پہلے اٹھیں گے۔ اور آپ نے مزید فرمایا کہ ہم نے جمعہ کے دن کو اپنایا اور یہود نے اس سے ایک دن بعد یعنی ہفتے۔ اور نصاری نے اس سے بھی ایک دن بعد یعنی اتوار کو۔ سو یہ لوگ ہمارے تابع ہیں۔ یہود ایک دن پیچھے ہیں اور نصاری دو دن۔ (المعارف للکاندھلوی، ابن کثیر، مدارک التنزیل اور روح وغیرہ) سو امت مسلمہ ہر لحاظ سے ملت ابراہیمی پر ہے۔ والحمد للہ جل وعلا۔ 266۔ اختلافات کا آخری فیصلہ قیامت کے روز :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور یقینا تمہارا رب فیصلہ فرمائے گا قیامت کے دن انکے تمام اختلافات کا “ یعنی علمی، قطعی اور آخری طور پر۔ اس طرح کہ ہر کسی کو اس کے اپنے اس ٹھکانے تک پہنچا دیا جائے گا جس کا وہ اپنے عقیدہ وعمل کی بناء پر مستحق ہوگا۔ ورنہ علمی طور پر تو فیصلہ اس دنیا میں ہی فرما دیا گیا ہے اور کتاب وسنت کی تعلیمات مقدسہ کے ذریعے پوری طرح واضح فرما دیا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟ لیکن نہ ماننے والے پھر بھی نہیں مانتے اور کتنے ہی ایسے ہیں جو اس کے باوجود اپنے کفر وباطل پر اڑے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں۔ سو قیامت کے اس یوم فصل میں ایسے لوگوں کے تمام اختلافات کا آخری اور عملی فیصلہ کردیا جائے گا۔ اور اس طور پر کہ اس کے بعد کسی کیلئے کسی طرح کے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ سو اس یوم الفصل والتمیز میں پوری طرح واضح ہوجائے گا کہ حق پر کون تھا اور باطل پر کون ؟ صحیح کون تھا اور غلط کون ؟ اور اس طور پر کہ کسی کیلئے بھی کسی شک وانکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
Top