Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے مڑھ دیا ہر انسان کے شگون کو اس کے گلے میں، اور نکال دکھائیں گے ہم اس کو قیامت کے روز ایک ایسی کتاب (اس کے کئے کرائے کی) جسے وہ اپنے سامنے کھلا پائے گا، (اور اس سے کہا جائے گا کہ لے)
30۔ ہر انسان کا شگون خود اس کے اپنے گلے میں :۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ہر انسان کا شگون خود اس کے اپنے گلے میں ہے۔ پس ہر انسان کی سعادت یا نحوست دراصل اس کے اپنے عمل و کردار ہی سے وابستہ ہے نہ کہ اس خارج سے۔ اور وہ گلے کے ہار کی طرح اس سے لٹکی اور چمٹی رہے گی۔ یہاں تک کہ اس کو اپنے آخری انجام تک پہنچا دے گی۔ پس انسان کو اپنا شگون باہر سے دیکھنے اور تلاش کرنے کی بجائے خود اپنے عمل میں دیکھنا چاہیے۔ (ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، المراغی اور محاسن وغیرہ) ۔ اور اپنی مصیبت ومشکل کا الزام دوسروں کو دینے اور ان کا ذمہ دار انکو ٹھہرانے کی بجائے خود اپنے اوپر نظر رکھنی چاہیے۔ اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔” طائر “ کے اصل معنی پرندے کے ہیں لیکن یہاں پر اس سے مراد انسان کا شگون اور اس کا حظ اور نصیب ہے۔ کیونکہ عرب کے لوگ پرندوں سے فال لیتے اور اپنی قسمت کا حال معلوم کیا کرتے تھے۔ اور آج بھی دنیا میں اور خود ہمارے ملک اور معاشرے میں اس طرح کے لوگ موجود ہیں جو ایسے ہی بےبنیاد اور ادہام و خرافات میں مبتلا ہیں۔ سو ایسے لوگ کوے کے دائیں طرف اڑنے کو سعادت کی نشانی قرار دیتے ہیں اور بائیں طرف اڑنے کو نحوست کی نشانی۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ وضلال، وسوء وانحراف۔ 31۔ قیامت کے روز ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے سامنے :۔ سو اس ارشاد واضح فرما دیا گیا کہ قیامت کے روز ہر انسان کو اسکا نامہ اعمال کھلا ہوا دیا جائے گا۔ جس میں وہ اپنا زندگی بھرکا کیا کرایا سب کچھ موجود پائے گا۔ (فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ) ۔ سو اس میں نہ کوئی کمی ہوگی نہ پیشی۔ نہ کسی طرح کا ظلم نہ زیادتی۔ نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائے گی اور نہ کسی پر کسی ناکردہ گناہ کا بوجھ ڈالا جائے گا۔ بلکہ اس کے انہی اعمال کا ریکارڈ اس کو پیش کردیا جائے گا جو وہ زندگی بھر خود کرتارہا تھا۔ سو جو لوگ اپنے کفر وانکار اور اپنے مزعومہ شرکاء وشفعاء اور اپنی خود ساختہ اور فرضی ووہمی سرکاروں ہستیوں اور آستانوں وغیرہ کے اعتماد پر نچنت اور بےفکر بیٹھے ہوئے ہیں انہیں یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ یہ سب کچھ بےحقیقت اور بےبنیاد ہے۔ اصل چیز انسان کا اپنا عقیدہ و ایمان اور اس کا عمل و کردار ہے۔ اور اسی بناء پر ہم نے ہر انسان کا نصیبہ اور اس کا شگون اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے۔ اور اس نے زندگی بھر جو کچھ کیا کرایا ہوگا اس کو قیامت کے روز ایک کھلی کتاب کی شکل میں اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔
Top