Tafseer-e-Madani - Maryam : 37
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ١ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
فَاخْتَلَفَ : پھر اختلاف کیا الْاَحْزَابُ : فرقے مِنْۢ بَيْنِهِمْ : آپس میں (باہم) فَوَيْلٌ : پس خرابی لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : کافروں کے لیے مِنْ : سے مَّشْهَدِ : حاضری يَوْمٍ عَظِيْمٍ : بڑا دن
پھر بھی مختلف جماعتیں آپس میں اختلاف میں پڑگئیں۔ سو بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر و انکار کیا ایک بڑے دن کے آنے سے
47 حق کے واضح ہوجانے کے باوجود لوگوں کا باہمی اختلاف : سو یہ امر پوری طرح واضح ہوگیا کہ حق و ہدایت اور سلامتی و نجات کا راستہ صرف توحید کا راستہ ہے۔ یہ مختلف جماعتیں پھر بھی آپس میں اختلاف میں پڑگئیں۔ چناچہ کچھ نے ان کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیا اور پھر کفارہ کا خود ساختہ عقیدہ گھڑا۔ اور کچھ نے آپ (علیہ السلام) کے نسب طاہر میں طعن کیا اور آپ کو ولدالزنا قرار دیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ حالانکہ آپ کے بارے میں اصل حقیقت بیان کردی گئی کہ وہ خدا کے برگزیدہ بندے اور اس کے سچے رسول تھے۔ جو باپ کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کلمہ " کن " سے پیدا ہوئے تھے اور بس۔ اسی لیے آپ کو " کلمۃ اللہ " اور " روح اللہ " کہا جاتا ہے۔ اور اس حق کو ماننے اور چاہنے کی توفیق اور سعادت صرف مسلمانوں کو نصیب ہوئی جو کہ عین راہ حق و صواب پر ہیں۔ اور باقی سب بہکے بھٹکے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو حق و ہدایت صدق و صواب اور توحید و وحدانیت کی اس راہ نجات سے ہٹ کر یہود بےبہبود نے حضرت عیسیٰ کی پاکیزہ ہستی کو ولد الزنا اور آنجناب کے گہوارے کے معجزانہ کلام کو ان بدبختوں نے سحر کا کرشمہ قرار دیا۔ اور نبوت سے سرفرازی کے بعد آپ کے معجزات کی بنا پر آپ کو ساحر کہا۔ ( معارف القرآن وغیرہ ) ۔ اور اس طرح ان بدبختوں نے اپنی لعنت کے ٹھپے کو اور پکا کیا جبکہ دوسری طرف اس کے برعکس نصاریٰ نے آپ کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیا۔ ( ابن کثیر اور معارف وغیرہ ) ۔ اور اس طرح وہ راہ حق و ہدایت سے ہٹ کر کفر و شرک کی راہ پر چل پڑے۔ اور پھر آگے خود عیسائیوں کے اندر مختلف گروہ آپس میں اختلاف میں پڑ گیے۔ کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ۔ کسی نے کوئی عقیدہ گھڑ لیا اور کسی نے کچھ اور۔ سو توحید کی شاہراہِ حق سے منحرف ہونے والے یہ سب ہی گروہ ہلاکت و تباہی کی مختلف پکڈنڈیوں میں پڑگئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 48 کافروں کے لیے قیامت کے روز بڑی ہی ہولناک خرابی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بڑی خرابی ہے کافروں کیلئے ایک بڑے ہی ہولناک دن کے آنے سے۔ یعنی قیامت کے دن کے آنے سے جبکہ سب کچھ سامنے آجائے گا اور ہر کسی کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پھل ملے گا۔ سو وہ دن کافروں پر بڑا ہی سخت ہوگا۔ ایسا سخت کہ اس کے عذاب اور اس کی شدت کا اس دنیا میں کسی کیلئے تصور کرنا بھی ممکن نہیں۔ اور وہ ایسا سخت اور اس قدر ہولناک دن ہوگا کہ اس دن انسان کے خود اپنے اعضاء وجوارح اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور وہ ایسا سخت اور اس قدر ہولناک دن ہوگا کہ کافروں کیلئے اس کے عذاب سے بچ نکلنے کی اور تلافی مافات کی پھر کوئی صورت ان کافروں کیلئے ممکن نہیں ہوگی۔ کیونکہ حیات دنیا کی فرصت انکے ہاتھ سے نکل چکی ہوگی۔ اور اس روز کافر رہ رہ کر افسوس کریں گے اور مارے افسوس کے اپنے ہاتھ کاٹ کھائیں گے۔ مگر اس کا ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس ارشاد ربانی سے سب کفار و منکرین کو بالعموم اور نصاریٰ کو بالخصوص خبردار فرمایا گیا ہے جو حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا مانتے ہیں کہ اس یوم عظیم میں تمہارے لیے بہت بڑی خرابی ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ اپنے ان جھوٹے اور مشرک پیروکاروں کے خلاف گواہی دیں گے اور ان سے اپنی براءت و بیزاری کا اعلان کریں گے۔ جیسا کہ سورة مائدہ کی آیات نمبر 116 اور 117 میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ اس لیے تم لوگ اپنی اصلاح کرلو قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تمہیں ہمیشہ کا عذاب برداشت کرنا پڑے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کے ہر شائبے سے ہمشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔
Top