Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 175
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَ الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ١ۚ فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : مول لی الضَّلٰلَةَ : گمراہی بِالْهُدٰى : ہدایت کے بدلے وَالْعَذَابَ : اور عذاب بِالْمَغْفِرَةِ : مغفرت کے بدلے فَمَآ : سو کس قدر اَصْبَرَھُمْ : بہت صبر کرنے والے وہ عَلَي : پر النَّارِ : آگ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنایا گمراہی کے اندھیروں کو بدلے میں ہدایت کے نور عظیم کے اور عذاب کو بدلے میں بخشش کے سو کس قدر صبر اور حوصلہ رکھتے ہیں یہ لوگ یہ (دوزخ کی اس ہولناک) آگ پر4
470 ہدایت کے بدلے میں گمراہی کے خریدنے کا مطلب ؟ : یعنی جس طرح گاہک اور خریدار اپنی پسند اور اپنے اختیار سے کوئی چیز بشوق ورغبت خریدتا ہے، اسی طرح ان لوگوں نے اپنی خواہشات سے مغلوب ہو کر نور حق و ہدایت سے منہ موڑا اور گمراہی کے اندھیروں کو اپنایا۔ اسی کو یہاں پر " اشتراء " کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ ہم نے اپنے ترجمہ کے اندر اسی مفہوم کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ والحمد للہ ۔ سو حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے تو ان کو حق اور ہدایت کی دولت سے نوازنے اور سرفراز کرنے کیلئے پختہ اور موثر انتظام فرمایا تھا، کہ ایک طرف تو اس کو عہد الست کی صورت میں نور فطرت کے طور پر ان کی طبیعت اور فطرت وجبلت میں پیوست فرما دیا۔ اور دوسری طرف ان کو نور عقل کی نعمت سے نواز کر کائنات کی یہ حکمتوں اور عبرتوں بھری کھلی کتاب انکے سامنے رکھ دی، اور ان کو اس میں غور و فکر کی دعوت دی۔ اور تیسری طرف آسمانی کتابوں اور اپنے رسولوں کے ذریعے ان کو دولت ہدایت سے نوازا، مگر انہوں نے اس سب کے باوجود نور حق و ہدایت سے منہ موڑ کر کفر و باطل کے اندھیروں کو اپنایا، اور اپنے لیے دارین کی ہلاکت اور تباہی کا سامان کیا اور یہی نتیجہ ہوتا ہے خواہش پرستی اور عناد و ہٹ دھرمی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 471 منکرین کی غفلت و لاپرواہی پر اظہار افسوس و تعجب : سو منکرین کی غفلت و لاپرواہی اور ان کی بےحسی پر افسوس اور تعجب کے اظہار کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیسے صبر کیے بیٹھے ہیں یہ لوگ دوزخ کے عذاب پر : " ما اصبر " کا صیغہ " ما احسن " وغیرہ کی طرح اظہار تعجب کیلئے ہے کہ یہ لوگ دوزخ کی آگ پر کس طرح صبر کیے بیٹھے ہیں۔ سو یہ دوزخ کے عذاب سے خبردار کرنے کا ایک بڑا موثر اسلوب ہے کہ یہ لوگ دوزخ کی اس راہ پر چلے جا رہے ہیں، اور انہیں اس کی کوئی فکر و پرا وہ ہی نہیں، کہ ہم کس انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ اور فرصت دنیا کی اس محدود مہلت کے ختم ہونے کے بعد پھر اس ہولناک انجام سے بچنے کی کوئی صورت ان کیلئے ممکن نہیں ہو سکے گی۔ سو یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ایسا جرم کر رہا ہو، جس کا لازمی انجام جیل ہو، تو اس سے کہا جائے کہ " صاحب یہ شخص کس قدر جیل اور قید کی زندگی کا شوقین ہے "۔ سو یہاں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایمان و یقین سے محرومی انسان کو کس قدر احمق، لاپروا اور بے ِحس بنا دیتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور ایسے بدبخت اور محروم لوگ راہ حق و ہدایت سے اتنے دور جا پڑے کہ اب ان کو واپسی کی راہ سوجھتی ہی نہیں۔ سو ضد اور ہٹ دھرمی کا مرض بڑا ہی سنگین مرض ہے کہ اس سے انسان بگڑ کر کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔ وََالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔
Top