Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا : اور تم قائم کرو الصَّلَاةَ : نماز وَآتُوْا : اور ادا کرو الزَّکَاةَ : زکوۃ وَارْکَعُوْا : اور رکوع کرو مَعَ الرَّاكِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ
اور قائم کرو تم نماز کو ایمان (لا کر) اور ادا کرو زکوٰۃ (طیب خاطر) کے ساتھ اور (دل و جان سے) جھک جاؤ تم اپنے (مالک حقیقی کے حضور) دوسرے جھکنے والوں کے ساتھ6
130 زکوٰۃ بطیب خاطر ادا کرنے کی ہدایت : کیونکہ " ایتاء " کا استعمال بطبب خاطر دینے ہی کے لئے ہوتا ہے، جیسا کہ " اتیان " بطبب خاطر آنے کے لئے۔ پس زکوٰۃ کی ادائیگی اپنے مالک کا حق سمجھ کر، اور اپنی بہتری و بھلائی کا ذریعہ جان کر بطبب خاطر کرو، نہ کہ بوجھ سمجھ کر ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ الْعَظِیْمِ ۔ سو زکوٰۃ کی ادائیگی ایک عظیم الشان عبادت وسعادت ہے کہ اس سے ایک طرف تو اس خالق ومالک کا حق ادا ہوتا ہے جس نے مال و دولت کی ان تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور اس کے نتیجے میں اس کی رضاء و خوشنودی حاصل ہوتی ہے، اور دوسری طرف اس سے اپنے باطن کا تزکیہ اور اس کی صفائی ہوتی ہے، اور تیسری طرف اس سے ضرورتمندوں کی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے، معاشرے کی اصلاح اور بہتری ہوتی ہے، اور انسان کو ضرورت مندوں کی دعائیں ملتی اور اس طرح ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے، سو عبادت اور خاص کر نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ اسی لیے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر ان دونوں کا ایک ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ 131 رب کے حضور جھکنے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جھک جاؤ تم اپنے خالق ومالک کے حضور۔ سو اپنے خالق ومالک کے حضور دل و جان سے جھک جانے کی ہدایت ایک عظیم الشان ہدایت ہے، کہ وہی معبود برحق اس کا حقدار ہے کہ اس کے آگے جھکا جائے اور بس۔ اس کے سوا اور کسی کے بھی آگے جھکنا درست نہیں، اور اس کے سوا کسی اور کے آگے جھکنا انسان کی حد درجہ تذلیل ہے، وَالْعِیَاذ باللَّہ الْعَظِیْم مگر افسوس کہ اس کے باوجود آج کتنے ہی ایمان و توحید کے دعویدار کلمہ گو ایسے ہیں جو یہاں اور وہاں، جگہ جگہ، اور طرح طرح کی چیزوں کے آگے جھکتے ہیں، اور اس طرح وہ اپنی تذلیل اور خداوند تعالیٰ کے غضب کا سامان کرتے ہیں، وَالْعِیَاذ باللَّہ الْعَظِیْم بہرکیف جھکنا یعنی رکوع و سجود جو کہ نہایت عاجزی اور فروتنی کے مظہر ہیں، یہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کا حق ہے جو کہ سب کا خالق ومالک اور معبود حقیقی و برحق ہے، سبحانہ و تعالیٰ اس کے حضور جھکنا اور اس کی رضاء کیلئے رکوع و سجود بجا لانا اس کے بندوں کے ذمے اسکا حق بھی ہے، اور اسی میں اس کے بندوں کی عظمت شان اور سعادت دارین کا سامان بھی، کہ یہ رب کی رضاء و خوشنودی کے حصول اور اس کی نصرت و امداد سے سرفرازی کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے، اسی لیے نبی کریم ﷺ کے بارے میں وارد و منقول ہے کہ جب آپ ﷺ کو کوئی مشکل پیش آتی تو آپ ﷺ نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے۔
Top