Jawahir-ul-Quran - Al-Israa : 76
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اور اگر ہم ان پر رحم کر کے ان سے وہ تکلیف دور کردیں جو ان کو پہنچی ہوتی ہے تو یہ یقینا شکر گزار بننے کی بجائے الٹا اپنی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے برابر اسی میں لگے رہیں گے،
94 سرکشوں کے لیے کوئی نشانی کارگر نہیں ہوتی : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ " سرکش لوگوں کا اپنی سرکشی ہی پر اصرار رہا جس کے نتیجے میں آخرکار وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور مصیبت کے وقت توبہ اور اصلاح کے جو وعدے ان لوگوں نے کئے ہوتے ہیں ان سب کو یہ بھول جاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس طرح کی مصیبتوں سے جو کہ اصل میں انسان کو جھنجھوڑنے کیلئے ہوتی ہیں ان کی اکڑی ہوئی گردنوں میں کوئی خم نہیں آتا۔ اور یہ اپنے خالق ومالک کی طرف جھکنے اور راہ حق وصواب کو اپنانے کی بجائے اپنی سرکشی اور بےراہ روی ہی پر اڑے رہتے ہیں اور طرح طرح کی منطق اور فلسفے بگھارنے لگتے ہیں کہ صاحب ایسے ہوتا رہتا ہے۔ اچھے برے حالات آتے رہتے ہیں اور ہمارے باپ دادا سے بھی ایسے ہوتا رہا۔ تو پھر ایسوں کو ہدایت ملے تو کیونکر ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو سرکشوں اور اپنی سرکشی پر اصرار کرنے والوں کے لیے کوئی نشانی اور کوئی تنبیہ کارگر نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ ایسے لوگ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ سو عناد و سرکشی محرومیوں کی محرومی اور ہولناک خسارے کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو جو معاند اور ہٹ دھرم لوگ ایمان لانا ہی نہ چاہیں ان کے لیے کوئی نشانی اور تنبیہ کارگر نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَمَا تُغْنَی الآیَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لاَّ یُؤمِنُوْنَ } ۔ ( یونس :101) ۔
Top