Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 22
یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَ یَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا
يَوْمَ : جس دن يَرَوْنَ : وہ دیکھیں گے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے لَا بُشْرٰى : نہیں خوشخبری يَوْمَئِذٍ : اس دن لِّلْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کے لیے وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہیں گے حِجْرًا : کوئی آڑ ہو مَّحْجُوْرًا : روکی ہوئی
جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن ایسے مجرموں کے لیے خوشی کا کوئی موقع نہیں ہوگا، وہ (الٹا گھبرا کر) پکاریں گے کہ کوئی مضبوط پناہ کردی جائے (بچنے کے لیے
29 مجرموں کے لیے ایک تنبیہ و تہدید : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جس روز یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے اس روز مجرموں کے لیے فرشتوں کے دیکھنے سے کوئی خوشی نہ ہوگی "۔ " مجرم لوگوں کے لئے خوش خبری نہ ہوگی " کے اس ارشاد ربانی سے معلوم ہوا کہ ایمان والے صالحین کے لئے خوشخبری ہوگی۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ۔ { اَبْشِرُوْا بالْجَنَّۃِ التِّیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْن } ۔ (حم السجدۃ : 30) اور اس کا مظاہرہ موت کے وقت بھی ہوگا اور قیامت میں بھی ۔ فَشَرِّفْنَا اللّٰہُم بِہَا یَا من بیدہ ملکوت کل شی ۔ بہرکیف یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ آج تو یہ لوگ فرشتوں کے دیکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن ان کیلئے خوشی کا کوئی موقعہ نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ ان کیلئے ذلت و رسوائی کا موقعہ ہوگا۔ سو ان کو فرشتے موت کے وقت نظر آئیں گے تو وہ ان کیلئے خوشی کی بجائے عذاب کا پیغام لائیں گے۔ اور وہ ان کے مونہوں اور ان کی پیٹھوں پر ماریں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَلَوْ تَرَی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٓئِکُۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَ اَدْبَارَہُمْ وَذُوْقُوا عَذَابَ الْحَرِیْقِ } ۔ (الانفال :50) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ 30{ حجراً محجوراً } کا معنیٰ و مطلب ؟ : سو " حجر " کے معنیٰ ہیں " پناہ " اور " رکاوٹ " کے۔ اور " محجور " اسی سے اسم مفعول ہے بمعنیٰ " روکی ہوئی چیز "۔ یعنی " پناہ در پناہ " اور " مضبوط پناہ " وغیرہ۔ یعنی آج تو یہ لوگ فرشتوں کے اترنے اور دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں مگر اس روز یہ چیخ چیخ کر ان سے پناہ مانگ رہے ہوں گے کہ ہمیں ان سے دور اور محفوظ رکھا جائے۔ آج کی ان کی یہ ساری غفلت شعاری اور لاپرواہی اس وقت ہرن ہوجائے گی۔ اور دوسرا احتمال اس میں یہ بھی ہے کہ یہ قول فرشتوں کا ہوگا۔ یعنی وہ فرشتے ان سے اس دن کہیں گے کہ اب تم سے جنت اور اس کی نعمتوں کو بالکل بند کردیا گیا ہے۔ (محاسن، معارف وغیرہ) ۔ اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ جنت کو کمانے اور حاصل کرنے کا موقع تو دنیاوی زندگی اور اس کی فرصت میں تھا۔ جس کو انہوں نے کفر و انکار کی حالت میں ہی گزار دیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ایسے منکر اور محروم انسان کیلئے ہمیشہ کی محرومی ہوگی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ان کفار و منکرین کیلئے صحت و سلامتی کی راہ یہ ہے کہ یہ فرشتوں کے اترنے جیسے مطالبات کی بجائے ایمان لاکر اپنے اس ہولناک انجام سے بچنے کی فکر و کوشش کریں اور آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی کیلئے تیاری کریں قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود ان کے ہاتھوں سے نکل جائے اور پھر ان کو ہمیشہ کیلئے پچھتانا پڑے ۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال وسوء وانحراف۔
Top