Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 111
قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَؕ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لَكَ : تجھ پر وَاتَّبَعَكَ : جبکہ تیری پیروی کی الْاَرْذَلُوْنَ : رذیلوں نے
حضرت نوح کی اس حکمت بھری اور پرسوز تقریر کے جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں جبکہ تیری پیروی ان ہی لوگوں نے اختیار کر رکھی ہے جو کہ سب سے گھٹیاں ہیں ؟3
63 ابنائے دنیا کی مادہ پرستانہ ذہنیت کا ایک نمونہ و مظہر : سو قوم نوح کے ان متکبر منکروں نے اپنے متکبرانہ انداز میں حضرت نوح کی اس مخلصانہ اور پرسوز دعوت کے جواب میں کہا کہ ہم آپ کی پیروی کیسے کرسکتے ہیں جبکہ آپ کی پیروی کرنے والے ایسے گھٹیا لوگ ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ابنائے دنیا کا کل کی طرح آج بھی یہی حال اور یہی شیوہ ہے کہ وہ سعادت و شقاوت کو دنیاوی دولت و ثروت کے مادی معیار پر جانچتے پرکھتے ہیں۔ اور محنت و عمل کو وہ باعث رذالت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ پاک کے یہاں اس کا مدارو معیار تقویٰ و کردار ہے۔ سو اس بارے اس کا اصولی ارشاد اپنی کتاب حکیم میں اس طرح صاف وصریح طور پر موجود ہے ۔ { اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ } ۔ (الحجرات : 13) ۔ پس مدار تقویٰ ہے نہ کہ دنیاوی مال و دولت کہ اس سب کی تو اللہ کے یہاں مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی حیثیت نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ تو پھر اس کے معیار فضیلت قرار پانے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے۔ سو حضرت نوح کی دعوت حق کے جواب اور اس کی تردید کیلئے قوم نوح کے ان متمرد اور سرکش لوگوں کے پاس تو کوئی بات نہ تھی اور حق کے مقابلے کیلئے کسی کے پاس کوئی دلیل یا کوئی تردید ممکن ہی کس طرح ہوسکتی ہے۔ تو ان لوگوں نے یہ بات نکالی کہ ہم لوگ جو اعیان و اَشراف ہیں، ان لوگوں کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں جو نوح پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ اراذل اور گھٹیا لوگ ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ لہذا نوح کو اگر ہماری تائید کی ضرورت ہے تو وہ اپنے ان پیروکاروں کو اپنے پاس سے ہٹا دے کہ ان کے ساتھ اور انکے برابر بیٹھنا ہماری توہین ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی طرح کا مطالبہ مشرکین مکہ حضرت امام الانبیاء ۔ ﷺ ۔ سے کرتے تھے۔
Top