Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 115
اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌؕ
اِنْ اَنَا : نہیں میں اِلَّا : مگر۔ صرف نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : صاف طور پر
میں تو صاف طور پر خبردار کرنے والا ہوں اور بس
64 پیغمبر کا اصل کام انذار اور بس : سو حضرت نوح نے ان لوگوں کے اس متکبرانہ مطالبے کو ٹھکراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں ایسے ایمانداروں کو اپنے سے دور نہیں کرسکتا۔ میرا کام تو صرف خبردار کردینا ہے کھول کر یعنی حق اور حقیقت کو واضح کر کے۔ سو اس سے آنجناب نے واضح فرما دیا کہ رِ شرافت تقویٰ و طہارت اور عمل و کردار ہے نہ کہ دنیاوی مال و دولت اور جاہ و منصب۔ سو حضرت نوح نے اپنے جواب سے اپنی پوزیشن اور اپنے فرض منصبی کو بھی واضح فرما دیا اور یہ بھی بتادیا کہ شرافت اور رذالت کا مدار انسان کے عمل و کردار پر ہے نہ کہ دنیاوی مال و دولت پر۔ یعنی میرے یہاں تو اصل اعتبار دولت ایمان کا ہے اور وہ ان خوش نصیبوں کے پاس موجود ہے جن کو تم لوگ اراذل ۔ گھٹیا ترین ۔ قرار دیتے ہو۔ لہذا میں تو کسی قیمت پر بھی ان کو اپنے سے دور کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا۔ رہ گئی بات ان کی نجی زندگی اور انکے شخصی اعمال کی تو میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں کہ اس کا حساب کتاب تو اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے جو کہ ظاہر و باطن کی ہر چیز کو ایک برابر جانتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ ان کا ماضی کیا تھا ؟ ان کے خاندان کیسے تھے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ تو اس سے مجھے کیا واسطہ ؟ ان کے ماضی کا حساب تو میرے رب کے ذمے ہے۔ میرے ساتھ تو ان کا حاضر اور حال ہے جو انکے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر مبنی اور اس کا عکاس و آئینہ دار ہے۔ اور کسی کی شرافت اور رذالت کا دارومدار اس کے عمل و کردار ہی پر ہوتا ہے نہ کہ ان کے نسب اور دنیاوی مال و دولت پر۔ لہذا میں انکو نہیں ہٹا سکتا۔
Top