Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 118
فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ فَتْحًا وَّ نَجِّنِیْ وَ مَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
فَافْتَحْ : پس فیصلہ کردے بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان فَتْحًا : ایک کھلا فیصلہ وَّنَجِّنِيْ : اور نجات دے مجھے وَمَنْ : اور جو مَّعِيَ : میرے ساتھی مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
پس اب تو فیصلہ فرما دے میرے اور ان لوگوں کے درمیان کھلا فیصلہ اور نجات دے دے مجھے بھی اور ان ایمان والوں کو بھی جو میرے ساتھ ہیں،4
66 حضرت نوح کی دعا اپنی قوم کے بارے میں : سو حضرت نوح نے اپنی دعا میں اپنے رب کے حضور کہا کہ " ان لوگوں نے مجھے جھٹلا دیا۔ پس تو فیصلہ فرما دے اے میرے مالک میرے اور ان کے درمیان "۔ یعنی عملی طور پر دو ٹوک فیصلہ فرما دے جسکے مطابق یہ لوگ اپنے آخری انجام اور اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر رہیں۔ ورنہ دلائل کی حد تک فیصلہ تو پہلے ہی ہوچکا ہے۔ اور معاملہ روز روشن کی طرح پہلے ہی واضح ہوچکا ہے۔ اور نجات دے دے مجھے بھی اور ان ایمان والوں کو بھی جو میرے ساتھ ہیں۔ سو یہاں سے پھر یہ امر واضح ہوگیا کہ پیغمبر بھی مشکل وقت میں اللہ ہی کو پکارتے ہیں کہ مجبور و بیکس کی پکار کو سننا صرف اور صرف اسی وحدہ لاشریک کا کام ہے۔ اور مشکل کشا وہی ہوسکتا ہے جو خود مشکل میں نہ پھنسے۔ اور حاجت روا بھی وہی ہوسکتا ہے جو خود ہر حاجت و ضرورت سے پاک ہو۔ اور وہ اللہ اور صرف اللہ ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس اس کے سوا کسی اور کو حاجت روا و مشکل کشا ماننا شرک ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ غَیْرُہ وَلاَ مَعْبُوْدَ بِحَقٍّ سِوَاہُ فَلَا نَعْبُدُ الَّا اِیَّاہُ جَلَّ وَ عَلَا شاْنَہٗ ۔ بہرکیف قوم کی ہٹ دھرمی اور اس کے اس آخری اور فیصلہ کن اعلان اور دھمکی کے بعد کہ اگر تم باز نہ آئے تو یقینا تم کو سنگسار کردیا جائے گا، حضرت نوح نے ان سے مایوس ہو کر حضرات انبیاء و رسل کی معروف سنت کے مطابق اپنے رب کے حضور یہ دعا کی کہ اے میرے رب چونکہ انہوں نے مجھے جھٹلا دیا ہے اور یہ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑ گئے ہیں۔ اور اب انہوں نے ایمان نہیں لانا۔ لہذا اب تو میرے اور ان کے درمیان اپنا آخری اور قطعی فیصلہ صادر فرما دے۔ ان کو اپنے آخری اور منطقی انجام تک پہنچا دے اور مجھے اور میرے ایماندار ساتھیوں کو نجات سے سرفراز فرما دے کہ سب کچھ تیرے ہی قبضہ قدرت واختیار میں ہے۔
Top