Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 17
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اَنْ : کہ اَرْسِلْ : تو بھیج دے مَعَنَا : ہمارے ساتھ بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
اور دعوت حق کے ساتھ ان کو یہ پیغام بھی دو کہ تو چھوڑ دے بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے
14 حضرت موسیٰ کا فرعون سے ایک اہم مطالبہ : یعنی اس سے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ۔ بنی اسرائیل کا اصلی وطن ملک شام تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت کا شام موجودہ سوریا، اردن اور فلسطین سب ہی کو شامل تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں یہ لوگ جا کر مصر میں آباد ہوگئے تھے۔ بعد میں فرعون نے ان کو اپنا غلام بنا لیا تھا اور وہ ان کو اپنے وطن جانے کے لئے نہیں چھوڑتا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ملے ہوئے ان مفت کے غلاموں کو وہ اس طرح آسانی سے چھوڑتا بھی کیونکر ؟ قرآن پاک میں پیغام موسیٰ (علیہ السلام) کے ضمن میں زیادہ تر اسی کا ذکر آتا ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ حضرت موسیٰ کا پیغام صرف یہی تھا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرایا جائے اور بس۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا۔ سو نہیں ایسا نہیں بلکہ آپ کا اصل پیغام تو وہی تھا جو دوسرے سب انبیائے کرام کا تھا۔ یعنی توحید خداوندی کی دعوت۔ جیسا کہ دوسری جگہ قرآن پاک میں خود اس کی تصریح موجود ہے ۔ { فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰی اَنْ تَزَکّٰی وَاَہْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی } ۔ (النازعات : 18، 19) ۔ اور خود پروردگار عالم کے رسول یعنی اس کے فرستادہ ہونے کے الفاظ بھی اسی حقیقت کو واضح کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فرعونی دربار میں دلائل توحید سے لبریز و بھرپور تقریر بھی اس کا کھلا ثبوت ہے کہ آپ (علیہ السلام) کا اصل مشن اور پیغام دوسرے انبیائے کرام کی طرح توحید ہی کا پیغام تھا۔ البتہ اس کے ساتھ آپ کا دوسرا بڑا کام اور اہم مشن و پروگرام بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے آزاد کرانا بھی تھا ۔ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام -
Top