Tafseer-e-Madani - An-Naml : 14
وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَجَحَدُوْا : اور انہوں نے انکار کیا بِهَا : اس کا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ : حالانکہ اس کا یقین تھا اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل ظُلْمًا : ظلم سے وَّعُلُوًّا : اور تکبر سے فَانْظُرْ : تو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور انہوں نے ان کا انکار کردیا ظلم اور تکبر کی بناء پر حالانکہ انکے دل ان کا یقین کرچکے تھے، سو دیکھ لو کہ کیسا ہوا انجام فساد مچانے والوں کاف 3
14 فرعونیوں کی طرف سے موسیٰ کے معجزات کا انکار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے ان معجزات کا انکار کردیا جبکہ ان کے دل ان کی صداقت و حقانیت کا یقین کرچکے تھے۔ سو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعصب وعناد، ظلم وتکبر اور عناد و ہٹ دھرمی وغیرہ کس قدر بری چیزیں ہیں کہ حق کے پوری طرح واضح ہوجانے کے باوجود انسان کو اس سے محروم کردیتی ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ محض دل سے ماننا اور یقین کرلینا کافی نہیں جب تک کہ زبان سے بھی اس کا اقرار و اعلان نہ ہو۔ بہرکیف فرعونیوں نے حضرت موسیٰ کے ان معجزات کا جانتے بوجھتے اور دل میں انکو حق سمجھنے کے باوجود ان کا انکار کردیا۔ محض ظلم اور تکبر کی بنا پر۔ ظلم سے مراد یہ ہے کہ وہ دوسروں کے حق مار کھانے کے عادی ہوگئے تھے۔ اس لیے اس سے وہ کسی قیمت پر دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ اور دینی تعلیمات ان پر جو قدغنیں عائد کرتی تھیں انکو یہ لوگ ماننے کیلئے تیار نہ تھے۔ اور غلو سے مراد یہ ہے کہ انکے اندر کبر و غرور کا مرض ایسا پکا ہوگیا تھا کہ یہ حق بات کو ماننے اور کسی بڑے سے بڑے حق کے آگے جھکنے کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ سو ایسے مفسدین کا انجام ہولناک تباہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔
Top