Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 14
وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَجَحَدُوْا : اور انہوں نے انکار کیا بِهَا : اس کا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ : حالانکہ اس کا یقین تھا اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل ظُلْمًا : ظلم سے وَّعُلُوًّا : اور تکبر سے فَانْظُرْ : تو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور بےانصافی اور غرور سے ان سے انکار کیا لیکن ان کے دل ان کو مان چکے تھے۔ سو دیکھ لو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا
وجحدوا بھا . اور انہوں نے ان آیات کا انکار کیا۔ یعنی اللہ کی طرف سے نازل ہونے کا انکار کیا۔ واستیقنتھا انفسھم . اور انکے دلوں کو ان آیات کا پکا یقین ہوگیا تھا۔ 1 ؂ استیقان کے معنی میں ایقان سے زیادہ زور ہے۔ ظلما وعلموا . ظلم اور تکبر کی وجہ سے (انہوں نے انکار کیا تھا) ظلم سے مراد ہے کہ انہوں نے اپنی جانوں پر کیا تھا کہ دوامی دوزخ کے مستحق ہوگئے تھے اور تکبر یہ تھا کہ انہوں نے موسیٰ ( علیہ السلام) پر ایمان لانے سے سرتابی کی تھی۔ فانظر . پس (اے مخاطب ! بصیرت نظر سے) دیکھ۔ کیف کان عاقبۃ المفسدین . تباہ کاروں کا انجام کیسا ہوا (کہ دنیا میں ان کو پانی میں غرق کردیا گیا اور مرنے کے بعد دوزخ میں پہنچا دیا گیا۔
Top