Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘
وَمَا كُنْتَ : اور تم نہ تھے تَرْجُوْٓا : امید رکھتے اَنْ يُّلْقٰٓى : کہ اتاری جائے گی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبُ : کتاب اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تو ہرگز نہ ہوتا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
اور آپ تو کوئی امید بھی نہ رکھتے تھے کہ آپ کی طرف اتارا جائے گا اس کتاب عزیز کو مگر اس کا نزول تو محض آپ کے رب کی مہربانی سے ہوا پس آپ اس نعمت لازوال کے بعد کافروں کے لئے پشت پناہ نہیں بن جانا
124 نبوت خالص عطیہ الہی اور موہبت ربانی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " آپ اس بات کی کوئی امید نہیں رکھتے تھے کہ آپ پر اس کتاب کو اتارا جائے گا "۔ سو آپ ﷺ کو جو شرف نبوت اور اس کتاب عزیز کی نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا گیا تو یہ محض اللہ پاک کی رحمت اور اس کی عنایت کی بنا پر ہوا۔ ورنہ آپ کو تو اس سے پہلے اس کی کوئی امید تک نہ تھی۔ پس اس کے شکریے میں آپ کبھی کافروں کی پشت پناہی نہ کیجئے گا۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ سے اس کا کوئی احتمال تھا۔ نہیں بلکہ یہ دراصل آپ کو خطاب کر کے دوسروں کو سنانا مقصود ہے جس سے ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب پیغمبر کو بھی کافروں کی پشت پناہی اور ان کا ساتھ دینے کی اجازت نہیں تو پھر تم لوگوں کو کیسے ہوسکتی ہے ؟ اور کفار کو یہ بتلایا جا رہا ہے کہ تم لوگ جو پیغمبر کو اپنے آبائی دین کی طرف بلا رہے ہو تو تمہارا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ سو یہاں سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ نبوت خالصتاً اللہ پاک کا عطیہ و احسان ہوتا ہے۔ بندے کے کسی کسب و اختیار کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اہل بدعت اور دوسرے محرفین کا یہ کہنا کہ آپ ﷺ کو نبوت بچپن ہی سے مل گئی تھی، بالکل غلط اور بےبنیاد بات ہے، جو ارشادات کتاب و سنت سے متعارض و منافی ہے۔ قرآن پاک تصریح فرما رہا ہے کہ نبوت کا ملنا تو درکنار آپ کو ایسی کوئی امید بھی نہ تھی۔ ہاں اللہ پاک کے علم میں آپ کو خلق آدم سے بھی پہلے نبوت سے سرفراز فرما دیا گیا تھا۔ جیسا کہ ۔ " کَنْتُ نَبِیًّا وَاٰدَمُ بَیْنَ الْمآئِ وَالطِّیْنِ " ۔ والی روایت میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ لیکن خارج میں بالفعل آپ ﷺ کو نبوت چالیس سال کی عمر شریف گذارنے کے بعد ہی ملی۔ جیسا کہ اس کا واقعہ مشہور و معروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت ملنے سے پہلے پیغمبر کے ہاتھ پر جو خرق عادت قسم کے امور صادر ہوتے ہیں ان کو معجزہ نہیں کہا جاتا بلکہ انکو " ارہا صات " کہا جاتا ہے۔ بہرکیف شرف نبوت ایک خالص عطیہ الہی اور موہبت ربانی ہوتا ہے جس سے اللہ پاک جسکو چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ - 125 دعوت حق پر استقامت اور ثابت قدمی کی ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کبھی روکنے نہ پائیں یہ لوگ آپ کو اللہ کی آیتوں سے اس کے بعد کہ ان کو اتار دیا گیا آپ کی طرف۔ پس آپ ان بدبختوں کی کوئی بات نہیں ماننا اور ان کی کسی بات پر کبھی توجہ نہیں دینا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ کافروں اور منافقوں کی کوئی بات نہیں ماننا اور نہ ان کی ایذاء رسانیوں کو خاطر میں لانا اور بھروسہ ہمیشہ اللہ ہی پر رکھنا۔ اور اللہ کافی ہے کارسازی کے لیے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ { فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَدَعْ اَذَاہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَکَفٰی باللّٰہِ وَکِیْلاً } (الاحزاب : 48) ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ مخالفین خواہ کتنا ہی زور لگائیں ان کی کسی بات پر کان نہیں دھرنا۔ اور یہ آپ کو اللہ کی ان آیتوں سے روکنے نہ پائیں۔ اور یہ بدبخت جن باتوں سے چڑتے ہیں ان کو برملا کہو اور ڈنکے کی چوٹ پر کہو۔ کیونکہ خداوند تعالیٰ کی طرف سے جو بات نازل ہوچکی ہے وہ اب نہ واپس ہوسکتی ہے اور نہ اس کو کسی طرح دبایا جاسکتا ہے۔ وہ بہرحال حق و صدق ہے اور اسی میں بھلا ہے لوگوں کا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور ان کا کوئی متبادل ممکن نہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top