Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 34
ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۚ
ذُرِّيَّةً : اولاد بَعْضُهَا : وہ ایک مِنْ : سے بَعْضٍ : دوسرے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
درآنحالیکہ یہ سب ایک دوسرے کی اولاد تھے، اور اللہ (ہر کسی کی) سنتا، (اور سب کچھ) جانتا ہے،2
76 حضرت عیسیٰ کے شجرہ نسب کا بیان شرک کی تردید کے لئے : ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ سب حضرات ایک دوسرے کی اولاد تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کی یہ چنی ہوئی ہستیاں سب ایک دوسرے کی اولاد تھیں۔ ان میں الوہیت کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ اس لئے کہ اپنی اصل فطرت اور اپنے خمیر و طینت کے اعتبار سے یہ سب حضرات باہمدگر مشابہ اور ایک ہی طرح کے تھے۔ اور اصطفاء و اجتباء کے شرف سے سب ہی یکے بعد دیگرے مشرف ہوئے۔ اور ان میں سے کسی میں بھی الوہیت کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا، جیسا کہ یہود و نصاری نے ان میں سے بعض ہستیوں کے بارے میں اس طرح کے انتہا پسندانہ اور غلو پر مبنی دعوے کر رکھے تھے۔ اور بےبنیاد عقیدے اپنا رکھے تھے۔ کیونکہ جو ہستی کسی کی اولاد ہو، یا اس کی کوئی اولاد ہو، وہ اللہ اور معبود نہیں ہوسکتی، کیونکہ معبود برحق کی شان ہے { لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ } " نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ خود کسی کی اولاد " ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس سارے شجرہ کے بیان سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت عیسٰیٰ بھی اسی سلسلہ مبارکہ کی ایک کڑی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ ان کے نانا اور ان کے دوسرے اجداد سب معلوم ہیں۔ یہ سارے خاندان ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ اور ایک دوسرے کی ذریت و اولاد ہیں۔ تو پھر اسی خاندان سے اٹھنے والے کسی شخص کے بارے میں الوہیت کے دعویٰ کرنے کی آخر کیا تک ہوسکتی ہے اور اس طرح کے کسی شرک کی آخر کیا گنجائش ہوسکتی ہے ؟۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم مِنْ کُل زَیْغٍ وَّ ضَلاَلٍ-
Top