Tafseer-e-Madani - Faatir : 29
اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتْلُوْنَ : جو پڑھتے ہیں كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کتاب وَاَقَامُوا : اور قائم رکھتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کرتے ہیں مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور علانیہ (ظاہر) يَّرْجُوْنَ : وہ امید رکھتے ہیں تِجَارَةً : ایسی تجارت لَّنْ تَبُوْرَ : ہرگز گھاٹا نہیں
جو لوگ (صدق دل سے) پڑھتے ہیں اللہ کی کتاب اور وہ نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہوتا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں (ہماری رضا کے لئے) پوشیدہ طور پر بھی اور کھلے عام بھی وہ بلاشبہ امید رکھتے ہیں ایک ایسی عظیم الشان تجارت کی جس میں ہرگز کوئی خسارہ نہیں1
66 اہل حق کی تین اہم صفات کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے، نماز کو قائم رکھتے ہیں اور وہ خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو ہم نے انکو دیا ہوتا ہے "۔ یعنی دیا ہوا تو سب کا سب ہمارا ہی ہوتا ہے مگر مطالبہ سب کا نہیں بلکہ اس میں سے کچھ کا ہے۔ اور وہ بھی اس لئے کہ تاکہ خود اس دینے والے کو ہی نوازا جائے ۔ سبحان اللہ !۔ کیا کہنے اس کرم اور اس عنایت کے۔ بہرکیف اللہ کی کتاب کی تلاوت، نماز کو قائم کرنا اور اللہ پاک کے دیئے ہوئے میں سے اس کی راہ میں اور اس کی رضا و خوشنودی کیلئے خرچ کرنا وہ عظیم الشان اور پاکیزہ صفات ہیں جن سے انسان ایک طرف خشیت خداوندی سے سرشار ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ایک ایسی عظیم الشان تجارت سے سرفراز ومالا مال ہوتا ہے جس میں کبھی کوئی خسارہ نہیں۔ روایات میں یہ وارد ہے کہ امام احمد بن جنبل کو خواب میں حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی زیارت نصیب ہوئی تو آپ نے اللہ پاک کے حضور عرض کیا کہ اللہ آپ تک پہنچنے کا سب سے قریبی راستہ کونسا ہے ؟ تو جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ تلاوت قرآن۔ یعنی میرے قرآن کو پڑھنا۔ عرض کیا سمجھ کر پڑھنا یا بغیر سمجھے پڑھنا ؟۔ ارشاد ہوا خواہ سمجھ کر پڑھا جائے یا بغیر سمجھے۔ یعنی یہ دونوں ہی صورتوں میں موجبِ قرُب ہے۔ (المعارف وغیرہ) ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید بکل حال من الاحوال - 67 انفاق فی سبیل اللہ اہل ایمان کی ایک اہم صفت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ خرچ کرتے ہیں پوشیدہ طور پر بھی اور کھلے عام بھی "۔ یعنی ترغیب کے موقع پر اور جہاں فرض و واجب انفاق کا تعلق ہو وہاں تو وہ علانیہ خرچ کرتے ہیں تاکہ ترغیب بھی ہو اور دوسروں کو تہمت و بدظنی کے گناہ سے بھی بچایا جاسکے۔ اور جہاں نفلی صدقات کی بات ہو یا ریا و نمود کا خدشہ ہو وہاں وہ چھپا کر اور پوشیدہ طور پر خرچ کرتے ہیں۔ دیتے بہرحال اللہ ہی کے لئے ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور اس کی رضا و خوشنودی کیلئے خرچ کرنا اصل مطلوب ہے۔ آگے حسب ضرورت و موقع پوشیدہ طور پر بھی دیا جاسکتا ہے اور کھلے عام بھی۔ بہرکیف انفاق فی سبیل اللہ اہل ایمان کی ایک اہم صفت ہے کہ ایسے پاکیزہ لوگ اپنے مالوں پر مار گنج بن کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ وہ ان کو اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا و خوشنودی کے لیے دوسروں کے بھلے اور بہتری کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ سو کتاب اللہ کی تلاوت، اِقامت صلاۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی یہ تین صفات دین حق کی محافظ اور خشیت الہی کی علامت اور سعادت دارین سے سرفراز کرنے والی صفات ہیں۔ یہود انہی صفات سے محروم ہونے کے نتیجے میں قرآن پر ایمان لانے کی توفیق وسعادت سے محروم ہوئے اور " مغضوب علیہم " بن کر رہ گئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر مستقیم وثابت قدم رکھے ۔ آمین۔ 68 ایک بےمثال تجارت کی نشاندہی : سو اس سے ایک ایسی بےمثال تجارت کی نشاندہی فرمائی گئی ہے جس میں کبھی خسارہ نہیں۔ سو ایسی بےمثال تجارت کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ " ایسے لوگ ایک ایسی عظیم الشان تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں کوئی خسارہ نہیں "۔ سو جس طرح ایک شخص تجارت میں مال لگاتا اور محنت کرتا ہے کہ سرمایہ بڑھے اور ایک کا کئی گنا ہو کر ملے، اسی طرح ایک مومن اس امید پر نیک عمل کرتا اور متاع حیات کی پونجی اس میں صرف کرتا ہے کہ وہ اللہ پاک کے یہاں اس کا کئی گنا اجر و وصلہ پا سکے۔ پھر دنیا و آخرت کی ان دونوں تجارتوں میں ایک بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ دنیاوی تجارت میں خسارہ بھی ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات اصل سرمایہ بھی ضائع ہوجاتا ہے، جبکہ اللہ پاک سے کئے گئے اس سودے میں کسی ضیاع و خسارے کا کوئی سوال ہی نہیں بشرطیکہ مال صحیح ہو اور نیت و ارادہ بھی خالص اور درست ہو ۔ فَشَرِّفْنَا بِہَا یَا مَنْ لا حَدَّ لِکَرَمِہ وَلا نِہَایَۃَ لِجُوْدِہ وَ اِحْسَانِہ ۔ سو اس ارشاد ربانی میں یہ درس عظیم ہے کہ جن لوگوں نے اس دنیاوی زندگی کو اصل مقصود قرار دے کر اسی کے متاع فانی اور حطام زائل کو جوڑنے اور جمع کرنے کی کوشش کی، اور جو اسی کے بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ مالدار بننے کے خبط میں مبتلا رہے، ان کا حشر ایک دن یہ ہونا ہے کہ ان کی یہ ساری دولت خاک اور راکھ بن کر اڑ جائے گی اور ان کے پاس یاس و حسرت کے کڑوے گھونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں رہ جائے گا۔ لیکن اس کے بالمقابل جنہوں نے اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کیلئے خرچ کرنے کی سعادت حاصل کی ہوگی وہ یقینا ایک ایسی عظیم الشان تجارت اور بےمثل کاروبار سے مشرف و سرفراز ہوں گے جس میں کسی خسارے کا کوئی خطرہ و اندیشہ نہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔
Top