Tafseer-e-Madani - Faatir : 28
وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ١ؕ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ
وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں سے۔ میں وَالدَّوَآبِّ : اور جانور (جمع) وَالْاَنْعَامِ : اور چوپائے مُخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهٗ : ان کے رنگ كَذٰلِكَ ۭ : اسی طرح اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَخْشَى : ڈرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ مِنْ : سے عِبَادِهِ : اس کے بندے الْعُلَمٰٓؤُا ۭ : علم والے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَزِيْزٌ : غالب غَفُوْرٌ : بخشنے والا
اور انسانوں جانوروں اور چوپایوں کے بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں اللہ سے تو اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں (حق اور حقیقت کا) بلاشبہ اللہ نہایت ہی زبردست بڑا ہی بخشنے والا ہے
63 جمادات کی طرح حیوانات کی بھی مختلف قسمیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی مختلف رنگ ہیں "۔ سو یہ بھی اس قادر مطلق کی بےپایاں قدرت و عظمت کی ایک بڑی نشانی ہے کہ اتنے لاتعداد افراد میں سے کوئی بھی دو فرد آپس میں ایک جیسے نہیں ہیں ۔ فَسُبْحَانَہ مَا اَعْظَمَ شَانُہ وَمَا اَجَلَّ بُرْہَانُہ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ جمادات کی طرح انسانوں، جانداروں اور چوپایوں میں بھی قدرت کی ایسی ہی گوناگونی اور بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان کی یہ رنگا رنگی صرف ظاہر تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ بوقلمونی ان کی صورت سیرت، عادت وصفات، اَطوار و خصوصیات اور مزاج۔۔ تک میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ فرق و اختلاف ان تمام اعتبارات سے ظاہر اور واضح ہے۔ سو جس طرح ہر جانور سے دودھ کی توقع نہیں کی جاسکتی اسی طرح ہر انسان سے خوف و خشیت خداوندی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بہرکیف حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ کی مخلوق کی یہ گوناگونی اور بوقلمونی اپنے اندر عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت رکھتی ہے ان لوگوں کے لیے جو صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتے ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ بہرکیف مخلوق کی یہ بوقلمونی خالق کی عظمت کی ایک کھلی دلیل ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 64 علم حقیقی کا ثمرئہ و نتیجہ خوف وخشیت خداوندی سے سرفرازی : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ علم حقیقی کا ثمرہ و نتیجہ خوف و خشیت خداوندی سے سرفرازی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں "۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ پاک سے ڈرتے نہیں وہ عالم نہیں اگرچہ وہ کتنی ہی کچھ ڈگریاں اور کیسی ہی کچھ سندیں اپنے پاس کیوں نہ رکھتے ہوں کیونکہ یہاں " اِنَّما " کا کلمہ حصر اختیار فرمایا گیا ہے۔ اور " العلمائ " میں الف لام جو کہ مفید عموم ہے۔ سو اس سے واضح ہوگیا کہ جو اللہ سے ڈرتا نہیں وہ عالم نہیں ۔ " اَفَادَ انَّہ مَنْ لم یخش اللہ لم یکن عالما " ۔ (جامع البیان : ج 2 ص 190) ۔ اسی لئے سلف سے منقول ہے کہ علم کثرت کلام کا نام نہیں بلکہ وہ حقیقت میں عبارت ہے کثرت خشیت سے۔ اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جبکہ انسان کے دل و دماغ کی دنیا اس وحدہ لاشریک کی عظمت شان اور جلالت قدر کے تصور و احساس سے معمور ومنور ہوں۔ ہم نے اپنے ترجمہ میں اسی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ والحمد للہ رب العالمین ۔ سو علماء سے مراد وہی لوگ ہیں جو حق اور حقیقت کے علم سے آگہی رکھتے ہوں کیونکہ جو لوگ مادہ اور مادیت ہی کے غلام اور بطن وفرج کی خواہشات ہی کے پجاری بن جاتے ہیں ان کی نگاہیں مادیت اور مادی ظواہر و مظاہر ہی میں اٹک کر رہ جاتی ہیں اس سے آگے نہ ان کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو دیکھنے کی کوشش ہی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا تو مسئلہ ہی الگ ہے۔ لیکن دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس سے آگے سوچتے ہیں۔ ان کا معاملہ بطن و فرج کے تقاضوں کے ان غلاموں سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ مادی ظواہرو مظاہر میں الجھنے اور اٹکنے کی بجائے ان اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں اور اس طرح ان کی حقیقت بیں اور حقیقت رسا نگاہیں انہی مادی ظواہر و مظاہر کے ذریعے عالم غیب تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ سو ایسے ہی لوگ اصل میں انسانیت کے گل سرسبد ہوتے ہیں۔ اور یہی علماء کے لقب کے اصل مستحق ہوتے ہیں۔ انہی کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی خشیت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے اور انہی کو اللہ کے رسولوں کی دعوت اپیل کرتی ہے۔ 65 اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز و غفور کا حوالہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی درگزر فرمانے والا ہے "۔ سو عزیز و زبردست ہونے کے اعتبار سے وہ جس کو جب چاہے اور جیسے چاہے گرفتار کرسکتا ہے۔ مگر غفور ہونے کی بنا پر وہ بےمثال عفو و درگزر سے کام لیتا ہے ۔ فَلَہُ الْحَمْدُ وَلَہ الشُّکْرُ ۔ سو اس میں ایک طرف تو پیغمبر کیلئے تسلی کا سامان ہے کہ جو لوگ آپ ﷺ کی دعوت کو رد کر رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ اور دوسری طرف اس میں ان منکرین و معاندین کیلئے بخشش کی نوید بھی ہے کہ اگر وہ اپنی روش تبدیل کرکے صدق دل سے حق کو اپنا لیں تو اللہ کی رحمت و عنایت انکو اب بھی اپنی آغوش میں لے سکتی ہے کہ اس کی رحمت و بخشش اور اس کے کرم و عنایت کی کوئی حد نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اللہ پاک ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کی صفات کریمہ بڑی انقلاب آفریں صفات ہیں۔
Top