Tafseer-e-Madani - Yaseen : 72
وَ ذَلَّلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَ مِنْهَا یَاْكُلُوْنَ
وَذَلَّلْنٰهَا : اور ہم نے فرمانبردار کیا انہیں لَهُمْ : ان کے لیے فَمِنْهَا : پس ان سے رَكُوْبُهُمْ : ان کی سواری وَمِنْهَا : اور ان سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور (کس طرح) ہم نے ان کو ان لوگوں کے بس میں کردیا جس کے نتیجے میں ان میں سے کچھ پر یہ سواری کرتے ہیں اور کچھ سے یہ کھاتے ہیں
73 چوپایوں کی نعمت میں سامان غور وفکر : سو اس سے چوپایوں کی نعمت اور ان کی انسانی ضروریات کے لیے سازگاری میں دعوت غور و فکر ہے۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ہم نے اپنی رحمت و عنایت سے ان چوپایوں کو انسان کی طرح طرح کی ضروریات کے لیے نہایت سازگار بنایا اور پھر ان کو ہر طرح سے انسان کا مطیع فرمان بنادیا۔ اور ایسا کہ اونٹ جیسے ایک قوی ہیکل جانور کو، بلکہ اونٹوں کی ایک لمبی قطار کو ایک چھوٹا سا بچہ مہار کی ایک چھوٹی سی رسی کے ذریعے جہاں چاہے کھینچ کرلے جاتا ہے۔ وہ کوئی چوں و چرا تک نہیں کرتے۔ سو یہ سب کچھ حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ کی اسی تسخیر اور تذلیل کا نتیجہ و اثر ہے کہ ایسے ایسے بڑے بڑے جانور اس طرح تمہارے کام میں لگے ہوئے اور تمہارے لئے مطیع و منقاد ہیں۔ ورنہ تمہارے بس میں نہیں تھا کہ تم ازخود اس طرح کرسکتے۔ سو اس کا لازمی نتیجہ وثمرہ یہ ہے اور یہی ہونا چاہیئے کہ تم لوگ زندگی کے ہر دائرے میں دل و جان سے اپنے اس خالق ومالک کے حضور جھک جاؤ جس نے اپنے فضل و کرم سے تم کو اس طرح کی عظیم الشان نعمتوں سے نوازا ہے۔ اور اس کی کی عظمت وکبریائی کے گن گاؤ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { کَذَالِکَ سَخَّرْنَاھَا لَکُمْ لِتُکَبِّروا اللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ } ۔ کہ شکر منعم تو عقل و نقل دونوں کا تقاضا اور ایک طبعی اور فطری امر ہے ۔ فَسُبْحان اللّٰہِ الَّذِیْ سَخَّرَھَا وَذَلَّلَہاَ لَنا بِمَحْضِ مَنِّہٖ وکَرمِہٖ فانَّہ اَرْحَمُ الرَّاحمین واکرم الاکرمین ۔ بہرکیف انسان کیلئے ان جانوروں میں بھی بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں بشرطیکہ وہ غور و فکر سے کام لے اور غور و فکر بھی صحیح طور پر اور درست زاویہ نگاہ سے ہو ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top