Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 3
اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ١ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ فِیْ مَا هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ١ؕ۬ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ
اَلَا : یاد رکھو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الدِّيْنُ : عبادت الْخَالِصُ ۭ : خالص وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اتَّخَذُوْا : بناتے ہیں مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اَوْلِيَآءَ ۘ : دوست مَا نَعْبُدُهُمْ : نہیں عبادت کرتے ہم ان کی اِلَّا : مگر لِيُقَرِّبُوْنَآ : اس لیے کہ وہ مقرب بنادیں ہمیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کا زُلْفٰى ۭ : قرب کا درجہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : فیصلہ کردے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان فِيْ مَا : جس میں هُمْ : وہ فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَهْدِيْ : ہدایت نہیں دیتا مَنْ هُوَ : جو ہو كٰذِبٌ : جھوٹا كَفَّارٌ : ناشکرا
آگاہ رہو کہ اللہ ہی کے لئے ہے دین خالص اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور سرپرست (و کارساز) بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم تو ان کی بندگی و پوجا صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ رسائی کرا دیں ہماری اللہ تک بیشک اللہ ہی فیصلہ فرمائے گا ان کے (اور اہل حق کے) درمیان ان تمام باتوں کا جن میں یہ باہم اختلاف کرتے ہیں بلاشبہ اللہ ہدایت سے سرفراز نہیں فرماتا کسی ایسے شخص کو جو جھوٹا بڑا ناشکرا ہو1
4 اطاعت مطلقہ اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے : " دین " کا لفظ یہاں پر اطاعت کے معنیٰ میں ہے اور اطاعت مطلقہ اللہ ہی کا حق ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " آگاہ رہو کہ اللہ ہی کیلئے ہے دین خالص "۔ کہ معبود برحق بہرحال اور بہر طور وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور عبادت بھی خالص اسی کیلئے ہو اور ایسی خالص کہ اس میں کسی طرح کے شرک کا کوئی شائبہ تک نہ ہو۔ یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا کہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم میں سے کسی کے نزدیک بھی عبادت کی کوئی بھی قسم اور اس کی کوئی بھی شکل و صورت اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کیلئے جائز نہیں۔ اور اطاعت مطلقہ بھی صرف اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ دوسری کسی بھی ہستی کی اطاعت صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتی ہے جبکہ وہ اطاعت خداوندی کے ماتحت ہو ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور جب معبود برحق بھی وہی وحدہ لا شریک ہے اور سب کا خالق ومالک بھی وہی اور سب پر حکم و تصرف بھی اسی وحدہ لا شریک کا چلتا ہے تو اطاعت مطلقہ بھی اسی وحدہ لا شریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ یہ تو ایک بالکل بےتکی اور نا معقول بات ہے کہ عبادت کا حقدار تو کوئی ہو اور اطاعت کا حقدار کوئی اور بن جائے۔ سو جس طرح عبادت و بندگی اور اس کی ہر قسم اور ہر شکل اللہ ہی کا حق ہے اسی طرح اطاعت مطلقہ بھی اسی وحدہ لا شریک کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے خلاف کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں ۔ " لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق " ۔ ایک اہم اور بنیادی قاعدہ اور ضابطہ ہے۔ 5 معبودانِ من دون اللہ سے مراد اور اس کا مفہوم ؟ : سو من دون اللہ سے مراد عام ہے خواہ وہ کوئی لکڑی پتھر کے بت ہوں جیسا کہ بت پرست لوگ ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ یا کوئی زندہ و مردہ انسان اور حضرات انبیاء اولیائے کرام کی پاکیزہ ہستیاں ہوں جن کی لوگوں نے ان کی مرضی کیخلاف پوجا کی ہو۔ جیسا کہ یہود نے حضرت عزیر کو اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا قرار دے کر ان کو خداوند تعالیٰ کی خدائی میں شریک اور حصے دار قرار دیا۔ اور جیسا کہ اس امت کے کلمہ گو مشرکوں نے اللہ پاک کے مختلف نیک بندوں کو حاجت روا و مشکل کشا مان کر مختلف شکلوں میں کاروبار شرک چلا رکھا ہے۔ سو ۔ { مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ } ۔ " اللہ کے سوا " ۔ کا عموم ان سب ہی صورتوں کو عام اور شامل ہے۔ اسی لیے حضرات علماء و مفسرین کرام اس کی تفسیر و تشریح میں لکھتے ہیں ۔ " فہو عبارۃ عن کل معبود باطل کالملئکۃ و عیسیٰ (علیہ السلام) والاصنام " ۔ (روح المعانی، جامع البیان، الکبیر اور المراغی وغیرہ) ۔ اور حضرت امام رازی ۔ { ما نعبدھم } ۔ میں ضمیر منصوب کے مرجع کے بارے میں جزم و یقین سے کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف بت نہیں بلکہ اس سے مراد وہ عاقل معبود ہیں جنکی لوگوں نے ان کی تعلیمات کیخلاف پوجا کی۔ جیسے حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر اور ملائکہ کرام وغیرہ۔ اور جن لوگوں نے بتوں کی پوجا کی یا کر رہے ہیں وہ بھی ان کی پوجا محض اس بنا پر اور اس اعتبار سے نہیں کرتے کہ یہ لکڑی پتھر وغیرہ کی بےجان مورتیاں ہیں اور بس۔ نہیں بلکہ وہ ان کی پوجا اپنے اس خودساختہ مشرکانہ فلسفے کی بنا پر کرتے تھے اور کرتے ہیں کہ براہ راست اللہ کی عبادت کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ بلکہ ہم ان وسیلوں اور واسطوں کی پوجا کے ذریعے ہی اس معبود برحق کی عبادت و بندگی کرسکتے ہیں۔ سو یہی مشرکانہ فلسفہ ہمیشہ رہا اور قدیم و جدید سب ہی مشرکوں نے اس کو اپنایا۔ اور اسی کی تردید کیلئے انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا گیا۔ (مراغی، ابن کثیر، کبیر، جامع البیان اور فتح القدیر وغیرہ) ۔ پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ 6 مشرکوں کا ایک قدیم مشرکانہ فلسفہ : سو ان مت کے ماروں اور عقل کے اندھوں اور اوندھوں کا کہنا اور ماننا یہ تھا کہ ہم اپنے ان خودساختہ معبودوں کی پوجا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔ اور بعینہ اسی سخن سازی اور فلسفہ طرازی سے آج کا کلمہ گو مشرک بھی کام لیتا ہے۔ اور وہ صاف وصریح طور پر کہتا ہے کہ ہماری اس کی بارگہ تک براہ راست رسائی نہیں ہوسکتی۔ اور اگر ہم وہاں پہنچ بھی جائیں تو اس کے یہاں ہماری شنوائی نہیں ہوسکتی۔ اور اس کے لئے وہ دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں کی مثالیں گھڑ گھڑ کے پیش کرتا ہے۔ اور اس بنا پر وہ کہتا ہے کہ " ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے "۔ " وہ ہماری سنتا نہیں اور ان کی رد نہیں کرتا " وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ سب مفروضے ان کے اپنے من گھڑت اور خود ساختہ ہیں۔ اور نصوص قرآن و سنت کے خلاف اور ان سے متصادم و متعارض ہیں۔ اللہ پاک اپنی کتاب حکیم میں صاف اور صریح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ " میں اپنے بندوں سے بہت قریب ہوں۔ ان کی دعا و پکار کو سنتا اور قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتے ہیں " چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور صاف اور صریح طور پر ارشاد ہوتا ہے ۔ { وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قِرِیْبٌ، اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاع اِذَا دَعَانِ } ۔ (البقرۃ : 156) اور اس نے خود اپنے دین متین کی تعلیمات مقدسہ کے ذریعے اپنے بندوں کو یہ سکھایا اور بتلایا ہے کہ اپنے رب کو براہ راست اور بغیر کسی واسطہ و وسیلہ کے پکارو۔ اور اسی کے مطابق اس کا ہر بندہ اپنی ہر نماز اور اس کی ہر رکعت میں براہ راست اس کی بارگہ اقدس و اعلیٰ میں عرض کرتا ہے ۔ { اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } ۔ " مالک ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے "۔ مگر اس سب کے باوجود آج کا کلمہ گو مشرک اس طرح کے خود ساختہ اور شرکیہ فلسفے بگھارتا اور طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب و پرچار کرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف مشرکوں کا یہ مشرکانہ فلسفہ ہمیشہ رہا۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ کھلے مشرکوں کا کہنا بھی یہی ہے اور کلمہ گو مشرکوں کا بھی یہی۔ اور جڑ بنیاد اس سارے فتنے کی یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کو اس کی مخلوق پر قیاس کرکے اس کے بارے میں بھی وہی کچھ سوچتے اور کہتے ہیں جو کہ مخلوق کے لائق ہوسکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ حالانکہ حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ کو اس طرح ماننے کی ضرورت ہے جس طرح کہ وہ خود بتائے یا جس طرح اس کے بارے میں اس کے رسول بتائیں اور بس۔ اس کے بغیر اور اس کے خلاف ماننا گمراہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 7 جھوٹ اور ناشکری باعث محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جھوٹوں اور ناشکروں کے لیے نور ہدایت سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک اللہ ہدایت سے نہیں نوازتا کسی جھوٹے ناشکرے کو "۔ سو جھوٹ اور ناشکری محرومی اور بدبختی کا باعث ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ مگر افسوس کہ جھوٹ اور ناشکری کی یہ دونوں بری خصلتیں آج مسلم معاشرے میں عام ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ حالانکہ یہ دونوں معاشرتی امن و سکون اور خیر و برکت کو تباہ کردینے والی دو آفتیں ہیں ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ سو جو لوگ اللہ تعالیٰ کیلئے شریک مانتے ہیں اور اپنی مشرکانہ فلسفہ طرازیوں اور سخن سازیوں سے مخلوق میں سے مختلف ہستیوں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ پرلے درجے کے جھوٹے اور مفتری ہیں۔ اور اپنی اسی مشرکانہ افترا پردازی کی بنا پر یہ لوگ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو اپنی انہی خودساختہ ہستیوں اور بناوٹی " سرکاروں " کی طرف منسوب کرتے ہیں اور انہی کے گن گاتے ہیں۔ ان کیلئے نذرانے پیش کرتے، بھینٹ چڑھاتے، انکے نام چبتے انکے آستانوں پر چڑھاوے چڑھاتے، حاضریاں دیتے اور چادریں ڈالتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ قطعی جھوٹ اور نرا افترا ہے۔ جھوٹ و افترا اور کفران نعمت یعنی ناشکری کی یہ دونوں بری خصلتیں ہر مشرک میں بیک وقت اور لازماً پائی جاتی ہیں۔ اس لیے ایسے لوگ نور حق و ہدایت کی دولت سے کبھی سرفراز نہیں ہوسکتے الا یہ کہ ایسے لوگ ان بری خصلتوں سے سچے دل سے توبہ کرلیں ۔ وباللہ التوفیق ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ کذب وکفر کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔
Top