Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 36
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ
اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِكَافٍ : کافی عَبْدَهٗ ۭ : اپنے بندے کو وَيُخَوِّفُوْنَكَ : اور وہ خوف دلاتے ہیں آپ کو بِالَّذِيْنَ : ان سے جو مِنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوا وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
کیا اللہ کافی نہیں اپنے بندے کو ؟ اور یہ لوگ آپ کو ڈراتے ہیں ان (جھوٹے معبودوں) سے جو اس کے سوا (انہوں نے ازخود گھڑ رکھے) ہیں اور جس کو اللہ ڈال دے گمراہی (کے گڑھے) میں اس کو کوئی راہ پر نہیں لاسکتا
75 اللہ کافی ہے اپنے بندے کو ہر اعتبار سے : اس کی حفاظت کے لیے اور اس کی جملہ ضروریات و حاجات کے لیے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور استفہام کی صورت میں ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا اللہ کافی نہیں اپنے بندے کو ؟ "۔ اسلوب بلاغت کے مطابق معنیٰ میں قوت اور زور پیدا کرنے کے لئے اس کو استفہام تقریری کی صورت میں ذکر میں فرمایا گیا ہے۔ (المراغی وغیرہ) ۔ یعنی ہاں وہ ۔ وحدہ لا شریک۔ اپنے بندے کو کافی ہے۔ اور ہمیشہ اور ہر طرح سے کافی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور بندے سے مراد ہے اس کا خاص بندہ یعنی امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سو سب کا حاجت روا و مشکل کشا وہی اللہ وہی وحدہ لاشریک ہے۔ پس کس قدر بدنصیب اور محروم ہیں وہ لوگ جو اس قادر مطلق اور کارساز مطلق کو چھوڑ کر اس کی عاجز اور بےبس مخلوق کو حاجت روا و مشکل کشا قرار دے کر اس کو پوجتے پکارتے ہیں ؟ کوئی کہتا ہے " یا علی مدد "۔ کوئی " یا حسین " کوئی " یا غوث " اور کوئی " یا پیر دستگیر " وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ایسی پاکیزہ ہستیاں خود زندگی بھر اللہ پاک ہی کو حاجت روا و مشکل کشاسمجھ کر پکارتی اور اسی کے حضور رجوع کرتی رہیں۔ روایات میں ہے کہ کفار قریش نے آنحضرت ﷺ کو ڈرانے دھمکانے کے لئے کہا کہ اگر آپ ﷺ نے ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا نہ چھوڑا تو یہ آپ کو سخت نقصان پہنچا دیں گے۔ تو اس کا جواب اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا (ابن جریر، ابن کثیر، مراغی، خازن، صفوہ اور معارف وغیرہ) ۔ سو اہل باطل کا یہ قدیم طریقہ اور پرانا دستور و وطیرہ رہا ہے کہ وہ اہل حق کو راہ حق و صواب سے روکنے اور باز رکھنے کے لئے اسی طرح کے ڈراو وں اور دھمکیوں سے کام لیتے ہیں۔ کہیں بےجان بتوں اور مورتیوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ کہیں من گھڑت دیویوں اور دیوتاؤں سے۔ کہیں فرضی وہمی خداؤں سے اور کہیں خود ساختہ سرکاروں سے۔ اور کہیں وقت کے حکمرانوں اور افسران بالا سے وغیرہ وغیرہ۔ اسی لئے اہل حق و اہل توحید کو درس دیا گیا ہے کہ ان میں سے کسی سے بھی مت ڈرو کہ ان کے بس میں کچھ بھی نہیں۔ اصل میں ڈرو اللہ سے جو کہ سب کا خالق ومالک اور ربِّ رحمن و رحیم ہے کہ سب کچھ اسی وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ وہی سب کا خالق ومالک، حاجت روا و مشکل کشا اور کارساز و کار فرما ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اسی لئے فرمایا گیا ۔ { اَ لَیْسَ اللّٰہُ بَکَافٍ عَبْدَہ } ۔ یعنی " کیا اللہ کافی نہیں اپنے بندے کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ؟ " جو تم دوسروں کی طرف جھکتے ہو ؟۔ بَلٰی یَا رَبَّنَا فَزِدْنَا اِیْمَانًا بِکَ وَیَقِیْنًا وَصِدْقًا وَاِخْلاصًا وَحُبًّا فِیْکَ وَخُشُوْعًا لَّکَ وَخُضُوْعًا ۔ وَخُذْنَا بَنَوَاصِیْنَا اِلٰی مَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمِلَ وَاَنْتَ الْاَعَزُّ الاَکْرَمُ وَاَنْتَ اَکْرَمُ الاَکْرَمِیْنَ وَاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ جو بندے صدق دل سے اللہ پر ایمان رکھتے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ ان کی حفاظت اور حمایت کے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی چیز بھی اس کو کوئی تکلیف اور نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اگر کوئی اس خوف اور اندیشہ میں مبتلا ہو کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی مرضی کے علی الرغم اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کو اپنی حفاظت کے لیے کافی نہیں سمجھتا۔ اور یہ چیز بالبداہت کفر و شرک ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 76 مشرکوں پر خداوند تعالیٰ کی مار و پھٹکار ۔ والعیاذ باللہ : سو مشرکوں کی جہالت اور ان کی حماقت پر ان کی ملامت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ " جس کو اللہ ڈال دے گمراہی میں اس کو کوئی راہ پر نہیں لاسکتا "۔ کہ اس کے آگے اور کوئی ایسی ہستی ہے ہی نہیں جس کے بارے میں ایسا تصور بھی کیا جاسکے۔ اور اس کے گمراہی کے گڑھے میں ڈال دینے کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی ہدایت کی طلب نہیں رکھتا اور وہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے تو وہ اس کو زبردستی ہدایت نہیں دیتا۔ بلکہ ۔ { نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی } ۔ کے مصداق وہ اس کو ادھر ہی پھیر دیتا ہے جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے کہ ہدایت کی دولت جو سب سے بڑی دولت ہے اس کی فیض رسانیوں سے وہ ملتی تو سب کو بالکل مفت اور بلا کسی عوض اور معاوضہ کے ہے مگر اس کے لئے طلب صادق شرط اولین ہے۔ جس سے ایسے بدبخت محروم ہوتے ہیں اور زور زبردستی کا نہ یہ سودا ہے اور نہ اس کی ضرورت ہی ہے ۔ { اََنُلْزِمُکُموْہَا وَ اَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْنَ } ۔ (ھود : 28) بہرحال اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کے اس دستور کا حوالہ دیا گیا ہے جو کہ ہدایت وغوایت کے سلسلے میں اس کی مخلوق میں کارفرما ہے۔ سو اس سلسلے میں پیغمبر کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اگر دعوت حق کو قبول نہیں کرتے اور اس سلسلے میں یہ عناد اور ہٹ دھرمی ہی سے کام لے رہے ہیں تو اس سے آپ افسردہ اور غمگین نہ ہوں کہ ان لوگوں پر انکے اپنے اعمال اور سوئِ اختیار کی بنا پر اللہ کی مار پڑچکی ہے۔ اور یہ اللہ کے قانون کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ جسکی بنا پر اللہ نے انکو گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیا ہے۔ اور جسکو اللہ گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ لہذا آپ ایسوں کی پروا نہ کریں۔ کیونکہ ایسے میں ان کو کوئی راہ راست پر لانے والا نہیں۔ سو ایسے لوگ اپنی ہلاکت و تباہی کے ذمہ دار خود ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top