Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 63
لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لَهٗ مَقَالِيْدُ : اس کے پاس کنجیاں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
اسی کے پاس ہیں کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ کی آیتوں کے ساتھ وہی ہیں خسارے والے2
111 سب خزانوں کی چابیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر وقصر کے اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ " اسی کے پاس ہیں کنجیاں آسمانوں اور زمین کی "۔ پس جو کچھ مانگنا ہو اسی سے مانگو کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ " مَقَالِیْد "، " مِقْلاد " کی جمع ہے۔ جیسے " مَفاتیح " جمع ہے " مَفتاح " کی۔ یا یہ " اِقلِیْد " کی جمع ہے خلاف قیاس۔ جیسا کہ " مَذاکیر "، " ذکر " کی جمع ہے۔ اور " اِقْلِیْد " دراصل فارسی کے کلمہ کلید کا معرب ہے جس کے معنیٰ " چابی " کے بھی آتے ہیں اور خزانے کے بھی۔ (جامع البیان، خازن، مراغی اور معارف وغیرہ) ۔ پس اہل بدعت وغیرہ زائغین نے جو مشہور کر رکھا ہے کہ فلاں علاقہ فلاں بزرگ کے حوالے ہے اور فلاں خطہ فلاں ہستی کے کنٹرول میں ہے وغیرہ وغیرہ تو یہ سب کچھ ایسے لوگوں کے من گھڑت ڈھکوسلے اور خودساختہ مفروضے ہیں جو کہ قرآن و سنت کی ایسی تعلیمات مقدسہ سے متصادم ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ کوئی علاقہ اور خطہ کسی کے حوالے نہیں۔ بلکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اور تمام خزانوں کی کنجیاں اسی وحدہ لاشریک کے پاس اور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بندوں کو آسمان اور زمین سے جو بھی کچھ ملتا ہے وہ سب اسی کی عطا و بخشش سے ملتا ہے اور دنیا کے بعد آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی ان کو جو کچھ ملے گا اسی وحدہ لا شریک کی عنایت سے ملے گا کہ زمین و آسمان اور دنیا و آخرت کے سب خزانوں کی چابیاں اسی وحدہ لا شریک کے قبضہ قدرت واختیار میں ہیں ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس ہمیشہ اسی کی طرف رجوع کرنا اور رجوع رہنا چاہیے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 112 اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار خساروں کا خسارہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ " جن لوگوں نے انکار کیا اللہ کی آیتوں کا وہی ہیں خسارے والے " اور اللہ کی آیتیں عام ہیں جو کہ اس نے نازل فرمائیں اپنی اس کتاب حکیم میں۔ نیز وہ آیات کونیہ جو کہ اس قادر مطلق اور حکیم مطلق ۔ جل و علا ۔ نے ودیعت فرمائی ہیں کائنات کی اس کھلی کتاب میں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَفِی الاَرْضِ اٰٰیَاتٌ لِلْمُؤْقِنِیْنَ } ۔ کہ یہ دونوں قسم کی آیتیں یعنی تنزیلیہ اور تکوینیہ اس وحدہ لاشریک کی عظمت شان اور جلالت قدر کا پتہ دیتی ہیں۔ (المراغی وغیرہ) ۔ سو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور نور ایمان و توحید سے اعراض و روگردانی خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے انکار کیا اللہ کی آیتوں کا اور وہ جمے اور اڑے رہے اپنے کفر و انکار پر اور انہوں نے منہ موڑا راہ حق و ہدایت سے، وہی ہیں خسارے والے۔ کیونکہ ان کا یہ خسارہ خساروں کا خسارہ اور دارین کی محرومی اور ہلاکت و تباہی کا باعث ہے۔ اور اس کا وبال بہرحال خود انہی پر پڑے گا۔ اور یہ ایسا ہولناک خسارہ ہے کہ اس کی تلافی وتدارک بھی ممکن نہیں۔ 113 کفر و انکار خساروں کا خسارہ ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کفر وانکار سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ " ایسے ہی لوگ ہیں خسارے والے " ۔ والعیاذ باللہ ۔ کہ اللہ پاک کی آیتوں کے ساتھ کفر و انکار کے ارتکاب کے باعث ایسے لوگ اس کی توحید و وحدانیت خداوندی کے عقیدے اور اس پر ایمان و یقین کے نور سے محروم ہوجائیں گے جو کہ ہر خیر سے محرومی، تمام خرابیوں کے خرابی اور سراسر ہلاکت و تباہی کا سامان ہے۔ اور اس طرح ایسے بدنصیب لوگ متاع عمر کو اندھیروں میں ضائع کرکے دائمی خسارے میں پڑجائیں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہ خسارہ ایک ایسا ہولناک خسارہ ہے جس کے تدارک و تلافی کی پھر کوئی صورت ممکن نہ ہوگی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top