Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 63
لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لَهٗ مَقَالِيْدُ : اس کے پاس کنجیاں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔ اور جنہوں نے خدا کی آیتوں سے کفر کیا وہی نقصان اُٹھانے والے ہیں
لہ مقالید السموت والارض اسی کے قبضہ میں ہیں کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی۔ مَقَالِیْدُ ‘ مقلاد یا مقلید کی جمع ہے ‘ جیسے مفتاح کی جمع مفاتیح اور مندیل کی جمع منادیل ہے۔ یعنی آسمانوں کے اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ‘ سارا جہان اسی کی ملک ہے ‘ کوئی بھی اس کے سوا ان خزانوں میں تصرف نہیں کرسکتا۔ قتادہ اور مقاتل نے کہا : مقالید سے مراد ہے رزق اور رحمت۔ کلبی نے کہا : (مقالید السمٰوٰت سے) مراد ہیں بارش کے خزانے اور (مقالید الارض سے مراد ہیں) سبزے کے خزانے۔ حضرت عثمان کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مقالید کی تفسیر پوچھی تو حضور ﷺ نے فرمایا : اس کی تفسیر ہے لَآ اِلٰہَ الاَّ ھُوَ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَلاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ الاَّ باللّٰہِ ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ حضرت ابن عمر کی روایت سے ابویعلی نے مسند میں اور ابن ابی حاتم نے تفسیر میں اور عقیلی نے الضعفاء میں اور طبرانی نے الدعاء میں اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں یہ حدیث ذکر کی ہے اور ابن جوزی نے اس کو موضوعات میں درج کیا ہے۔ 1 ؂ میں کہتا ہوں : شاید حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جن صفات خداوندی کا مذکورہ الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ‘ وہ صفات مقالید (کنجیاں) ہیں ‘ یعنی جو ذات ان صفات سے موصوف ہے ‘ وہی آسمان و زمین کے سارے خزانوں کی مالک ہے ‘ اسی کے قبضہ میں سب کی حکومت ہے اور وہی ان خزانوں میں تصرف کرسکتا ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے اور اللہ کی ان صفات کا ذکر کرتا ہے ‘ وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کیلئے دنیا میں یا آخرت میں ان خزانوں کے دروازے کھول دئیے جائیں۔ والذین کفروا بایت اللہ اولئک ھم الخسرون اور جو لوگ اللہ کی آیتوں کو نہیں مانتے ‘ وہ بڑے خسارے میں رہیں گے۔ آیات اللہ سے مراد ہیں کلمات تمجید و توحید ‘ یا قرآن مجید ‘ یا اللہ کی قدرت مستقلہ کے نشانات و علامات۔ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ وہی خسارہ پانے والے ہیں۔ خسارہ کو کافروں میں ہی محصور کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کافروں کے علاوہ دوسروں کو رحمت وثواب کا کچھ حصہ ضرور ملے گا۔ اگر دنیوی آسائش و نعمت سے وہ محروم بھی ہوں ‘ تب بھی آخرت میں دنیوی نعمتوں کا عوض ان کو ضرور حاصل ہوگا اور ایسی نعمتیں ملیں گی جو نہ کسی آنکھ نہ دیکھی ہوں گی نہ کسی کان نے ان کا ذکر سنا ہوگا (اور نہ کسی کے دل میں ان کا خیال آیا ہوگا) رہے کافر تو دنیا میں ان کا رزق اور رحمت کے خزانوں میں سے جب حصہ مل جاتا ہے تو شکر کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملتا ‘ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رحمت کا کوئی حصہ آخرت میں ان کو نصیب نہ ہوگا اور دنیا میں یہ خوش نصیبیاں آخرت میں ان کیلئے وبال بن جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت کا ربط سابق آیت وَیُنَجِّی اللہ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا سے ہو اور درمیان کے جملے معترضہ ہوں اور یہ بتانا مقصود ہو کہ اللہ اپنے بندوں کے احوال کا نگران ہے ‘ ان کے افعال و اعمال سے پورا پورا واقف ہے اور سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اسلوب ادا کا تغیر اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ اہل ایمان کی فلاح ‘ اللہ کے فضل پر موقف ہے اور کافروں کی ناکامی ان کے کفر سے وابستہ ہے۔ اس میں وعدۂ ثواب کی صراحت کردی گئی ہے اور وعید عذاب کو درپردہ بیان کردیا گیا ہے۔ طبرانی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ کو اتنا مال دینے کی پیشکش کی کہ آپ مکہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوجائیں اور یہ بھی درخواست کی کہ جس عورت کو آپ پسند کریں ‘ ہم اس کو آپ کی زوجیت میں دے دیں گے ‘ شرط یہ ہے کہ ہمارے معبودوں کو برا کہنے سے زبان روک لیں اور برے لفظوں سے ان کا ذکر نہ کریں۔ اگر آپ کو یہ منظور نہ ہو تو ایسا کرلیجئے کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پوجا کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں اس کا جواب اس وقت دوں گا جب میرے پاس میرے رب کی طرف سے کوئی وحی آجائے ‘ میں وحی کا انتظار کروں گا۔ اس پر سورة قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ آخر تک نازل ہوئی اور آیت ذیل بھی نازل ہوئی۔
Top