Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 111
وَ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
وَاِنْ : اور نہیں اَدْرِيْ : جانتا میں لَعَلَّهٗ : شاید وہ فِتْنَةٌ : آزمائش لَّكُمْ : تمہارے لیے وَمَتَاعٌ : اور فائدہ پہنچانا اِلٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
اور میں نہیں جانتا کہ شاید ہو تمہارے لئے امتحان ہو اور ایک وقت تک فائدہ پہنچاتا ہو۔
1:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن عساکر نے ربیع بن انس ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی اکرم ﷺ کو معراج نصیب ہوئی (یعنی آپ آسمانوں پر تشریف لے گئے) تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) ” وان ادری لعلہ فتنۃ لکم ومتاع الی حین “ اتاری پھر فرماتے ہیں کہ اس سے مراد فرشتہ ہے۔ حضرت حسن و معاویہ ؓ میں صلح : 2:۔ ابن سعد، ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ جب حسن بن علی ؓ جب معاویہ ؓ کے حق میں دستبردار ہوگئے معاویہ ؓ نے ان سے فرمایا کھڑے ہوجائیے خطبہ ارشاد فرمائیے تو انہوں نے اللہ کی حمد اور ثناء بیان کی پھر فرمایا میں نے یہ حکومت چھوڑ دی ہے معاویہ ؓ کے حق میں مسلمانوں کی اصلاح کا ارادہ کرتے ہوئے اور ان کے خونوں کو روکتے ہوئے (اور یہ آیت پڑھی (آیت) ” وان ادری لعلہ فتنۃ لکم ومتاع الی حین “ پھر استغفار پڑھا اور (منبر سے) اتر آئے۔ 3:۔ بیہقی نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ حسن ؓ نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا اما بعد اے لوگو اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہدایت دی ہمارے پہلے لوگوں کے ذریعہ اور تمہارے خونوں کو محفوظ فرمایا ہمارے پچھلے لوگوں کے ذریعہ اور بلاشبہ اس حکومت کے لئے ایک مدت ہے اور دنیا کا معاملہ گردش میں رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کے لئے فرمایا (آیت) ” وان ادری لعلہ فتنۃ لکم (سے لے کر) ومتاع الی حین “ تک یعنی سارا زمانہ اور اللہ تعالیٰ کا قول (آیت ) ’ ھل اتی علی الانسان حین من الدھر “ (الدھر آیت 1) زمانے سے مراد ہے سارا زمانہ اور اللہ تعالیٰ کا قول (آیت ) ’ ’ توتی اکلھا کل حین باذن ربھا “ (ابراہیم آیت 25) فرمایا اس سے کھجور مراد ہے جب وہ پھل دے اس کے توڑنے تک اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی ہے (آیت ) ’ لیسجننہ حتی حین “ (یوسف آیت 36) ۔ 4:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وان ادری لعلہ فتنۃ لکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ میں نے تم کو جو عذاب اور قیامت کی خبردی ہے ہوسکتا ہے وہ کچھ مدت تم سے موخر فرما دے۔ 5:۔ ابن جریر اور ابن منذرنے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” قل رب احکم بالحق “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نہیں فیصلہ فرماتے مگر حق کے ساتھ اور نبی اکرم ﷺ تمہارے لئے وہ دنیا میں جلدی طلب کرتے ہیں اور وہ اپنی قوم پر اپنے رب کا سوال کرتے ہیں۔ 6:۔ عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ جب حاضر ہوتے تھے (کافروں سے) لڑنے کئے تو یہ فرماتے تھے (آیت) ” رب احکم بالحق “۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انبیاء (علیہم السلام) (یہ دعا) فرمایا کرتے تھے (آیت ) ’ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیرالفتحین “ (الاعراف آیت 89) پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم فرمایا کہ یوں کہو (آیت) ” رب احکم بالحق “ یعنی فیصلہ کیجئے حق کے ساتھ اور رسول اللہ ﷺ جانتے تھے کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے دشمن باطل ہیں پھر بھی دشمن سے مقابلہ ہوتا تو (یہ دعا) فرماتے (آیت ) ’‘’ رب احکم بالحق “ (اے میرے رب حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیے) واللہ اعلم۔ الحمد للہ سورۃ الانبیاء کے ساتھ جلد 5 مکمل ہوئی :
Top