Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 60
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہا رَبُّكُمُ : تمہارے رب نے ادْعُوْنِيْٓ : تم دعا کرو مجھ سے اَسْتَجِبْ : میں قبول کروں گا لَكُمْ ۭ : تمہاری اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں عَنْ عِبَادَتِيْ : میری عبادت سے سَيَدْخُلُوْنَ : عنقریب وہ داخل ہوں گے جَهَنَّمَ : جہنم دٰخِرِيْنَ : خوار ہوکر
اور فرمایا تمہارے رب نے کہ تم لوگ مجھ ہی کو پکارو میں تمہاری پکار کو سنوں گا بیشک جو لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ان کو عنقریب ہی داخل ہونا ہوگا جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر1
112 دعا و پکار اللہ ہی سے : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا " اور فرمایا تمہارے رب نے کہ تم سب مجھ ہی کو پکارو میں تمہاری پکار کو سنوں گا "۔ یعنی براہ راست مجھے پکارو۔ میں تمہاری پکار کو سنوں گا اور تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ دیکھئے اللہ پاک کس صراحت و وضاحت کے ساتھ اپنے بندوں کو براہ راست اور بلاواسطہ اپنے رب کو پکارنے کی تعلیم دیتا اور اس کی قبولیت کا وعدہ فرماتا ہے مگر اس کے باوجود دور حاضر کا جاہل مسلمان کہتا ہے کہ اللہ ہم گناہ گاروں کی براہ راست نہیں سنتا۔ بلکہ " ہماری فلاں کے آگے اور اس کی خدا کے آگے " وغیرہ۔ اور جاہل پیر اور گمراہ ملاں اس سادہ لوح مسلمان کی پیٹھ ٹھونکتا اور اس کی گمراہی کو پکا کرتا جاتا ہے ۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکیٰ وَہُوَ المستعان ۔ باقی رہ گئی یہ بات کہ دعا کی قبولیت کی شکلیں کیا کیا ہیں اور اس کیلئے آداب و شروط کیا کچھ ہیں اور قبولیت دعا کے موانع کیا ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ تو ان سب باتوں پر۔ الحمد للہ ۔ راقم آثم نے اپنی کتاب " قرآن و سنت کی مقدس دعائیں " میں مفصل اور مدلل روشنی ڈال دی ہے جو کہ کئی سال ہوئے طبع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے اور کئی ہزار تک چھپ چکی ہے ۔ والحمد للہ رب العالمین ۔ اللہ تعالیٰ اس کو شرف قبولیت سے نواز کر راقم آثم کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ بہرکیف آخرت کی تذکیر و یاددہانی کے بعد اب یہاں پر توحید کی تذکیر و یاددہانی فرمائی گئی ہے کہ تمہارے رب کا ارشاد و اعلان ہے کہ تم براہ راست مجھ ہی سے مانگو۔ کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں۔ جس کو مانگنا ہو وہ مجھ ہی سے مانگے۔ میں اس کی دعا کو سنوں گا اور اس کی درخواست کو قبول کرونگا۔ مطلب یہ کہ جب میں نے اپنے در پر کوئی پہرہ نہیں بٹھایا تو پھر دوسروں کو سفارشی بنانے اور ان کی خوشامد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سو اس سے ان مشرکوں کے اوہام کی جڑ نکال دی گئی جو کہتے ہیں کہ اللہ براہ راست ہماری نہیں سنتا۔ جب تک ہم فلاں ہستی اور فلاں سرکار کا واسطہ نہ پکڑیں وغیرہ وغیرہ ۔ اللہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 113 استکبار محرومیوں کی محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک جو لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ان کو عنقریب ہی ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہونا ہوگا "۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ تکبر اور اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں اللہ پاک کے حضور ہاتھ پھیلانے اور دعا مانگنے سے اباء و انکار کرنا بہت بڑا جرم اور سخت محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور جب ہم ہیں ہی اس کے بندے اور سراپا احتیاج تو پھر اس کی بارگاہ اقدس و اعلیٰ سے منہ موڑنے کے معنیٰ ہی کیا ہوسکتے ہیں ؟ ہمارے جسم و جان کا تو رواں رواں ہر لمحہ اس کی رحمتوں و عنایتوں کا محتاج ہے ۔ فَعامِلْنَا بِلُطْفِکَ وَکَرَمِکَ یَا مَنْ وَسِعَتْ کُلَّ شَئٍ رَحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْلَنَا زَلَّاتِنَا واٰمِنْ رَوْعَاتِنَا وَقِنَا عَذَاب النَّارِ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ ۔ یہاں چونکہ استکبار کے بعد " عن " کا صلہ آیا ہے۔ اس لیے یہ لفظ اعراض کے معنیٰ کو متضمن ہوگیا۔ سو اس اعتبار سے اس کا معنیٰ و مطلب یہ ہوگیا کہ میری طرف سے اس عام منادی کے باوجود جو لوگ محض اپنے کبر و غرور کی بنا پر میری بندگی سے اعراض کر رہے ہیں وہ بڑے ہی سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس لیے انکو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ اپنے اس کبر و غرور کی پاداش میں عنقریب ہی جہنم میں داخل ہوں گے۔ سو اسکتبار محرومیوں کی محرومی اور خرابی و فساد کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر گامزن رکھے ۔ آمین۔
Top