Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 61
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے جَعَلَ : بنائی لَكُمُ : تمہارے لئے الَّيْلَ : رات لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم آرام پکڑو فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا ۭ : دکھانے کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
اللہ وہ ہے جس نے بنایا تمہارے لیے رات کو ایسا کہ تم اس میں (آرام و) سکون پا سکو اور دن کو بنایا روشن (تاکہ اس میں تم لوگ اپنی روزی روٹی کا کام کرسکو) بیشک اللہ بڑا ہی فضل فرمانے والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں ادا کرتے (اس مہربان مطلق کا)1
114 رات کی نعمت میں دعوت غور و فکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو بنایا تاکہ تم لوگ اس میں سکون حاصل کرسکو "۔ یعنی سکون و راحت کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کو اس نے کمال حکمت وقدرت اور رحمت و عنایت سے رات کے سناٹے میں رکھ دیا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اپنے خالق ومالک کی معرفت سے سرفرازی و سرشاری کیلئے تم لوگوں کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ تم اگر دن رات کے اس سلسلے ہی میں غور کرلو جس سے تم طرح طرح سے اور لگاتار مستفید و فیضیاب ہوتے رہے ہو تو تم لوگوں کو اپنے رب کی قدرت، اس کی رحمت اور اس کی حکمت و عنایت کے عظیم الشان نمونے نظر آئیں گے۔ اور تم دل و جان سے اس کے حضور جھک جھک جاؤ گے۔ اور تم بےساختہ پکار اٹھو گے کہ وہی ہے اللہ جو معبود برحق ہے۔ جو ہمیں ان اور ان عظیم الشان رحمتوں اور عنایتوں سے نوازتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور ہماری طرف سے کسی طرح کی اپیل و درخواست کے بغیر نوازتا ہے جو کہ اس کا کرم بالائے کرم ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 115 دن کی نعمت میں دعوت غور وفکر : سو روشن دن کی نعمت میں غور و فکر کی دعوت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " اسی وحدہ لا شریک نے دن کو بنایا روشن "۔ تاکہ اس میں تم چل پھر کر اپنے کام کاج کرسکو اور اپنی روزی و روٹی کا سامان کرسکو اور تاکہ تم آنکھیں کھول کر اس کی حکمتوں بھری اس کائنات میں نگاہ عبرت ڈال کر راہ حق و ہدایت کو اپنا سکو۔ اور اپنے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرسکو۔ سو اگر تم لوگ نگاہ عبرت و بصیرت سے اس کو دیکھو گے تو اس کی ایک ایک چیز اپنی زبان حال سے پکار پکار کر تمہیں اپنے اس خالق کے وجود باجود، اس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کا پتہ دے گی۔ اور انہی میں سے دن اور رات کا یہ حکمتوں بھرا سلسلہ ہے جو اس کی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ، رحمت شاملہ اور وحدانیت مطلقہ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔ اور ایسا عظیم الشان اور بےمثال مظہر جو دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں ہر جگہ، ہر وقت اور ہر اعتبار سے دعوت غور و فکر دیتا ہے اور ڈوب ڈوب کر طلوع ہو ہو کر اپنے خالق ومالک کی عظمت شان، اس کی قدرت مطلقہ، حکمت بالغہ، رحمت شاملہ، عنایت کاملہ اور مخلوق کے عروج وزوال، ترقی و کمال اور فنا وزوال کے عظیم الشان اور انقلاب آفریں درسہائے عبرت و بصیرت دیتا ہے۔ لیکن دنیا ہے کہ غفلت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اور وہ اس بارے غور وفکر سے کام لینے کی زحمت گوارا کرتی ہی نہیں ۔ الا ما شاء اللہ - 116 فضل خداوندی کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ فرمایا گیا کہ " بیشک اللہ بڑا ہی فضل فرمانے والا ہے لوگوں پر "۔ کہ اس نے اپنی مخلوق پر ایسے ایسے عظیم الشان کرم فرمائے جو دوسرے کسی کے بس میں ہی نہیں۔ اور انسان کو ان ان نعمتوں سے نوازا کہ جن کو کوئی شمار بھی نہیں کرسکتا۔ سو ذرا دن رات کے اسی سلسلے میں غور و فکر سے کام لیکر دیکھو کہ کس طرح اس نے اس حکمتوں بھرے سلسلے کو جاری اور قائم فرمایا جو لگاتار اور نہایت پابندی سے چلے جا رہا ہے۔ جس میں تمہاری طرح طرح کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور تم طرح طرح کے عظیم الشان فائدوں سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہو اور لگاتار و مسلسل مستفید ہوتے ہو۔ مگر اب بھی ربِّ رحمن کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جس نے تمہارے لیے یہ عظیم الشان سلسلہ قائم فرمایا اور خود اس کو نہایت پابندی سے چلا رہا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو شب و روز کے اس متضاد سلسلے کا اس قدر ہم آہنگی سے انسان کی خدمت میں لگے رہنا اس بات کا ایک واضح اور کھلا ثبوت ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و متصرف ایک ہی ہے۔ اور اس سب میں ایک ہی ارادہ کار فرما ہے۔ ورنہ ان متضادچیزوں کے درمیان اس حد تک وثیق اور مضبوط و مستحکم توافق پایا جانا ممکن نہ تھا۔ سو یہ حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ کا اس کی مخلوق پر ایک عظیم الشان فضل و کرم اور انعام واحسان ہے اور ایسا عظیم الشان فضل و کرم کہ جو آگے کئی عظیم الشان انعامات و احسانات کا منبع ومصدر ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت پھر بھی غافل اور ناشکری ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے شکر سے سرفراز و سرشار رکھے اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی چلنے کی توفیق بخشے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 117 اکثریت نا شکروں کی : سو ارشاد فرمایا گیا اور پوری صراحت سے ارشاد فرمایا گیا کہ " اکثر لوگ شکر نہیں ادا کرتے ۔ اس ربِّ رحمن و رحیم کا ۔ "۔ کہ ایسے لوگ یا تو سرے سے غور و فکر سے کام لیتے ہی نہیں۔ محض جانوروں کی طرح غفلت اور بےفکری سے ان نعمتوں کو اڑاتے ہیں۔ اور اگر کبھی غور و فکر کرتے بھی ہیں تو اس منعم حقیقی وحدہ لاشریک کو بھول جاتے ہیں جس نے ان کو ان سب نعمتوں سے نوازا ہے اور ان کی نگاہیں طرح طرح کے مظاہر میں اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ اور یہ اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے ہیں۔ سو یہ سب کفران نعمت ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ یہاں سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اکثریت ہمیشہ غلط کار اور ناسپاس و ناشکرے لوگوں ہی کی رہی ہے۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ لہذا عوام کالانعام کی اکثریت کا کسی کی حمایت یا مخالفت میں اکٹھا ہوجانا اس کے حق پر یا باطل پر ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ جمہوریت کے نوساختہ بت کے پجاریوں کا کہنا اور ماننا ہے۔ اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے۔ پس حق وہ ہے جس کا حق ہونا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے دلائل کی بنا پر ثابت ہوجائے۔ اور باطل وہ ہے جو اس کے برعکس ہو ۔ اَللَّھُمَّ رَبَّنَا اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتَّباعَہَ واَرِنا الْباَطِلَ بَاطِلا وًّارْزُقْناَ اجْنِنَابَہ ۔ بہرکیف اس واہب مطلق ۔ جل و علا ۔ کی ان طرح طرح کی عظیم الشان اور گوناگوں رحمتوں اور نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان دل و جان سے اس کا شکر بجا لائے اور ہمیشہ اسی میں مشغول و منہمک رہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top