Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 80
وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَ لِتَبْلُغُوْا عَلَیْهَا حَاجَةً فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ عَلَیْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لئے فِيْهَا : ان میں مَنَافِعُ : بہت سے فائدے وَلِتَبْلُغُوْا : اور تاکہ تم پہنچو عَلَيْهَا : ان پر حَاجَةً : حاجت فِيْ : میں صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں وَعَلَيْهَا : اور ان پر وَعَلَي : اور پر الْفُلْكِ : کشتیوں تُحْمَلُوْنَ : لدے پھرتے ہو
اور تمہارے لئے ان میں اور بھی طرح طرح کے (فوائد و) منافع ہیں اور (یہ اس لئے پیدا کئے کہ) تاکہ ان پر سوار ہو کر تم لوگ اپنی کسی بھی ایسی حاجت کو پہنچ سکو جو تمہارے دلوں میں ہو اور ان پر اور کشتیوں اور جہازوں پر بھی تم لوگ سوار کئے جاتے ہو اور (اس کے علاوہ بھی)
150 چوپایوں میں طرح طرح کے فوائد و منافع : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان میں تمہارے لیے اور بھی طرح طرح کے عظیم الشان فائدے ہیں "۔ کہ ان کی اونوں، بالوں، کھالوں اور ہڈیوں وغیرہ سے بھی تم لوگ طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہو کہ انکے ذریعے تم لوگ اپنے استعمال کی طرح طرح کی چیزیں بناتے اور استعمال کرتے ہو۔ ان کے ذریعے طرح طرح کے عظیم الشان کاروبار کرتے اور دولت کماتے ہو وغیرہ وغیرہ۔ اور ان میں سے کچھ سے تم لوگ سواری اور باربرداری کا کام لیتے ہو جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ ۔ { وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَمْ تَکُوْنُوْا بَالِغِیْہِ الاَّ بِشِقِّ الاَنْفُسِ } ۔ سو تم لوگ اگر اس میں غور و فکر سے کام لو اس میں تمارے لیے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں اور ایسے عظیم الشان کہ انہی سے تمہاری راہیں روشن ہوسکتی ہیں ۔ وباللہ التوفیق - 151 سواری کی نعمت میں غور و فکر کی دعوت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس نے تمہیں ان چوپایوں کی نعمت سے اس لیے بھی نوازا اور سرفراز فرمایا ہے کہ تاکہ تم لوگ ان پر سوار ہو کر اپنے دلوں کی طرح طرح کی حاجتوں کو پورا کرسکو "۔ سو دور حاضر کی مشینی سواریوں سے پہلے تو نقل و حمل اور سیر و سفر کا سارا مدارو انحصار بہرحال جانوروں ہی پر تھا۔ اور خاص کر عربوں کے لئے تو اونٹ ہی تھے جس کے لئے ان کا شاعر کہتا ہے ۔ مَا فَرَّقَ الاَبْدَانَ بَعْدَ اللّٰہِ إِلّا الابل ۔ ومَا غُرَاب البین الِّا ناقۃٌ و جملٌ۔ یعنی " جسموں کی باہمی جدائی اور دوری کا سبب اللہ تعالیٰ کے بعد اونٹ ہی ہیں۔ اور آپس کی جدائی اونٹنی اور اونٹ ہی کی بنا پر ہے "۔ اور اسی لئے اونٹ کو " خشکی کی کشتی " یعنی " سفیۃ البر " کہا جاتا ہے۔ اور خشکی کے اس سفینے کو اس قادر مطلق نے ایسا بنایا کہ صحرا کے سفر کیلئے سب ضرورتیں اس میں بتمام و کمال پائی جاتی ہیں۔ پاؤں ہیں تو ریگستان کے سفر کے عین مطابق۔ اسی طرح ٹانگیں اور گردن وغیرہ بھی۔ سو کتنی بڑی عنایتیں اور رحمتیں ہیں اس قادر مطلق کی جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اور بندوں کی طرف سے کسی اپیل و درخواست کے بغیر از خود نوازا ہے۔ سو کتنے ظالم اور کس قدر بےانصاف ہیں وہ لوگ جو اس واہب مطلق ۔ خالق ومالک۔ جل وعلا ۔ سے منہ موڑ کر دوسروں کے آگے جھکتے ہیں۔ اور اس طرح وہ خود اپنی تذلیل و تحقیر اور ہلاکت و تباہی کا سامان کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر شکل سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 152 کشتیوں اور جہازوں کی نعمت کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا " اور کشتیوں اور جہازوں پر بھی تم لوگ سوار کیے جاتے ہو "۔ یعنی خشکی میں تو تم لوگ جانوروں پر اور تری میں تم کشتیوں اور جہازوں پر سوار ہوتے اور سفر کرتے ہو "۔ اور کہاں کہاں پہنچتے ہو۔ اور جو پانی ایک چھوٹے سے کنکر کو بھی اٹھانے کی بجائے اسے غرقاب کردیتا ہے وہ تمہارے لئے اتنی بھاری بھرکم کشیتوں اور دیو ہیکل جہازوں اور بحری بیڑوں کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ ذرا اتنا تو سوچو کہ اس کو اس طرح تمہارے لئے مسخر کس نے کردیا ؟۔ اور اس کا تم پر کیا حق بنتا ہے ؟ اور اس کے اس حق کو کس طرح ادا کیا جاسکتا ہے۔ نیز یہ بھی سوچو کہ جس خام مال کے ذریعے تم لوگ یہ کشتیاں اور جہاز بناتے ہو اس کو کس نے پیدا کیا اور جس عقل و فکر سے تم لوگ اس ضمن میں کام لیتے ہو وہ تم کو کس نے بخشی۔ سو اس واہب مطلق ۔ جل وعلا ۔ نے بحر و بر کی اس پوری کائنات کو کس قدر پر حکمت طریقے سے تمہارے خدمت میں لگا دیا ہے۔ تو کیا وہ تم لوگوں کو یوں ہی چھوڑ دے گا ؟ اور تم سے کوئی پرسش نہیں کرے گا۔ سو وہ تم لوگوں سے ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھے گا اور وہ دن قیامت کا دن ہوگا جو کہ عدل و انصاف اور فصل وتمیز کا دن ہے۔
Top