Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 57
وَ مَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا١٘ وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَمَا نُرِيْهِمْ : اور نہیں ہم دکھاتے ان کو مِّنْ اٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا هِىَ اَكْبَرُ : مگر وہ زیادہ بڑی ہوتی تھی مِنْ اُخْتِهَا : اپنی بہن سے وَاَخَذْنٰهُمْ : اور پکڑ لیا ہم نے ان کو بِالْعَذَابِ : عذاب میں۔ ساتھ عذاب کے لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ : تاکہ وہ لوٹ آئیں
آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو دلیل ہے میرے پرو ودگار کی طرف سے اور تم اسی کو جھٹلاتے ہو جس چیز کا تم تقاضا کررہے ہو وہ میرے پاس نہیں،86 ۔ حکم (تو اور کسی کا) نہیں بجز اللہ کے وہی حق کو بتلاتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے،87 ۔
86 ۔ یعنی عذاب الہی۔ ای العذاب (قرطبی) (آیت) ” ما عندی ما تستعجلون بہ “۔ یعنی مجھ میں اس عذاب کی جلد یا بدیر لانے کی قدرت کہاں ؟ لا قدرۃ لی علی تقدیمہ او تاخیرہ (کبیر) منکرین طنز کے لہجہ میں رسول اللہ ﷺ سے بار بار کہتے تھے کہ سچے ہو تو ہم پر عذاب الہی لا دکھاؤ یہ جواب اسی بیہودہ فرمائش کا دیا جارہا ہے۔ فانھم کانوا لفرط تکذیبھم یستعجلون نزولہ استھزاء (قرطبی) (آیت) ” علی بینۃ من ربی “۔ سب سے بڑا بینۃ یہی قرآن مجید ہے جو دنیا کا عظیم ترین دائمی ومستقل معجزہ ہے۔ اپنی تعلیمات کے لحاظ سے جامع وکامل، اپنی ہدایت و احکام کے لحاظ سے بےمثل اور اپنی انشاء وطرز بیان کے لحاظ سے بھی اپنا نظیر آپ ای علی حجۃ من جھۃ ربی وھی القران (کشاف) بینۃ کا صیغہ نکرہ تنوین کے ساتھ اظہار عظمت کے لئے ہے۔ یعنی بہت بڑی دلیل، التنوین للتفخیم ای بینۃ جلیل الشان (روح) (آیت) ” وکذبتم بہ “۔ یعنی تمہارا حال یہ ہے کہ تم ایسی صاف روشنی کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہو، بہ ضمیر مذکر البینۃ کی جانب ہے، اس کے معنی بیان، یا اس کے مفہوم و مراد ” قرآن “ کے لحاظ سے۔ ای بالبینۃ لانھا فی معنی البیان وقیل بالفرقان (قرطبی) ذکر الضمیر علی تاویل البیان اوالقران (کشاف) ای ما جئت بہ (معالم) بینۃ کے اصل معنی بیان کے ہیں، اور بیان و توضیح کے معنی میں یہ محاورہ عربی لغت میں عام ہے۔ ای انی علی بیان وبینۃ وبرھان قد وضح لی من ربی وکذلک تقول العرب فلان العرب فلان علی بینۃ من ھذا الامر اذا کان علی بیان منہ (ابن جریر) ای علی بیان وبصیرۃ وبرھان (معالم) 87 ۔ (چنانچہ اپنی حکمت مطلقہ کے مطابق وہ صحیح ومناسب وقت پر اپنا عمل اور ناطق فیصلہ بھی صادر فرمادے گا) والمراد ان ذلک العذاب ینزلہ اللہ فی الوقت الذی اراد انزالہ فیہ (کبیر) (آیت) ” یقص الحق “۔ اللہ ہی حق کو بتلاتا ہے۔ چناچہ اس وقت بھی اس نے حق کو روشن دلائل کے ساتھ قرآن کی صورت میں پیش کردیا۔ ای یحکم بالحق بدلیل (معالم) (آیت) ” ان الحکم الا للہ “۔ یعنی اختیار و حکومت تو تمامتر اللہ کی ہے۔ کائنات میں حاکمانہ تصرف صرف وہی کرسکتا ہے۔ میں عذاب اپنے ارادہ واختیار سے کب لاسکتا ہوں اس کا انحصار تو ارادۂ الہی پر ہے۔ ای فی تاخیر العذاب وتعجیلہ (قرطبی) ای فی تاخیر عذابکم (کشاف) والمراد ھھنا ان الحکم الا للہ فقط فی تاخیر عذابھم (کبیر) فمعنی الکلام اذا ما الحکم فی ماتستعجلون بہ ایھا المشرکون من عذاب اللہ فی ما بینی وبینکم الا للہ (ابن جریر) انما ای یرجع امر ذلک الی اللہ ان شاء عجل لکم ما سالتموہ من ذلک وان شاء انظرکم واجلکم (ابن کثیر) آیت کے اس جزء کو فرقہ خوارج نے بار بار پیش کیا ہے اور اس سے اپنا بڑا کام نکالنا چاہا ہے یہاں تک کہ خلیفہ راشد وبرحق حضرت علی ؓ کے خلاف بغاوت اسی آیت کو پیش کر کرکے پھیلائی تھی، اور آج بھی ایک گروہ ہر انسانی مادی حکومت کو اسی آیت کے ماتحت ” غیر اسلامی “ حکومت قرار دے کر اس سے کسی قسم کا تعاون ناجائز بلکہ حرام ٹھیرارہا ہے سباق قرآنی پر ادنی غوروتامل سے بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ آیت کو اس بحث سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ سباق تمامتر حکومت تکوینی وارسال آیات ومعجزات کا ہے۔ (آیت) ” لقضی الامر بینی وبینکم “۔ یعنی احقاق حق کے واسطے اس عذاب کو میں اب تک نازل کراچکا ہوتا، ای من العذاب لا نزلت بکم حتی ینقضی الامر الی اخرہ (قرطبی) لاھلکتکم عاجلا غضبا لربی (کشاف) لاوقعت لکم ما تستحقونہ من ذلک (ابن کثیر) اس فقرے نے اور زیادہ صاف کردیا کہ (آیت) ” ان الحکم الا للہ “۔ سے مراد حکومت تکوینی ہی تھی۔
Top