Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہ (اللہ) وہی ہے جس نے سکینت (و اطمینان کی کیفیت) نازل فرمائی ایمان والوں کے دلوں میں تاکہ اور بڑھ جائے ان کا ایمان ان کے (پہلے) ایمان کے ساتھ اور اللہ ہی کے لئے ہیں لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ بڑا ہی علم والا نہایت ہی حکمت والا ہے
[ 6] مسلمانوں کے لئے سکون و اطمینان کی عنایت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اللہ ہی نے مسلمانوں کو سکنیت اور حوصلہ مندی کی نعمت سے سرفراز فرمایا "۔ سو یہ بھی ان خاص انعامات میں سے ہے جن سے حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کو نوازا گیا تھا کہ آپ ﷺ کے ساتھیوں نے ان نہایت مشکل اور کٹھن حالات میں نہایت سکون و اطمینان اور صبر و استقامت کا ثبوت دیا۔ اور کفار کی طرف سے سخت اشتعال انگیزیوں کے باوجود انہوں نے کسی بھی ایسی حرکت کا ارتکاب نہیں کیا جو ان کے کاز کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے بالکل نہتے اور احرام کی حالت میں ہونے کے باوجود خون عثمان کا بدلہ لینے کے لئے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ سو یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کرم و احسان تھا کہ اس نے اس ہوشربا صورت حال میں اہل ایمان کو ایسے سکون و اطمینان سے نوازا جو اس فتح مبین کا ایک ہم سبب قرار پایا۔ والحمد للّٰہ رب العالمین۔ ورنہ احرام کی حالت میں ہونے کے باوجود، اور اپنے مستقر سے اس قدر دور ہونے کے باوجود، اور کفار کے اس قدر قریب ہوتے ہوئے بھی ان کا جہاد و قتال کیلئے بیعت کرنا اطاعت و فرمانبرداری کا ایک عدیم النظیر اور بےمثال نمونہ تھا جو ان حضرات نے اس موقع پر پیش کیا۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ [ 7] اہل ایمان کے لئے ان کے ایمان میں اضافے اور قوت کی عنایت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تاکہ بڑھ جائے ان کا ایمان ان کے ایمان کے ساتھ " یعنی اس سفر اور اس کے دوران لاحق ہونے والی مشقتوں اور مشکلات سے ان کے ایمان کی قوت اور اس کی روشنی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ یعنی ایک تو ان کا وہ ایمان تھا جو اس مہم سے پہلے ان کو حاصل تھا۔ اس پر مزید ایمان ان کو اس مہم کے دوران پیش آنے والی مشکلات و مصائب اور بتلاء و آزمائش پر صبر و استقامت اور صدق و اخلاص کی بنا پر نصیب ہوا۔ سو اس ارشاد ربانی سے اللہ پاک کی اس سنت اور دستور کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اس دنیا میں اہل ایمان کو جو آزمائشیں پیش آتی ہیں وہ دراصل ان کے ایمان کی جانچ پرکھ کیلئے ہوتی ہیں۔ پس اس جانچ پرکھ میں پورے اترتے ہیں ان کے ایمان کی قوت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نفس مطمئنہ کی بادشاہی سے سرفراز ہوجاتے ہیں اور اگر وہ فیل ہوگئے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ تو وہ برابر فیل ہی ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا نور ایمان بالکل ہی بجھ جاتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم جل و علا۔ [ 8] اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ سبحانہ و تعالیٰ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کا محتاج نہیں، سبحانہ و تعالیٰ ۔ کہ اس کے لشکر بےحد و حساب ہیں۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا " اللہ ہی کے لئے ہیں لشکر آسمانوں اور زمین کے " اور وہ اتنے عظیم الشان اور اس قدر لا تعداد ہیں کہ ان لشکروں کو اس کے سوا کوئی جان بھی نہیں سکتا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاف فرمایا گیا اور صاف صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا { وما یعلم جنود ربک الاھو ط وما ہی الا ذکری للبشر } الایۃ [ المدثر : 31 پ 29] مگر اس کے باوجود اس نے جو جہاد و قتال کی ذمہ داری اہل ایمان پر ڈالی تو وہ اس لئے کہ تاکہ خود ان کا بھلا ہو۔ کہ اس طرح ان کے ایمان و یقین کی قوت میں اضافہ ہو، ان کی قوت ایمانی کو جلا ملے، یہ عظیم الشان اجر وثواب کے مستحق اور حقدار بنیں، اور اس طرح ان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کے دروازے کھلیں اور کھلتے ہی جائیں۔ ورنہ وہ اگر چاہتا تو اپنی کسی بھی لشکر کے ذریعے کفار و مشرکین سمیت تمام دشمنان اسلام کا کام تمام کردیتا۔ اور تم کو اے مسلمانو ! جہاد و قتال کی سرے سے تکلیف ہی نہ دیتا۔ مگر یہ چونکہ اس کے علم لامحدود اور حکمت بےپایاں کے تقاضوں کے مطابق نہیں تھا اس لئے اس نے ایسے نہیں کیا۔ بلکہ دین کی تبلیغ و سربلندی کے لئے جہاد و قتال کی ذمہ داری تم پر ڈالی تاکہ اس سے تم لوگوں کو دنیا میں بھی عزت و سرفرازی نصیب ہو اور آخرت میں بھی تم جنت کی سدا بہار نعمتوں سے بہرہ ور ہو سکو۔ جیسا کہ اگلی آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی نصرت و اعانت کے لئے جو اہل ایمان کو آمادہ کیا تو یہ اس لئے کی کہ تاکہ ان کو اپنے انعام و احسان سے نوازے۔ اور وہ اپنی اس نیکی سے اپنے ایمان و یقین میں مزید اضافہ کریں۔ ورنہ اپنے دین اور اپنے رسول کی مدد کیلئے وہ کسی کا محتاج نہیں۔ آسمانوں اور زمین کی تمام قوتیں اور جملہ لشکر اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ ئِ قدرت و تصرف میں ہیں۔ وہ جب چاہے کفار و مشرکین سے اپنے ان لشکروں میں سے کسی بھی لشکر کے ذریعے انتقام لے لے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔
Top