Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لایا کرے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کو جہالت (و نادانی) کی بناء پر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کئے پر ندامت اٹھانا پڑجائے
[ 14] خبر کے قبول کرنے کے بارے میں احتیاط اور تحقیق کی ہدایت : سو اس ارشاد سے فاسق کی خبر پر عمل سے پہلے اس کی تحقیقی کی ضرورت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ روایات کے مطابق آنحضرت ﷺ نے حضرت ولید بن عقبہ ؓ کو بنو مصطلق سے زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا۔ اور ان کے ساتھ ان لوگوں کو اسلام سے پہلے کی کوئی عداوت چلی آرہی تھی۔ اس بنا پر ان کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ شاید وہ لوگ مجھے قتل کردیں۔ تو یہ راستے سے ہی واپس لوٹ کر آگئے۔ اور بعض روایات کے مطابق آپ وہاں پہنچے تو وہ لوگ آپ ؓ کے استقبال کیلئے نکل آئے۔ مگر انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے قتل کرنے کی غرض سے نکلے ہیں۔ اس لئے یہ بھاگ کر واپس آگئے۔ اور آکر آنحضرت ﷺ کو رپورٹ دی کہ وہ لوگ تو نعوذ باللّٰہ۔ اسلام سے پھرگئے ہیں۔ اور مجھے قتل کرنے کیلئے نکل پڑے۔ جس پر حضور ﷺ کو بہت صدمہ ہوا اور غصہ آیا۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ تو آپ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو تحقیق حال کے لئے بھیجا۔ اور بعض روایات کے مطابق فوج کا ایک دستہ بھی ان کی سربراہی میں ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے بھیج دیا۔ مگر مدینہ منورہ کے باہر ہی آپ کی ملاقات بنو مصطلق کے اس وفد سے ہوگئی جو کہ صورت حال کی وضاحت کیلئے حضور ﷺ کی خدمت میں ازخود حاضری دینے کو آرہا تھا۔ تو آنحضرت ﷺ کو پوچھنے پر ان لوگوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ نہ تو ہم مرتد ہوئے ہیں اور نہ ہی آپ ﷺ کا کوئی قاصد ہمارے پاس گیا ہے۔ تو اس موقع پر یہ آیر کریمہ نازل ہوئی جس میں تحقیق کے بعد قدم اٹھانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہاں پر فاسق سے مراد حضرت ولید بن عقبہ نہیں ہیں کہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کے صحابی تھے۔ اور حضور ﷺ کے صحابہ کرام سب کے سب عدول اور ہر طرح کے فسق و فجور سے پاک و نفور تھے۔ اسی بنا پر امام رازی (رح) نے اس روایت ہی کی تضعیف بیان کی ہے اور صحابہ کرام ؓ کو تو رضائے الٰہی کی سند قرآن پاک میں صاف وصریح طور پر مل چکی ہے۔ اور یوں بھی حضرت ولید ؓ سے یہاں پر زیادہ سے زیادہ ایک خطا ہوئی تھی اور بس۔ اس سے فسق لازم نہیں آتا۔ پس حق اور سچ یہ ہے کہ یہاں پر مطلقاً ایک عمومی قاعدہ و ضابطہ اور قانون بیان فرمایا گیا ہے کہ جب بھی کبھی کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ اور بلا تحقیق اس پر عمل نہ کیا کرو۔ یہ نہیں کہ اس آیت کریمہ میں حضرت ولید کو فاسق قرار دیا گیا ہے۔ سو معاشرتی امن و استقرار کیلئے یہ ایک بڑا اہم درس اور ٹھوس ضابطہ ہے کہ کسی بھی خبر پر تحقیق کئے بغیر عمل مت کرو۔ کتنے ہی فتنے اور فساد ایسے ہوتے ہیں جو تحقیق نہ کرنے کی بنا پر معاشرے میں جنم لیتے ہیں۔ اور بات بگڑ کر کہیں جا پہنچتی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اگر کسی خبر پر عمل کرنے سے اس کے بارے میں تحقیق کرلینے کے اس حکم خداوندی پر پوری طرح عمل کیا جائے تو بہت سے فتنوں کا دروازہ بند ہوسکتا ہے۔
Top